موت سے فرار ممکن نہیں



”زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے“ ، کبھی کبھار خود سے سوال کرتا ہوں کہ جس ذات نے ہمیں مسیحا بنایا، انسانیت کے دکھ کا مداوا کرنے کی توفیق دی تو کاش ہمارے ہاتھ شفاء بھی دی ہوتی۔ موت اٹل حقیقت ہے، اس سے فرار ممکن نہیں، مالک دوجہاں نے کتاب حکمت میں کہہ دیا ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، تو رخت سفر تیار رکھیے، پتا نہیں کہ کب بلاوا آ جائے ”

دوپہر کو ہی ابوبکر کا فون آیا کہ ماما جی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس بات کا علم تو دو دن پہلے ہی ہو گیا تھا کہ اب جس اسٹیج پر آ چکے ہیں وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ میں نے اپنی پوری کوشش کی، لیکن اس کی حکمت کے سامنے انسان بے بس ہے۔ ابوبکر کے ماما جی کو ہسپتال میں، میں نے ہی ریسیو کیا، دوا شروع کی، ٹیسٹ کروائے، چارٹ بنایا، فائل مکمل کی، ایمرجنسی میں کچھ طبعیت سنبھلی تو وہاں سے ہی Icu شفٹ کروا دیا۔

انکل ابراہیم روزانہ کال کرتے اور یہی تلقین کرتے کہ بیٹا بڑے قریب عزیز ہیں، اپنی پوری کوشش کرنا، میں انہیں پوری یقین دہانی کرواتا۔ علاج شروع تھا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ چھاتی کے ایکسرے میں بھی کافی مسئلہ تھا، سانس لینے میں دشواری تھی، لیکن مصنوعی آکسیجن، بھاپ سے، سٹیرائیڈ کے انجکشن سے ان کے سانس کے عمل کو بحال رکھنے کی اپنی پوری کوشش کر رہے تھے۔ میں ہر ڈاکٹر صاحب کو خصوصی اوور دے کر آتا کہ یہ میرے عزیز ہیں، خصوصی خیال رکھیے گا۔

ان کی فریش لیبز آئیں، کنسلٹنٹ کے نوٹس پڑھے تو پتا چل چکا تھا کہ اب ہم انسانوں کی بساط بس یہاں تک ہے، میں نے انکل کو ساری بات بتا دی تھی، انہوں نے پوچھا کہ بیٹا اور کتنی دیر، میں نے کہا چند گھڑیاں بھی ہو سکتی، یا ایک دو دن بھی لگ سکتے۔ میں نے پھر بھی ہمت نا ہاری، لائف سپورٹ چلائی، ایک ڈرپ مزید لگائی، آکسیجن کا پریشر مزید بڑھایا، اور دعا کی کہ مولا اگر معجزہ ہو سکتا تو کر دے۔

میں نے ابوبکر کو یہی کہا تھا کہ یارا تیرا ماما میرا پہلا مریض ہو گا جس کو رسیو بھی میں نے کیا تھا اور DC بھی لگتا مجھے ہی بنانا پڑنی ہے۔ لیکن میں اندر سے دعاگو بھی تھا کہ یہ کام میں نا ہی کروں، آج صبح آنے سے پہلے میں چکر لگانے گیا۔ حالت ویسے ہی تھی، جیسے زندگی اپنی چند آخری سانسیں پوری کرنے کی تگ و دو میں ہو۔ اگلے ڈاکٹر کو پھر کہا کہ خیال کیجیئے گا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا، رات کی ڈیوٹی کے بعد سویا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور افسوسناک خبر میری منتظر تھی۔

دکھ کی ایک لہر میرے وجود کو ریزہ ریزہ کر گئی۔ میں نے مغفرت کی دعا کی۔

اسکے بعد وٹس ایپ پر میسج آ گیا کہ ڈاکٹر یوسف کی دادی بھی چل بسی، دو دن قبل ہی میرے کلاس فیلو متین کے دونوں تایا جان اس جہان فانی سے چل بسے تھے، نیٹ ورک نا ہونے کی وجہ سے ہم جنازے پر نا جا سکے، ابوبکر کے ساتھ یہی پلان بنا رہا تھا کہ افسوس کے لیے کب شیخوپورہ جایا جائے کہ ایک اور آزمائش نے آ گھیرا۔

اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے، ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے، امین!

”زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، موت اٹل حقیقت ہے، اس سے فرار ممکن نہیں، مالک نے کتاب حکمت میں کہہ دیا ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، تو رخت سفر تیار رکھیے، پتا نہیں کب بلاوا آ جائے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments