زید آیت ملک: چھپ کر سپین پہنچنے والا پناہ گزین جس کی دوڑنے کی صلاحیت نے اسے شہریت دلوا دی


اکتیس دسمبر 2006 کو جب نصف شب ہونے والی تھی تو سپین میں زیادہ تر لوگ نئے سال کی آمد کی تیاریاں کر رہے تھے۔

مگر زید آیت ملک نے وہ رات پولیس کو چکمہ دیتے ہوئے گزاری۔

وہ اور اُن کے کزن تھوڑی ہی دیر قبل مراکش سے ایک کشتی میں لوڈ کیے گئے ایک ٹرک کے اندر چھپ کر پانچ گھنٹے کا سفر طے کر کے سپین پہنچے تھے۔

وہ اب تک تو چھپے رہنے میں کامیاب رہے تھے مگر پہلی بار یورپی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد اب لگ رہا تھا کہ اُن کی خوش قسمتی تمام ہو چکی ہے۔

اٹلس پہاڑیوں کے دامن میں گزارے گئے بچپن سے ہی زید ایک جفاکش رنر تھے۔

چنانچہ دسمبر 2006 کی اُس رات اُن کی یہ صلاحیت پکڑے جانے اور فرار ہوجانے کے درمیان فرق بن گئی۔

بعد میں اس سے اُن کے لیے کئی دروازے کھلے اور وہ اُس ملک سے بے دخل ہونے سے بچ گئے جسے اب وہ اپنا گھر مانتے ہیں۔

Short presentational grey line

زید کا خاندان خانہ بدوش بربر چرواہا گھرانہ ہے جو مراکش کے دارالحکومت رباط سے 350 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں رہتا ہے۔

وہ کپڑے کے ایک بڑے سے خیمے میں رہتے ہیں اور ہر چند ہفتوں بعد اپنی بکریوں کے چارے کی تلاش میں وہاں سے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔

سنہ 1984 میں ایسے ہی ایک خیمے میں اُن کی پیدائش ہوئی۔ وہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور سب میں سے صرف وہی سکول گئے۔ مگر جب وہ 18 سال کے ہوئے تو اُنھیں خاندان کے لیے پیسے کمانے تھے۔

وہ مراکش کے بحرِ اوقیانوس والے ساحل کے پاس تعمیراتی سائٹس پر کام کرنے لگے جہاں اُنھیں مہینے میں تقریباً 500 یورو (430 پاؤنڈز) مل جایا کرتے۔

پھر 2006 میں اُنھوں نے یورپ منتقل ہونے کی ٹھان لی۔

اُس سال لگ بھگ 40 ہزار غیر قانونی تارکینِ وطن کو سپین میں داخلے کی کوشش کے دوران پکڑا گیا تھا۔

زید، اُن کے بھائی سعید اور اُن کے کزن محمد، تینوں ہی وہ معاشی تارکِ وطن تھے جو اس بڑی تعداد میں شامل تھے۔

سعید اور محمد بھی تعمیراتی شعبے میں کام کرتے تھے مگر وہ اپنا زیادہ تر وقت طنجہ کی بندرگاہ کی نگرانی کرتے رہتے۔ وہ یہ کام سپین جا رہی کسی کشتی میں سوار ہو کر یورپ پہنچنے کا بہترین طریقہ ڈھونڈنے کے لیے کرتے۔

پھر نئے سال کے موقعے پر محمد نے زید کو بندرگاہ کے داخلی دروازے پر ملنے کے لیے قائل کر لیا۔

کسی بھی چیز کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی مگر جب ایک ٹیکسی ایک ٹرک کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تو محمد اچانک غائب ہو گئے۔

کچھ ہی لمحوں بعد زید نے اُنھیں ٹرک کے نیچے سے چلاتے ہوئے سنا: ‘بھاگو، یہاں جگہ ہے۔ اگر ہم ابھی نہیں نکلے تو کبھی بھی پار نہیں ہو پائیں گے۔’

زید بھاگ پڑے۔ ٹرک کے نیچے موجود کیبلز کو پکڑے ہوئے ہی وہ بندرگاہ میں داخل ہوئے اور وہاں سے بجرے تک پہنچ گئے۔

اُنھیں معلوم تھا کہ وہ کیا جوکھم مول لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے کی ایک کوشش میں سعید پکڑے گئے تھے اور اُنھیں چھوڑے جانے سے قبل سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بجرے پر پہنچ کر زید اور محمد چھپنے کے لیے کسی کپڑے سے ڈھکے ٹرک کو تلاش کرنے لگے۔ پانچ گھنٹوں تک کھانے اور پانی کے بغیر وہ لکڑی کے تختوں سے بنائی گئی ایک چھوٹی سے جگہ میں اکڑوں بیٹھ کر چھپے رہے۔

جب یہ کشتی سپین پہنچ گئی اور ٹرک سپین کی سرزمین پر اتر گیا تو پولیس نے اسے ایک جگہ روکا۔

سامان کی تلاشی لی گئی۔ جب ٹارچوں کی روشنیاں سیدھی اُن کی خفیہ جگہ پر پڑنے لگیں تو اُن کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے۔

مگر اُن پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔ اُنھوں نے یہ کر دکھایا تھا۔

Map showing location of Oudadi

اس کے بعد ٹرک دو گھنٹے تک وہیں کھڑا رہا۔ بالآخر زید اور محمد نے چوری چھپے ٹرک سے نکلنے کی ہمت کی۔ اُنھیں ملاگا کا بورڈ نظر آیا اور وہ ایک شاہراہ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔

کوئی 10 کلومیٹر چلنے کے بعد اُنھوں نے ایک انڈرپاس کے نیچے پناہ لی۔ سردی اور اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر کچھ دیر سونے کی کوشش کرنے لگے۔ صبح ہوتے ہی اُنھوں نے پھر سے چلنا شروع کر دیا۔

اُن کے سامنے سے آنے والی ایک گاڑی قریب آنے پر آہستہ ہونے لگی اور بتیوں سے اشارہ کرنے لگی۔

زید نے سوچا کہ شاید کار سوار اُن کی کوئی مدد کرنے والے ہیں۔ وہ گاڑی کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ وہ پولیس اہلار تھے۔

گھبرا کر وہ فوراً شاہراہ کی دوسری جانب نکل گئے۔ جھاڑیوں کے درمیان سے نکلنے کی کوشش میں اُن کے کزن محمد پکڑے گئے۔

زید چھپ گئے۔ ایک درخت کے نیچے اکڑوں اور ساکت بیٹھے ہوئے اُنھوں نے دیکھا کہ پولیس اُن کے کزن کو گاڑی میں ڈال کر اب اُن کی جانب ہی آ رہی تھی۔

زید دوبارہ بھاگ پڑے۔

سڑک کی دو لینز کے درمیان موجود جنگلے کو پھلانگ کر وہ بھاگنے لگے اور بس بھاگتے ہی رہے۔

محمد اور پولیس اہلکار ہنستے رہے۔ اُنھیں یہ لگ رہا تھا کہ کوشش کرنا بھی بیکار ہے۔ مگر وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اب وہ بالکل اکیلے تھے اور مدد کے لیے کسی کو نہیں پکار سکتے تھے۔

اُنھیں ہسپانوی زبان کا ایک لفظ تک نہیں آتا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے اُن کی ملاقات تین ایسے افراد سے ہوئی جن کے ذریعے وہ ساحل تک پہنچ گئے۔

سب سے پہلے تو جب وہ ایک سروس سٹیشن کے قریب جا رہے تھے تو کسی نے اُنھیں عربی میں پکارا۔ یہ ایک مراکشی خاتون تھیں جو اپنے ہسپانوی شوہر کے ساتھ مل کر سروس سٹیشن چلاتی تھیں۔ اُنھوں نے زید کو کھانا اور پانی فراہم کیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد مراکشی لوگوں کی ایک گاڑی رکی۔ وہ اُنھیں قریبی قصبے ایستیپونا میں اپنے گھر لے گئے، اُنھیں نہانے کی جگہ دی، کچھ کپڑے دیے، اور اُنھیں ایک اور ساحلی شہر المیریا میں اپنے خاندان کے ساتھ مزید رکنے کی دعوت دی۔

پھر کچھ دن بعد جب وہ ایک ٹیلیفون بوتھ سے اپنے گھر پر بات کر رہے تھے تو اُنھوں نے ایک اور فون بوتھ سے جانا پہچانا لہجہ سنا۔

یہ لہجہ اُن کے ایک پڑوسی گاؤں کے شخص کا تھا جو ایسے کھیت میں کام کر رہا تھا جہاں اضافی عملے کی ضرورت تھی۔

زید نے اپنے میزبانوں کو خدا حافظ کہا، اُن کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا اور نکل پڑے۔

اُن کی نئی زندگی اُن کا انتظار کر رہی تھی۔

تقریباً تین سال تک زید المیریا کے مضافات میں کھیتوں کے پاس ہی ایک فارم ہاؤس میں رہتے رہے۔

یہ مزدوری بہت سخت تھی۔ وہ ٹماٹر اور تربوز چنتے اور ساحلی سپین کی سخت گرمی میں روزانہ کئی گھنٹوں تک کھیتوں کی دیکھ بھال کرتے۔ کئی دفعہ تو اُنھیں لگتا کہ کیا اس سب کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں۔

زید کہتے ہیں: ‘جب میں مشکل میں تھا تو کئی مرتبہ میں نے سامان باندھ کر گھر واپس جانے کا سوچا۔ مگر ایک بار جب میں نے سرحد پار کر لی تھی تو واپس جانا آپشن نہیں تھا۔’

‘لوگ سرحد پار کرنے کے لیے بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں یا کئی سال تک کوشش کرتے ہیں۔ میں پہلی بار میں ہی کامیاب ہوا اور مواقع ملنے لگے تھے۔ مجھے ان کا فائدہ اٹھانا تھا۔’

سنہ 2010 میں اُنھوں نے اور اُن کے ایک دوست نے کورڈوبا صوبے میں بئینا قصبے میں زیتون چننے کی ملازمت حاصل کر لی۔ وہاں اُنھیں پہلی مرتبہ سپین گھر جیسا لگنے لگا۔

اُنھوں نے ہسپانوی زبان کے کورس میں داخلہ لیا، مقامی لوگوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنی شروع کی، اور دوڑ لگانے لگے جس کے ذریعے وہ مقامی ایتھلیٹکس کلب میڈیا لیگوا بئینا کے ارکان سے ملے۔

کلب کے صدر ہیزوس مورالیس کہتے ہیں کہ ‘جس لمحے میں اُن سے ملا، تب سے ہی زید ایک پرسکون اور فکرانگیز شخص لگے جو ہر موقعے کی قدر کرتے تھے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘وہ بہت تیز دوڑتے بھی تھے اور نہایت سخت جان تھے۔’

زید اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک اپارٹمنٹ میں رہنے لگے مگر جب وہ زیتون کا موسم ختم ہونے کے بعد چلے گئے تو زید نے یہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔

ابتدائی طور پر وہ ریڈ کراس کی بئینا شاخ کے فراہم کردہ عارضی شیلٹر میں رہنے لگے مگر پھر میڈیا لیگوا کے ارکان نے اُنھیں ایک اپارٹمنٹ کے حصول اور اس میں فرنیچر ڈالنے میں اُن کی مدد کی۔

اس کے علاوہ اُنھوں نے زید کو دوڑ کے مقامی مقابلوں میں شامل ہونے کے لیے سامان فراہم کیا، رجسٹریشن فیسیں اور سفری اخراجات بھی ادا کیے۔

مورالیس کہتے ہیں: ‘کلب نے اُن کی ہر اس چیز میں مدد کی جس کی اُنھیں ضرورت تھی، تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ میڈیا لیگوا خاندان کا حصہ ہیں۔’

زید نے مقامی روڈ ریسز میں انعامی رقم جیتنی شروع کی اور اُنھیں کچھ آمدنی زیتون چننے سے بھی حاصل ہو جاتی۔

اس کے بعد میڈیا لیگوا نے اُنھیں ایک مقامی کونسل کی ایتھلیٹ سکالرشپ کے حصول اور پھر سنہ 2012 میں رہائشی پرمٹ حاصل کرنے میں مدد کی۔

اس کے بعد وہ کارلوس شامورو کے ساتھ مل کر مقامی بچوں کو تربیت دینے لگے۔ کارلوس نے اُنھیں مشورہ دیا کہ وہ پہاڑی دوڑ میں حصہ لیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے مجھے ‘میرے بچن کی یادیں تازہ ہوگئیں کہ پہاڑ ہی میری دنیا تھے۔’

زید اس کام میں قدرتی طور پر ماہر تھے۔ جلد ہی کارلوس کے ذہن میں اپنے نئے دوست کے لیے ایک اور دوڑ کا خیال آیا۔

پہاڑوں میں گھرا ہوا زیگاما نامی چھوٹا سا قصبہ سنہ 2002 میں اپنی پہلی سالانہ دوڑ کے بعد سے مشہور ہو چکا تھا۔

اپنے فاصلے کے اعتبار سے یہ ایک میراتھن دوڑ ہے جو 2736 میٹر کی بلندی حاصل کر لیتی ہے۔

اس نے ٹریل رننگ کرنے والوں میں ایک دیومالائی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ ہزاروں لوگ اس روٹ پر مقابلہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور ایک انسانی راہداری بنا لیتے ہیں۔ یہ ٹور ڈی فرانس کا ایک پہاڑی سٹیج معلوم ہونے لگتا ہے۔

اس دوڑ میں حصہ لینے کے خواہشمند بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

سنہ 2020 میں 12 ہزار 563 افراد نے درخواست دی تھی مگر اس میں صرف 500 لوگوں کو اجازت ملتی ہے جن میں سے 225 کا انتخاب بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، 125 افراد پچھلی دوڑ میں کامیابی کی بنا پر منتخب ہوتے ہیں اور 150 افراد کو منتظمین کی مرضی سے شامل کیا جاتا ہے۔

شامورو چاہتے تھے کہ زید 2013 کی دوڑ میں حصہ لیں مگر جب 3207 لوگوں نے درخواست دی تو اُنھیں محسوس ہوا کہ اُنھیں مدد کی ضرورت ہوگی۔

اُنھوں نے نوریا برگادا کو کال کی جنھیں وہ ایک سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کے ذریعے جانتے تھے۔

بئینا کے دورے میں وہ زید سے ملی تھیں اور پہاڑوں میں اُن کے دوڑنے سے اُنھیں اپنے بیٹے کیلیان ہورنیٹ کی یاد آتی جو کئی مرتبہ زیگاما کی یہ دوڑ جیت چکے تھے۔

ہورنیٹ نے ریس کی ڈائریکٹر سے کہا کہ زید کو ریس میں شامل کرنا ‘اچھا ہوگا۔’

وہ مان گئیں۔

زید اب ایک بڑے اور بین الاقوامی سٹیج پر تھے۔ افتتاحی لائن پر اُنھیں کوئی نہیں جانتا تھا مگر جب وہ اچانک دوڑ میں سب سے آگے موجود لوگوں میں پہنچ گئے تو اُنھوں نے لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔

آدھے راستے تک ہی وہ سب سے آگے موجود ہورنیٹ سے صرف 90 سیکنڈ کی دوری پر رہ گئے تھے۔

زید اس مقابلے میں صرف چار گھنٹے میں چوتھے نمبر پر آئے۔ یہ ایسی کارکردگی تھی جس نے اُن کی زندگی بدل دی۔

اُنھیں ایک پروفیشنل ٹریل رننگ ٹیم نے بھرتی کر لیا اور وہ پورے یورپ میں دوڑ کے مقابلوں میں شامل ہونے لگے۔ اُنھوں نے سکائی رنر ورلڈ سیریز میں بھی کامیابیاں حاصل کیں۔

پھر سنہ 2013 اور 2014 میں وہ سپینش ماؤنٹین ریسنگ چیمپیئن شپس میں اختتامی لکیر سب سے پہلے پار کرنے والے شخص بنے لیکن دونوں ہی مرتبہ دوسرے نمبر پر آنے والے شخص کو قومی چیمپیئن قرار دے دیا گیا کیونکہ زید سپین کے شہری نہیں تھے۔

سنہ 2018 میں یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر سر اٹھانے لگا۔

اپنے رہائشی پرمٹ کی شرائط کے تحت زید کو سال میں 180 دن زیتون چننے تھے تاکہ اُن کے پرمٹ کی تجدید ہو سکے۔

چونکہ وہ مثبت شخصیت کے مالک تھے، اس لیے اُنھیں لگتا تھا کہ یہ کسی ایتھلیٹ کے لیے جفاکشی کی اچھی ٹریننگ ہے۔ اُنھیں لگا کہ اس سے اُنھیں ‘مشکلات جھیلنے’ میں مدد ملے گی۔

مگر اُن کی دوڑ کے شیڈول اور زیتون کی کاشت کے مختصر موسم کا مطلب تھا کہ سنہ 2018 میں وہ دنوں کی یہ تعداد پوری نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ جب اُن کا پرمٹ زائد المیعاد ہوجاتا تو وہ سپین میں غیر قانونی ہوتے۔ اور جس ملک کو وہ 12 سال سے اپنا گھر تصور کیے ہوئے تھے اُنھیں وہاں سے بے دخل کر دیا جاتا۔

ٹریل رننگ کے ذریعے زید کے کئی دوست بنے تھے۔ اُنھیں ایک پروفیشنل ٹیم نے نہ صرف اُن کی صلاحیت کی بنا پر بلکہ اُن کی شخصیت کی بنا پر بھی چنا تھا۔

ہمیشہ مسکرانے والے اور کبھی کبھی ایفرو سٹائل کے بال بنائے ہوئے زید جلد ہی نہایت مقبول ہو گئے اور ایتھلیٹس اور پرستار اُنھیں پہچاننے لگے۔

اب ان سب نے مل کر ایک سوشل میڈیا مہم چلانی شروع کر دی جس کا سادہ سا پیغام تھا: #ZaidSeQueda یعنی زید یہیں رہیں گے۔

اس مہم کو قومی میڈیا میں کوریج ملی اور اُن کے پرانے دوست ہورنیٹ نے اُن کی حمایت کی۔

جب زید نے کاتالونیہ میں ستمبر میں اپنے پرمٹ کی مدت تمام ہونے سے ایک ہفتہ قبل 109 کلومیٹر کی دوڑ میں حصہ لیا تو تماش بین ‘زید یہیں رہیں گے’ کے بینر لیے موجود تھے۔

اور یہاں تک کہ جب اُنھوں نے دوسرے نمبر پر اختتامی لکیر عبور کی تو لوگ یہی نعرہ لگاتے رہے۔

ڈیڈلائن گزر گئی مگر ایک مہینے بعد اُنھیں ایک خبر موصول ہوئی۔

وزارتِ انصاف نے اُنھیں ‘لیٹر آف نیچرلائزیشن’ کے ذریعے سپین کی شہریت دے دی جس کے تحت صرف غیر معمولی حالات میں ہی ایسا کیا جاتا ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ زید آیت ملک سپین میں ‘مکمل طور پر گھل مل گئے ہیں’ اور بتایا گیا کہ یہ فیصلہ اُن کے ‘کھیلوں میں شاندار کارکردگی کی وجہ سے لیا گیا ہے جن کے ذریعے ہمیں ایتھلیٹکس میں کامیابی کی سنجیدہ اُمید ملی ہے۔’

اُن کے کزن محمد بھی اب سپین میں رہائش پذیر ہیں۔ پولیس نے اُنھیں مراکش واپس بھیج دیا تھا جہاں سے وہ سپین میں ایک مرتبہ پھر داخل ہونے کی کوشش میں ناکام ہوئے۔

لیکن پھر اُنھیں کاتالونیہ میں ریزیڈنسی مل گئی۔

زید کہتے ہیں: ‘میں بے دخل ہونے سے ڈر رہا تھا۔ تب تک میری زندگی آسان نہیں تھی مگر میری حس کہہ رہی تھی کہ کچھ برا نہیں ہوگا۔’

‘میرے ماحول نے مجھے دیکھنے اور یقین کرنے کا حوصلہ دیا اور مجھے یقین دلایا کہ سپین کی حکومت مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گی۔’

‘اور یہی ہوا۔ میں انتہائی خوش تھا۔ میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں کیونکہ مجھے سپین نے اتنی محبت اور پذیرائی دی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کا اس حمایت کے لیے شکریہ کیسے ادا کروں۔’

Short presentational grey line

زید کو یاد نہیں کہ وہ 1984 میں خیمے میں کس دن پیدا ہوئے تھے۔ بربر لوگ سالگرہیں نہیں منایا کرتے۔ سکول کے داخلہ رجسٹر میں اُن کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1984 لکھوا دی گئی تھی مگر وہ جانتے ہیں کہ یہ دن درحقیقت ستمبر میں تھا۔

چنانچہ وہ اب 37 سال کے ہو چکے ہیں مگر پھر بھی سکائی رنر ورلڈ سیریز میں صفِ اول کے ایتھلیٹ ہیں۔ گذشتہ اتوار اُنھوں نے زیانوری میں 31 کلومیٹر کی دوڑ جیتی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ریس ‘میرے خوابوں کی کلید تھی۔’

ویسے تو وہ اس سیریز کی اگلی ریس 40 کلومیٹر طویل سنوڈن سکائی ریس میں حصہ نہیں لیں گے جو اتوار کو ویلز میں منعقد ہو رہی ہے، مگر اب اُن کے پاس مزید ایڈونچرز کے لیے کافی آزادی ہے۔

مثال کے طور پر اپریل میں اُنھوں نے کوسٹا ریکا میں 250 کلومیٹر کی وولکینو الٹرامیراتھن جیتی ہے۔

اور وہ اب بھی ایک گراں قدر ٹیم رکن ہیں اور جہاں جاتے ہیں خوشیاں بکھیرتے ہیں۔ بالآخر سپین کی نمائندگی کرنے کا موقع حاصل کرنے کے بعد وہ جولائی میں سکائی رننگ ورلڈ چیمپیئن شپ میں چوتھے نمبر پر آئے جس سے اُن کی ٹیم یہ ایونٹ جیت پائی۔

وہ سپین کی نیشنل ٹریل رننگ چیمپیئن شپس میں دوسرے نمبر پر آئے جس سے وہ رواں سال تھائی لینڈ میں ہونے والی ورلڈ چیمپیئن شپ کے لیے کوالیفائی کر گئے ہیں۔

اور ایک ٹرک کے نیچے چھپ کر سپین پہنچنے والا شخص 15 سال بعد نومبر میں فخر سے سپین کی نمائندگی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments