اگر بارش زیادہ ہوتی ہے، مسائل اور زیادہ ہوتے ہیں، خواری بہت زیادہ ہوتی ہے


کراچی میں آج کل بارش کا سلسلہ ہے اور وقفے وقفے سے بجلی چمکتی ہے اور بارش برستی ہے۔ بارش یعنی ابر رحمت، مگر گزشتہ

کئی دہائیوں سے یہ بارش کراچی والوں کے لئے رحمت سے زیادہ زحمت بن گئی۔ اس رحمت کو زحمت بنانے میں حکومتی کوششیں سرفہرست ہیں۔ بارش کس کو اچھی نہیں لگتی، سب کو اچھی لگتی ہے، مجھے بھی اچھی لگتی ہے لیکن آفس میں ہوں اور ہو جائے تو خطرناک لگتی ہے کیونکہ واپسی کی خواریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔

خیر! ہوا کچھ یوں کہ کراچی والوں کا بارش سے دل اٹھ گیا۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ بارش ہونی ہے اور پھر بجلی جانی ہے، بارش ہونی ہے تو سڑکوں پر پھر کئی کئی دنوں تک پانی جمع رہنا ہے، بارش ہو گئی تو ٹریفک جام میں پھنسنا ہے، بارش ہونی ہے تو پھر گٹر بھی ابلنا ہے اور پھر سڑکوں پر کئی کئی دنوں تک گندے پانی کا دھرنا رہنا ہے۔

کراچی شہر کو چلانے والے آج بھی نالوں کی صفائی کے انتظامات تک محدود ہے۔ پہلے انھی نالوں پر تجاوزات اور رہائش کی اجازت دی اور اب دوبارہ سے نالے کو آباد کیے جا رہا ہے۔ گویا نالے پر پہلے انسانوں کو آباد کیا اور اب انسانوں کو ہٹا کر نالوں کو دوبارہ آباد کیا جا رہا ہے۔ عجب پالیسی ہے، عجب پلان ہے باس۔

کراچی کی بے شمار سڑکیں آج تک اداس ہیں۔ اداسی سے مراد یہ نہیں کہ اس سڑک پر سے کوئی گزرتا نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے اس سڑک کا حلیہ اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ گاڑیاں و موٹر بائیک چلانا دشوار و خطرناک ہے۔ بارش سے پہلے جس سڑک پر رینگ کر گزرنا پڑتا ہو اس سڑک پر بارش کے بعد کیا حشر ہو گا یہ کراچی والے باخوبی جانتے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ ایک اور مسئلہ یہ کہ اکثر مرکزی شاہراؤں میں موجود گٹر پر ڈھکن موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بارش کے بعد اس سڑک پر حادثات ہونا واجب ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح اکثر سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے ہیں جو بارش کے بعد بھر جاتے ہیں اور پھر وہاں درجنوں حادثات رونما ہوتے ہیں۔

کراچی کی ایک بڑی مشہور سڑک ہے مجھے تو لگتا ہے اس سڑک کو بد دعا لگی ہے۔ وہ جہانگیر روڈ سڑک ہے۔ ویسے تو دو نوں طرف کی سڑک شدید بد دعا کی لپیٹ میں ہے مگر آج کل تین ہٹی سے گرو مندر جانی والی سڑک پر زیادہ تباہی کے مناظر ہیں۔ یہ سڑک چار ماہ پہلے بنی تھی مگر چند ہفتوں بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور پھر بارش نے اس سڑک کو کئی کئی جگہوں سے Down to Earthکر دیا۔

یہ ہی نہیں گزشتہ کئی دنوں سے میں نے وہاں ایسے ایسے مناظر دیکھیں کہ جب اس سڑک نے گاڑیوں کو ، مزدا ٹرک کو اور رکشوں کو گود لے لیا تھا۔ یہ ہی نہیں اس سڑک پر روزانہ درجنوں حادثات پیش آتے ہیں، بالخصوص درجنوں بائیک سوار افراد کی روزانہ ہڈیاں ٹوٹتی ہیں۔ اس سڑک پر بارش کے بعد کئی دلدل اور تالاب وجود میں آ جاتے ہیں اور سونے پہ مزید سہاگہ کہ گٹر ابلنے کا سلسلہ تو ہر دو سے تین روز بعد جاری ہوجاتا ہے ۔

یہ ہی نہیں بارش کا پہلا قطرہ زمین پر گرا نہیں حضرت بجلی غائب ہوجاتی ہے۔ یقیناً ایسا ہر علاقے میں نہیں ہے مگر کراچی کی بڑی آبادی میں یہ مسئلہ ہمیشہ کا ہے۔ مگر بجلی والوں میں غیرت نام کا کوئی کرنٹ ہی نہیں کہ وہ کراچی والوں پر رحم کر لیں۔ نظام کو بہتر بنا لیں۔ بارش ہوئی اور خبر ملی کہ 207 فیڈر ٹرپ کر گئے ہیں۔ بارش ہوتے ہی خبر ملی کہ پی ایم ٹی پھٹ گیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم تو یہ ہوا کہ چند پولوں میں کرنٹ بھی آ جاتا ہے اور درجنوں انسانی جانوں کو نگل لیتا ہے مگر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ آخر پاور اور پیسے رکھنے والوں سے کون سوال کرے؟

کراچی والوں کے ساتھ بے شمار مختلف انواع و اقسام کے مظالم روا رکھے جا رہے ہیں۔ کراچی جو پورے ملک کو پالتا ہے اور پورے ملک کے لوگوں کو اپنے اندر سموتا ہے مگر اس شہر کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا ہے۔ کراچی کے رہائشیوں کا بھلا کیا قصور؟ کراچی والوں پر کیا بے رحمی سی بے رحمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments