عمران خان کا تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پر ٹی آر ٹی ورلڈ کو انٹرویو: ’پاکستانی طالبان سے بات ہو رہی ہے، نہیں جانتے کہ نتیجہ خیز ہوگی یا نہیں‘


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان میں شامل کچھ گروپوں سے بات چیت کر رہی ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انھیں معاف کیا جا سکتا ہے۔

ترک تشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی ہے تاہم وہ اس بات چیت کی کامیابی کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو مشروط معافی دیے جانے کے بیان کے جواب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ ‘معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے اور ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔‘

عمران خان کا کہنا تھا ’میرے خیال میں کچھ طالبان گروپ ہماری حکومت سے مفاہمت اور امن کی خاطر ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے کچھ گروپوں سے رابطے میں ہیں۔‘

اس سوال پر کہ کیا یہ بات چیت ان کے ہتھیار ڈالنے پر ہو رہی ہے عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ ’مفاہمتی عمل‘ کے بارے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی صورت میں ’ہم انھیں معاف کر دیں گے اور وہ عام شہری بن جائیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ ’معاملات کے عسکری حل کے حق میں نہیں‘ ہیں اور کسی قسم کے معاہدے کے لیے پرامید ہیں تاہم یہ ممکن ہے کہ پاکستانی طالبان سے بات چیت ’نتیجہ خیز ثابت نہ ہو لیکن ہم بات کر رہے ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا افغان طالبان اس عمل میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے مدد ہو رہی ہے کہ یہ بات چیت افغان سرزمین پر ہو رہی ہے۔

شاہ محمود قریشی

یہ چند ہفتوں کے دوران دوسرا موقع ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے تحریکِ طالبان پاکستان کے شدت پسندوں کو معافی دینے کی پیشکش کی بات کی گئی ہے۔

اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا گیا تھا کہ اگر تحریک طالبان کے شدت پسند اپنی کارروائیاں چھوڑ دیں اور ہتھیار ڈال دیں تو حکومت انھیں معاف کر سکتی ہے تاہم وزیر خارجہ نے اس وقت طالبان سے کسی قسم کی بات چیت کی تصدیق نہیں کی تھی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘اگر طالبان اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں ترک کرتے ہیں اور حکومت کی رٹ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں تو انھیں عام معافی دی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ شدت پسند کارروائیاں جاری رکھتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہو گا۔‘

وزیر خارجہ کے اس بیان پر آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا جنھوں نے سوال اٹھایا تھا کہ بےگناہ بچوں کو مارنے والوں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے ردعمل میں تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پاکستان کی جانب سے معافی کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں ’دشمن کو‘ معافی دینے کی مشروط پیشکش کی تھی۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جہاد‘ نہ کرنے کے وعدے پر معافی ان کے لیے بے معنی ہے کیونکہ ‘معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے جبکہ ہمارے جد و جہد کا مقصد پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔’

طالبان

پاکستان کے سیکولر رہنماؤں اور فوجی قیادت کو مخاطب کر کے ٹی ٹی پی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔ '

بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ‘ملک میں شرعی نظام نافذ کرنے کا وعدہ یا ارادہ کیا جائے تو ہم اپنے دشمن کے لیے معافی کا اعلان کر سکتے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ’حملوں میں اضافہ‘، حقیقت کیا ہے؟

پاکستان میں دہشتگردی کی تازہ کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان کی ’طاقت‘ کے بارے میں کیا بتاتی ہیں؟

کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ کرنا صحیح ہو گا؟

شاہ محمود قریشی کی اس پیشکش کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سنگاپور سے تعلق رکھنے والے محقق عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ‘امن مذاکرات تنازعات کو حل کرنے کا حتمی طریقہ ہے لیکن ابھی مذاکرات کے لیے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پاکستان کو دہشت گردی کی موجودہ لہر پر قابو پانا ہوگا اور ایک مضبوط پوزیشن میں آ کر بات کرنی ہوگی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایسے میں جب افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے اسلام پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ بہت غلط اشارہ دے گا۔’

انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان کو دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے مسئلے پر کیسے آگے بڑھے گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments