مریم نواز کی تصاویر پر بحث: ’لیڈر کی شخصیت بھی ان کے کرشمے کے لیے اتنی ہی اہم ہوتی ہے'


کسی بھی ملک کے سیاستدان ہوں یا سربراہان مملکت وہ نہ صرف اپنے حامیوں اور مداحوں کے مرکز نگاہ ہوتے ہیں بلکہ ناقدین اور میڈیا کی نظریں بھی ان پر گڑی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے اپنے افکار کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کا جادو جگائے رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔

آپ انٹرنیٹ پر اگر دنیا کے سب سے زیادہ خوش پوش اور خوبرو رہنماؤں کی فہرست سرچ کریں تو آپ کو دور حاضر اور ماضی کے کئی رہنما دکھائی دیں گے جن میں برطانیہ کی ٹریسا مے، امریکہ کے براک اوباما اور ہیلری کلنٹن، کینیڈا کے جسٹس ٹروڈو، افریقہ کے نیلسن منڈیلا، کوفی عنان ، روس کے ولادیمیر پوتن، پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور بانی پاکستان محمد علی جناح سمیت درجنوں رہنما نظر آئیں گے۔

یہ بات تو سبھی مانتے ہیں کہ خوش لباسی ان رہنماؤں کا خاصہ بھی ہے اور ان کی شخصیت کو دو چند بھی کرتی ہے۔ لیکن اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا میں یہی موضوع زیر بحث ہے کہ ’مریم نواز‘ کی خوشی لباسی کو ماڈلنگ قرار دینا کیا درست ہے؟

اس نئی بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما حنا پرویز بٹ نے مریم نواز کی ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے اس کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’سٹائل کوئین مریم نواز۔‘

ان کی اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے صحافی عامر متین نے انھیں جتایا کہ گویا وہ روزانہ مریم نواز کی ’ماڈلنگ کی تصاویر‘ اپ لوڈ کر کے ان کی تشہیر کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ ایسے چاپلوسی والے الفاظ ملکہ، شہزادی کا استعمال کرکے مریم نواز کی اچھی تشہیر کر رہی ہیں۔ آپ کو ان کی سیاسی ذہانت، عقل کو ان کے برانڈڈ کپڑوں، جوتوں وغیرہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے۔‘

وہ یہاں رکے نہیں بلکہ بینظیر بھٹو، اینگلا مرکل، ممتا بینرجی اور اندرا گاندھی کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’ہمارے دور کی کچھ خواتین رہنماؤں نے اپنے کام کی وجہ سے نام بنایا۔ گوچی کے بیگز اور ورساچی کے جوتوں کے علاوہ بھی خوبصورتی اور وقار موجود ہے۔‘

ان کی ان باتوں کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی ایک اور رہنما ثانیہ عاشق کا کہنا تھا ’احترام کے ساتھ، ایک لیڈر کی شخصیت ان کے کرشمے کے لیے اتنی ہی اہم ہے۔ قائداعظم کی جناح کیپ سے لے کر بے نظیر کے لباس کے انتخاب تک، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ان کے پیروکار تعلق جوڑ سکتے ہیں۔ مریم خود کو ایک مضبوط پاکستانی روایتی خاتون کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ عورت کیسی دکھائی دیتی ہے اس سے مرد کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔‘

سیاستدانوں کی ظاہری شخصیت کتنا اہم ہے؟

فیشن ڈیزائنر ماہین خان کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خواتین کو اچھا لگنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کی تعلیم اور ذہانت ان کا تعارف ہوتا ہے لیکن خواتین کے لیے اپنے پیشے اور شعبے کے لحاظ سے ملبوسات کا انتخاب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین چاہے سیاستدان ہوں، بینکر ہوں یا کسی دفتر میں ملازمت کرتی ہوں انھیں صاف ستھرا دکھنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا ’میں اکثر اسمبلی میں بیٹھی خواتین کو لان کے جوڑوں میں دیکھتی ہوں جن کی استری تک خراب ہوتی ہے تو برا لگتا ہے۔ خواتین کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ گھر کے حلیے اور کام کے حلیے میں فرق ہونا چاہیے۔‘

ماہین خان نے پاکستان کی سابق وزیر اعظم ینظیر بھٹو کے لیے بھی کپڑے ڈیزائن کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک مرتبہ بینظر بھٹو نے مجھے بلایا، وہ شاپنگ کر کے لائی تھیں مجھے کہا کہ یہ کپڑے بنا دو تو میں نے منع کر دیا کہ میں یہ نہیں بناؤں گی۔ اس وقت میں نے بینظیر بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ انھیں سادہ یک رنگی لباس پہننا چاہیئں۔ لیکن ان کی اپنی پسند کا بھی خیال رکھا گیا چونکہ بینظیر بھٹو کو کندھوں پر چنٹوں والی آستینیں پسند تھیں اس لیے وہ بنائی گئیں۔‘

یہ بھی پڑھیئے

کیا بختاور کا عروسی جوڑا بھی بے نظیر بھٹو کا جوڑا بنانے والی ڈیزائنر تیار کریں گی؟

’ایکسٹینشن کے گناہ میں شامل نہیں تھی‘، مریم نواز کے بیان نے نئی بحث چھیڑ دی

لندن میں بیٹے کے نکاح میں شرکت کے لیے حکومت سے درخواست نہیں کروں گی: مریم نواز

ان ک مزید کہنا تھا کہ ’میں نے ان کا وہ سبز جوڑا بھی ڈیزائن کیا جو انھوں نے حلف برادری کے وقت پہنا اور وہ مشہور بھی ہوا۔ وہ جوڑا اس وقت برطانیہ کے میوزیم مادام تساؤ میں ہے۔‘

مریم نواز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز کو رنگ پسند ہیں، انھیں خوبصورت لگنا پسند ہے۔ وہ اپنے انداز میں خوبصورتی اور نسوانیت قائم رکھتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’اگرچہ میں مہنگی برانڈڈ چیزوں کے خلاف ہوں کیونکہ اس سے آپ اپنے ورکرز میں احساس کمتری پیدا کر سکتے ہیں تاہم یہ ان کا (مریم) انتخاب ہونا چاہے کہ وہ کیسی لگنا چاہتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’جہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے وہ ایک ذہین خاتون ہیں، وہ بہت محنت کرتی ہیں اپنی ظاہری شخصیت پر اور وہ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔‘

ماہین خان نے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی پلین رنگ پہنتی تھیں لیکن ان کے لباس میں ان کی شخصیت اور پسند جھلکتی تھی۔ ’سبھی لوگ ایک جیسے نہیں لگ سکتے کیونکہ ہر خاتون اپنے لباس میں اپنی شخصیت کو لے کر چلتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس خواتین جب یہ پوچھنے کے لیے آتی ہیں کہ انھیں کیا پہننا چاہیے تو وہ ان سے ان کے طرز زندگی اور سرگرمیوں کی تفصیل لینے کے بعد مشورہ دیتی ہیں۔ تاہم کچھ چیزیں سب کے لیے ضروری ہیں جن میں بند جوتے پہننا جن میں پاؤں نظر نہ آئیں، پیروں کے ناخن تراشنا، بالوں کا اچھے سے بندھے ہونا اور کپڑوں کو اچھے سے استری کرنا لازمی ہے۔‘

سوشل میڈیا بحث: ایسا ہر خاتون سیاستدان کے معاملے میں ہوتا ہے

سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد اس بات سے تو متفق نظر آئی کہ ایک اچھا لیڈر ظاہری دکھاوے سے نہیں بلکہ اپنے افکار اور وژن سے ہوتا ہے۔ لیکن وہیں کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے نظر ائے کہ عمران خان کو ’ہینڈسم وزیر اعظم‘ تو کہہ دیا جاتا ہے لیکن خواتین سیاستدانوں پر ماڈلنگ یا ان کے برانڈڈ لباس پر کڑی تنقید کی جاتی ہے۔ کچھ خواتین نے اسے متعصبانہ رویہ قرار دیا۔

یسری ثاقب نامی ایک ٹوئٹر صارف نے بظاہر مریم نواز کی روزانہ سجی سنوری تصاویر کو محض تشہر قرار دینے سے اتفاق کرتے ہوئے ان کی سیاسی قابلیت پر ہی سوال اٹھا دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین، چاہے وہ سیاستدانوں ہو یا نہ ہوں انھیں خوبصورتی کے بجائے معاشرے میں ان کی عقل اور شراکت کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کو معاملے میں تشہیر کے لیے کوئی سیاسی صلاحیت نہیں ہے۔ لہذا سٹائل سب سے اوپر ہے۔‘

تاہم محمد کشمیری کے مطابق یہ کسی خاص سیاسی وابستگی سے قطع نظر پاکستانی عوام کا عمومی مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کب سیاستدانوں کو ان کی شکل/ فیشن سینس کی بجائے ان کی سیاسی عقل سے سراہنا شروع گے؟ لوگوں نے یہی ہینڈسم عمران خان کے ساتھ کیا اور دیکھیں آج پاکستان کہاں ہے۔ ان سے کچھ نہیں ملا، ان کے ارادے ٹھیک ہیں لیکن آپ کو قوم کی قیادت کے لیے سیاسی فہم درکار ہوتا ہے۔ ‘

عمارہ خان کا کہنا تھا ’براہ مہربانی کوئی اس خاتون حنا کو بتائے کہ قیادت کو برانڈ، سواگ، سٹائل اور فیشن سینس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عام آدمی کے مسائل کے بارے میں تبدیلی اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے اسے دانائی، علم ، خواہش اور عام آدمی کو درپیش مسائل کے بارے میں شعور کی ضرورت ہے۔’

کچھ صارفین خصوصاً خواتین کا خیال ہے کہ ایسا ہر خاتون سیاستدان کے معاملے میں ہوتا ہے۔ عائشہ نامی صارف نے حنا ربانی کھر کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ جو وہ پیپلز پارٹی کی وزیر خارجہ تھیں تو اس وقت ہر کوئی ان پر اعتراض کرتا تھا اور اب یہی تلخی مریم نواز کے لیے بھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب عائلہ ملک عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کر رہی تھی، پی ٹی آئی وغیرہ سے ہر کوئی اس کی خوبصورتی اور سٹائل سینس پر تبصرہ کرتا تھا اور عمران خان کے جلسوں سے ان کی تصاویر پوسٹ کرتا تھا۔ پاکستان میں لوگ خواتین سیاستدانوں پر اعتراض اور تبصرہ کرتے ہیں۔ پارٹی اور پس منظر سے قطع نظر۔ ان دنوں مریم ’اِن‘ ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments