ایمل کاسی: جب ضعیف والد جوان بیٹے کو پی ایچ ڈی کی مبارکباد دینے اس کی قبر پر پہنچے


بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے بزرگ شہری ارباب ظاہر کاسی حال ہی میں جب اپنے بیٹے ایمل خان کاسی کی قبر پر گئے تو اُس روز انھوں نے دعا کے بعد بیٹے کو مبارکباد پیش کی۔

ایمل کاسی رواں برس 21 اپریل کو کوئٹہ میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

ارباب کاسی نے جوان بیٹے کی قبر کے پہلو میں سیمنٹ کا ایک بینچ بنوا رکھا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ وہ اِسی بینچ پر بیٹھ کر گزارتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ پانچ ماہ کے دوران وہ قریباً ہر روز بیٹے کی قبر پر گئے مگر 21 ستمبر کو یہ پہلا موقع تھا کہ جب وہ اپنے بڑے بیٹے اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ ایمل کو ’مبارکباد‘ دینے اُن کی قبر پر پہنچے۔

جس روز ایمل کاسی کی خودکش حملے میں ہلاکت ہوئی اس سے دو ہفتے بعد ان کی شادی طے تھی مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایمل کی والدہ نے گھر کا ایک کمرہ ایمل اور ان کی ہونے والی اہلیہ کے لیے نہ صرف مختص کر دیا تھا بلکہ سجا بھی رکھا تھا۔

ایمل کے والد بتاتے ہیں کہ ’اس کمرے کو ایمل کی والدہ اب بھی ایمل کا عروسی کمرہ قرار دیتی ہیں اور کسی کو بھی اس کمرے میں کوئی چیز چھونے کی اجازت نہیں ہے۔‘

ارباب کاسی نے جوان بیٹے کی قبر کے پہلو میں سیمنٹ کا ایک بینچ بنوا رکھا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ وہ اِسی بینچ پر بیٹھ کر گزارتے ہیں

ارباب کاسی نے جوان بیٹے کی قبر کے سامنے سیمنٹ کا ایک بینچ بنوا رکھا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ وہ اِسی بینچ پر بیٹھ کر گزارتے ہیں

والد کا کہنا ہے کہ ’سب سے چھوٹا بیٹا ہونے کے باعث وہ نہ صرف میری اور اپنی والدہ کی آنکھ کا نور تھا بلکہ خوش اخلاق ہونے کی وجہ سے پورے خاندان کو اُن سے بہت پیار تھا۔‘

ایمل نے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اپنی موت کے وقت وہ محکمہ جنگلات میں ورلڈ بینک کے ایک پراجیکٹ میں بطور ایڈمن آفیسر کام کر رہے تھے۔ والد کے مطابق ان کے بیٹے کی خواہش تھی کہ وہ پی ایچ ڈی کریں مگر ایمل کی ناگہانی موت کی وجہ سے ان کی زندگی میں یہ ممکن نہ ہو پایا۔

تاہم موت کے بعد ایمل کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا اور یہی وہ وجہ تھی جس کے باعث ایمل کے والد نے بیٹے کی موت کے پانچ ماہ بعد قبر پر جا کر اُن کو مبارکباد پیش کی۔

یہ اعزازی ڈگری ان کو ملی کیسے اور ان کے والدین نے متاثرین کو ملنے والی سرکاری رقم کیوں قبول نہیں کی، یہ سب جاننے سے پہلے ایمل کی زندگی کی کہانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

’چھوٹا بیٹا ہونے کی وجہ سے سب کا لاڈلا‘

اب گھر میں لگی ایمل کی تصاویر ہی بوڑھے والدین کا سہارا ہیں

اب گھر میں لگی ایمل کی تصاویر ہی بوڑھے والدین کا سہارا ہیں

ارباب کاسی بتاتے ہیں ’چونکہ وہ میرا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا تھا اس لیے جب میں دفتر سے آتا تو کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کے بعد ہم گاڑی میں شہر کی سیر کو نکل جاتے۔‘

’ایک دفعہ میں جب بیمار ہوا اور مجھے کراچی علاج کے لیے لے جایا گیا تو انھوں نے گھر پر ایک بکرا لاکر میری صحتیابی کے لیے صدقہ دیا۔۔۔ میرا بیٹا خوددار تھا اور اسی وجہ سے وہ سکول کے بعد سے اپنے تعلیمی اخراجات خود پورے کرنے کے لیے مختلف اداروں میں ملازمت کرتا رہا۔‘

ایمل کے بڑے بھائی اور یونیورسٹی آف بلوچستان میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے سربراہ ڈاکٹر میر وائس کاسی نے بتایا کہ ایمل کے دوستوں اور کلاس فیلوز نے بتایا کہ وہ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ ’ان کے دوستوں نے بتایا کہ اگر کسی کے پاس فیس جمع کروانے کے لیے پیسے نہ ہوتے تو وہ چپ چاپ دوستوں کی اپنی جیب سے مدد کرتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کوئٹہ دھماکہ: شب و روز ساتھ گزارنے والے دو دوست جو دنیا سے رخصت بھی اکٹھے ہوئے

’کاش کسی ماں باپ کو ایسی بہادری کا مظاہرہ نہ کرنا پڑے‘

’اظہار نہ صرف میرا بیٹا بلکہ رازدار اور دوست بھی تھا‘

ڈاکٹر میر وائس نے بتایا کہ ’میرا بھائی یہ کہتا تھا کہ وہ بیرون ملک نہیں جائے گا بلکہ پاکستان ہی سے پی ایچ ڈی کرے گا اور ایک ٹیچر کی حیثیت سے اپنے لوگوں کی خدمت کرے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایمل نے ایم فل کے بعد یونیورسٹی آف بلوچستان میں مینجمنٹ سائنسز کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے داخلہ لیا اور تھیسز جمع کرنے کے بعد آخری امتحان کے انتظار میں تھا لیکن ناگہانی موت نے ان کو اس کا موقع نہیں دیا۔

خودکش حملہ اور ایمل کی موت

سرینا ہوٹل

کوئٹہ میں سرینا ہوٹل میں ہونے والے زور دار دھماکے میں ایمل سمیت چار افراد ہلاک اور 11 افراد زخمی ہوئے تھے

ایمل کے والد کے مطابق رواں برس 21 اپریل کو ایمل دفتر سے آنے کے بعد اپنے کمرے میں پڑھتے رہے اور افطار سے ذرا دیر قبل وہ اپنے کمرے سے باہر نکلے۔

’افطار میں اس نے صرف ایک کھجور اور ایک گلاس شربت پینے پر اکتفا کیا اور ہمیں بتایا کہ وہ سرینا ہوٹل میں ان کے دوست شاہزیب نے ڈنر کا انتظام کیا ہے اور یہ کہ وہ وہاں جا رہے ہیں۔‘

’اس دن وہ بہت جلدی میں تھا۔۔۔ شاید اللہ تعالیٰ ان کو اپنے پاس بلا رہے تھے۔۔۔‘

ایمل جب ہوٹل میں ڈنر کر کے نکلے تو پارکنگ ایریا میں ہونے والے خودکش دھماکے کی زد میں آئے اور ہلاک ہو گئے۔

پہلی مرتبہ فون پر جی بابا نہیں سُن سکا؟

ایمل کاسی کے والد کا کہنا تھا کہ انھیں یاد نہیں پڑتا کہ ان کے بیٹے نے کبھی ان کی کال وصول نہیں کی ہو۔ ’اکثر وہ پہلی رنگ پر میری کال وصول کرتا اور ‘جی بابا’ کہہ کر میرا کلیجہ ٹھنڈا کرتا، لیکن 21 اپریل کو ایسا نہیں ہوا۔‘

’جب دھماکے کی خبریں مختلف چینلز پر چلنا شروع ہوئیں اور یہ بتایا گیا کہ دھماکہ سرینا ہوٹل میں ہوا ہے تو مجھے بے چینی ہوئی۔ میں نے ایمل کو متعدد کالز کیں لیکن ان کے فون سے جواب نہیں آیا اور پھر اس کا فون بند ہو گیا۔‘

اس صورتحال کے بعد ایمل کے بڑے بھائی اور دوست احباب ہوٹل اور ان کے دفتر کی جانب گئے۔ ان کے بھائی بتاتے ہیں کہ ’میں ننگے پاﺅں گھر سے باہر سڑک پر نکلا، میرے قبیلے کا ایک جوان موٹر سائیکل پر آ رہا تھا جس نے مجھے ہسپتال پہنچایا۔‘

’کسی کو بھی ہوٹل کی جانب نہیں جانے دیا جا رہا تھا، جس پر ہم ہسپتال جانے کی بجائے پہلے اس خیال سے اُن کے دفتر گئے کہ شاید وہ دھماکے سے پہلے ہوٹل سے نکل کر اپنے دفتر کی جانب گیا ہو۔‘

’جب ہم ان کے دفتر گئے تو وہاں چوکیدار نے بتایا کہ وہ ابھی تک یہاں نہیں آئے جس کے بعد ہم سول ہسپتال پہنچے۔‘

’بھائی کی لاش کو پہچاننے کے باوجود زخمیوں میں بھی تلاش کیا‘

’بھائی کے دفتر سے مایوس لوٹنے کے بعد جب ہسپتال میں مردہ خانہ پہنچا تو وہاں کے عملے نے جو پہلی لاش دکھائی وہ میرے بھائی کی تھی۔ اسی طرح ان کے دوست شاہ زیب اور دیگر افراد کی لاشیں بھی ادھر پڑی تھیں لیکن میری امید اس وقت کسی نے یہ کہتے ہوئے بندھائی کہ مجھ جیسے قد اور کاٹھ کا ایک شخص زخمیوں میں بھی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس آدمی کی بات سنتے ہی وہ زخمیوں کو دیکھنے کے لیے ٹراما سینٹر پہنچے اور ساتھ ساتھ دل کو یہ تسلی دیتے رہے کہ لاش ان کے بھائی کی نہیں تھی۔

’ٹراما سینٹر میں تمام زخمیوں کو دیکھا، لیکن میرا بھائی ان میں نہیں تھا۔‘

’اس کے بعد میں نے یقین کرلیا کہ وہی لاش ایمل جان کی ہے۔۔۔ میں چونکہ سب سے بڑا تھا جب ایمل اس دنیا میں آیا تو سب سے پہلے میں نے ان کو دیکھا اور یہ عجیب اتفاق تھا کہ وہ جب دنیا سے چلا گیا تو بھی سب سے پہلے میں نے ہی ان کی لاش کو دیکھا۔‘

ایمل کے والد بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے بیٹے اور رشتہ داروں کو معلوم ہو چکا تھا کہ ایمل دنیا میں نہیں رہا مگر والدین کی عمر کی وجہ سے وہ رات کو اس سے آگاہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ’اس لیے مجھے ہسپتال سے یہ کہہ کر گھر جانے کو کہا گیا کہ ایمل ہسپتال میں نہیں ہیں۔‘

’میں ہسپتال سے گھر آیا لیکن وہ خبر مجھ سے اور ان کی والدہ سے زیادہ دیر کے لیے نہیں چھپ سکی۔۔۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ اور ایمل کی والدہ اب بھی کمرے میں ایمل کی خوشبو کو محسوس کرتے ہیں۔

ایمل کے بستر پر ان کی ڈگریاں اور سرٹیفیکیٹس رکھے گئے ہیں

ایمل کے بستر پر ان کی ڈگریاں اور سرٹیفیکیٹس رکھے گئے ہیں

ایمل کاسی کے بڑے بھائی نے ان کے کمرے میں ان کے کپڑے وغیرہ دکھائے جو کہ اسی طرح الماریوں میں تھے جس طرح انھوں نے چھوڑا تھا۔

خاندان نے ایمل خان کی موت پر معاوضہ کیوں نہیں لیا؟

انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اگر کوئی شخص دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک یا زخمی ہو جاتا ہے تو حکومت معاوضہ ادا کرتی ہے، لیکن ایمل کاسی کے خاندان کے افراد نے معاوضہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیے

چار ماہ میں دو دھماکے، کوئٹہ کا سرینا ہوٹل ہی بم دھماکوں کے نشانے پر کیوں؟

کوئٹہ میں سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہونے والا دھماکہ خودکش حملہ تھا: وزیر داخلہ شیخ رشید

ڈاکٹر میر وائس نے بتایا کہ ہمیں بہت سارے لوگوں نے کہا کہ معاوضے کے پیسے لے لو اس سے ان کے نام سے کوئی فلاحی ادارہ بناﺅ۔ ’جس مذہب، جس قبیلے اور جس قوم سے ہمارا تعلق ہے اس میں شہیدوں کا معاوضہ نہیں لیا جاتا۔ نہ ہم شہیدوں کے نام پر پیسے لیتے ہیں اور نہ ان کے نام کو بیچتے ہیں۔۔۔‘

ایمل کو پی ایچ ڈی پر مبارکباد

ایمل کو ملنے والی پی ایچ ڈی ڈگری

ایمل کو بعد از مرگ ملنے والی پی ایچ ڈی ڈگری

ایمل کی وفات کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان تعزیت کے لیے ان کے گھر آئے تھے جہاں ایمل کے بڑے بھائی نے وزیر اعلیٰ کی اس جانب توجہ دلائی کہ ان کو بعد از مرگ پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جائے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم وزیر اعلیٰ کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے سفارش کی جس پر ایمل کو اعزازی ڈگری دی گئی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’بعدازاں ہمیں گورنر ہاﺅس بلایا گیا جہاں گورنر سید ظہور آغا نے پی ایچ ڈی کی ڈگری میرے حوالے کیا۔‘

’جب ڈگری میرے حوالے کی گئی تو میں نے اس کو پہلے چھوما اور پھر گھر آنے کے بعد خصوصی طور پر ان کے قبر پر گئے اور وہاں جا کر کہا کہ بیٹا مبارک ہو۔ آپ کی خواہش پوری ہوگئی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments