اخلاقیات اور اقتصادیات کے بیچ بڑھتا ہوا فاصلہ


ہم میں سے کافی اشخاص جب اپنے معاشرتی ماحول سے نکل کے قدرے مختلف معاشرے میں جا بستے ہیں تو اکثر دیکھا گیا ہے کے انھیں نئے اقدار کو اپنانے کے لیے ایک وقت درکار ہوتا ہے۔ کبھی کبھار تو یہ عرصہ کئی نسلوں تک محیط ہوتا ہے۔ یہ کہنا بھی بیجا نہ ہو گا کہ نئے معاشرے میں ضم ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہمیں اپنی جان سے پیارے ہمارے اخلاقی اقدار ہوتے ہیں۔ تاآنکہ ایک ایسی نسل وجود میں آتی ہے جس کا اپنی اباوٴ اجداد کی رسومات سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی۔

دو نسلوں کے بیچ یہ مختلف اخلاقی اور اقتصادی ترجیحات جنریشن گیپ کی صورت ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن اگر میں آپ سے پوچھو کہ اخلاقیات اصل میں کہتے کسے ہیں اور اور اس کا اطلاق سماج کے کن طبقات پہ ہوتا ہے؟ کیا آپ سمجھا پائیں گے کہ اخلاقیات کا دائرہ کار کیا ہے اور جیو گرافی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بدل کیسے جاتی ہے؟ جبکہ جیوگرافیائی حدود تو اہل دانش کے نزدیک غیر فطری اور سیاسی دانہ شاہیوں کا نتیجہ ہے۔

لیکن اس بحث سے ہٹ کر کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اخلاقیات میں صحیح اور غلط کا طریقہ کار کیسے طے کیا جائے؟ یہی کوئی چوبیس سو سال قبل مسیح سمیری سلطنت کے ارک شہر کے مندر میں اخلاقیات کا تقاضہ یہ تھا کہ شہر میں نئے آنے والے مسافروں کی دل جوئی کے لئے ارک شہر کی حسینائیں دیوی اشتر کے نام پہ اپنا تن نچھاور کر دیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ یہی حسینائیں جب آگے چل کر اپنی خدمت کے بدلے تحفے تحائف اور معاوضہ وصول کرنے لگیں تو معتوب ٹھہریں اور معلوم انسانی تحریک کی سب سے پہلی پیشہ ور طوائفیں کہلائیں۔ یعنی کل تک جس خدمت گزاری کے لئے وہ اخلاقیات کی علمبردار جانی جاتی تھیں اسی معاشرے نے انھیں اسی وجہ سے اخلاق باختہ کہلائیں کیونکہ انھوں نے اس میں اقتصادیات کا طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔

اگر آپ کو یہ مذہب کی طرف سے عورتوں کا استحصال لگتا ہے تو ذرا ٹھہریں کہ یہی خدمت کنعان شہر میں اشتار دیوتا کے لئے مرد حضرات انجام دیتے تھے۔ ان معاملات میں اگر آپ صرف مذہب پرستوں کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں تو ذرا ٹھہریے کہ ”مردوں کو جنگ کے لئے تیار کرو اور عورتوں کو ان کے بستروں کے لئے“ جیسے اقوال اس ڈکٹیٹر کے ہیں جس کے عزائم میں سے ایک مذہب کو روئے زمین سے مٹانا بھی تھا۔ شاید یہ اسی طرح کی مذاہب بیزار پالیسیز کا نتیجہ ہے کہ تقریباً چوبیس ممالک (ویکی میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق) انسسٹ میریجز کو لیگل قرار مانتے ہیں۔ آپ اسے معاشرتی ضرورت سمجھتے ہیں یا انسانیت سے گری ہوئے حرکت؟

یہ بحث بھی اپنے آپ میں غور طلب ہے کہ اقتصادیات میں مروجہ اخلاقیات کا کتنا عمل دخل ہونا چاہیے۔ مغرب میں تو اب ایسی پروفیشنل کمپنیز وجود میں آ گئی ہیں جو آپ کو کھڑے ہونے کی تکلیف سے بچاتی ہیں۔ پورے یورپ میں کرسمس سے اگلا دن 50 ٪ سیل والا باکسنگ ڈے ہو (جس کے لئے لوگ ایک رات پہلے ہی شاپنگ مالز کے سامنے براجمان ہو جاتے ہیں ) یا سپریم کورٹ میں کسی اہم کیس کو سننے کے لئے میڈیا کی لمبی لائن ہو، آپ اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے رہیں اور نمبر قریب آنے پر لائن پہ آ کر کھڑے ہو جائیں اور انتظار کی کوفت سے بچنے کے لئے کمپنی کا بندہ ہائر کریں۔

لیکن کیا یہی لائن آپ کسی ڈاکٹر کے کلینک میں بھی پسند کریں گے؟ کیوں نہیں؟ فرض کریں مریض بالی ووڈ سپر اسٹار ہے جس کی ایک گھنٹے کی کمائی 15 لاکھ سے اوپر ہے اور جس کے ایک دن کی شوٹنگ کینسل کا مطلب ہے کہ اس دن درجنوں ڈیلی ویجز والے مزدوروں کے گھر چولھا نہیں جلے گا۔ اگر وہ اپنی جگہ کسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر کی کلینک میں لائن سے بچنے کے لئے ایسی ہی کسی کمپنی کی سروسز لیتا ہے تو؟ اور اب ایسی چیز کو ایک ڈاکٹر کی نظر سے دیکھیے جس کا مقصد خدمت کے ساتھ ساتھ پیسہ کمانا بھی ہے آخر اس کی بھی فیملی ہے۔ اسے اس سے کیا غرض کہ لائن میں کون کھڑا ہے؟ یا اگر وہ ڈبل فیس ادا کرنے والوں کو وی آئی پی ٹوکن دے کے پہلے ٹریٹ کرتا ہے آخر کو وہ ایک انسان کی زندگی ہی تو بچا رہا ہے اس سے کیا غرض کہ اس انسان کا نمبر بعد میں آنا چاہیے؟

اسی طرح اگر اپنی ویورشپ بڑھانے کے لئے کوئی سوشل فارم نوجوانوں کو اٹریکٹ کرنے والا مواد پبلش کرے تو آپ اسے ایک دانشمندانہ اقتصادی فیصلہ قرار دیں گے یا دانشمندوں کی ایک اخلاق باختہ حرکت؟ دوسری طرف اگر کوئی آرٹسٹ سال کے گیارہ مہینے میں انڈر 18 ریٹڈ سیریل دیکھنے والی پوری قوم کو اگر ایک مہینے میں ”صرف بالغان کے لئے“ والے سیریل کے بنیاد پے اخلاق سے گری ہوئی قرار دے تو کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ چلیں اس کو ایک اور زاویئے سے دیکھتے ہیں، فرض کیجئے ایسا کوئی اور سیریل آتا ہے جس پہ کسی کا کوئی کمنٹ نہیں اور معاشرے کا ایک طبقہ اس سیریل کی ایج لمٹ کو لے کر اس پہ پابندی کا مطالبہ کرتا ہے! کیا اب بھی آپ اس سیریل کو اور اس کے ویورز کو اخلاق باختہ سمجھیں گے یا آپ کے دلائل اب اس سیریل کے حق میں ہوں گے اور اس سیریل کو آرٹ کے طور پہ لینے پہ زور دیں گے اور اس کے ویورز کو انٹلیکچوئلز کی کیٹیگری میں شمار کریں گے؟

ادب، آرٹ کی خاطر آپ کی اخلاقیات جب تیزی سے بدلتی رہتی ہو تو آپ اسے اس وقت کیوں یک زبان ہو کے غلط سمجھنے لگتے ہیں جب اقتصادیات اور اخلاقیات الگ رکھنے کی بحث ہوتی ہے؟ کیا آپ بھی اشتر کے مندر کے پجاریوں کی طرح مفت کی اخلاقیات کے ہی قائل ہیں جس سے فائدہ بالواسطہ یا بلاواسطہ صرف آپ کے مفادات کا ہی ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments