تاشقند معاہدہ: انڈین وزیراعظم لال بہادر شاستری جو پاکستان اور انڈیا کے مابین معاہدے کے فوراً بعد ہی چل بسے


انڈیا کی تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا آغاز معاشرے کے انتہائی معمولی طبقے سے کیا اور پھر ملک کے سب سے اہم مقام تک پہنچے۔

انڈیا کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری ایسے ہی ایک شخص تھے جو اپنی اعلی اقدار کی وجہ سے یاد کیے جاتے ہیں۔

خواہ ٹرین حادثے کے بعد وزیر ریل کے عہدے سے ان کا استعفیٰ ہو یا سنہ 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ میں ان کی قیادت ہو یا ان کا ’جئے جوان جئے کسان‘ کا نعرہ ہو‘ وہ عوامی زندگی میں عمدہ معیار قائم کرنے کے لیے یاد کیے جاتے ہیں اور ان جیسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

لال بہادر شاستری کی پیدائش دو اکتوبر سنہ 1904 کو مغل سرائے میں ہوئی تھی لیکن انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کی نسبت سے عام طور پر ان کا یوم پیدائش کم لوگوں کو ہی یاد رہتا ہے۔

بہرحال ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے دوران معروف رہنما لالہ لاجپت رائے نے ’سرونٹس آف انڈیا‘ نامی ایک سوسائٹی قائم کی تھی جس کا مقصد غریب پس منظر سے آنے والے آزادی کے متوالوں کو مالی مدد فراہم کرنا تھا۔ لال بہادر شاستری بھی مالی امداد حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔

لال بہادر

للیتا شاستری کا جواب

گھر کے اخراجات چلانے کے لیے انھیں سوسائٹی کی جانب سے 50 روپے ماہانہ دیے جاتے تھے۔ ایک بار لال بہادر شاستری نے اپنی بیوی للیتا کو جیل سے ایک خط لکھا جس میں پوچھا گیا کہ کیا انھیں یہ 50 روپے وقت پر مل رہے ہیں اور کیا وہ گھر چلانے کے لیے کافی ہیں؟

للیتا شاستری نے فوراً جواب دیا کہ یہ رقم ان کے لیے کافی ہے۔ وہ صرف 40 روپے خرچ کرتی ہیں اور ہر ماہ 10 روپے بچا رہی ہیں۔

لال بہادر شاستری نے اس کے بعد فوراً ہی سرونٹس آف انڈیا سوسائٹی کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ان کے کنبے کا گزر بسر 40 روپے میں ہو جاتا ہے اس لیے ان کی مالی مدد 40 روپے کر دی جائے اور باقی 10 روپے کسی دوسرے ضرورت مند کو دیے جائیں۔

انیل شاستری

لال بہادر شاستری کے بیٹے انیل شاستری دلی میں بی بی سی کے سٹوڈیو میں ریحان فضل کے ساتھ

انیل کی غلطی

لال بہادر شاستری کے بیٹے انیل شاستری کہتے ہیں کہ ’ایک بار رات کے کھانے کے بعد ان کے والد نے انھیں فون کیا اور کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنے سے بڑوں کے پاؤں کو نہیں چھو رہے ہیں۔ آپ کے ہاتھ ان کے گھٹنوں تک جاتے ہیں اور پاؤں کو نہیں چھوتے ہیں۔‘

انیل نے اپنی غلطی نہیں مانی اور کہا کہ آپ نے میرے بھائیوں کو ایسا کرتے دیکھا ہو گا۔

اس پر لال بہادر شاستری نے جھک کر اپنے 13 سال کے بیٹے کے پاؤں چھوئے اور کہا کہ اس طرح بزرگوں کے پاؤں چھوئے جاتے ہیں۔

ان کے اس عمل پر انیل رونے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں اپنے بزرگوں کے پاؤں کو اسی طرح چھوتا ہوں جس طرح انھوں نے سکھایا تھا۔

انڈیا کے وزیر داخلہ

جب لال بہادر شاستری انڈیا کے وزیر داخلہ تھے تو معروف صحافی کلدیپ نیر ان کے پریس سیکرٹری تھے۔

کلدیپ نیر یاد کرتے ہیں ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار وہ اور ’شاستری جی ایک پروگرام میں شرکت کے بعد مہرولی سے واپس آرہے تھے۔ راستے میں ایک ریلوے کراسنگ ہوا کرتی تھی جو اس دن بند تھی۔‘

’شاستری جی نے دیکھا کہ وہاں گنے کا رس نکالا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک گیٹ نہیں کھلتا گنے کا رس کیوں نہیں پیتے۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے، وہ خود دکان پر گئے اور میرے، سکیورٹی گارڈ اور ڈرائیور کے لیے گنے کے رس کا آرڈر دے آئے۔‘

’دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی نے انھیں نہیں پہچانا، یہاں تک کہ گنے کا رس بیچنے والے نے بھی نہیں۔ اگر اسے ذرا شبہ گزرا بھی تو اس نے یہ سوچ کر اپنے شبے کو جھٹک دیا کہ انڈیا کا وزیر داخلہ گنے کا رس پینے کے لیے ان کی دکان پر کیوں آئے گا۔‘

قرض لے کر گاڑی خریدی

وزیر اعظم بننے تک لال بہادر شاستری کے پاس اپنا گھر تو کیا گاڑی تک نہیں تھی۔ ایک بار ان کے بچوں نے کہا کہ اب آپ انڈیا کے وزیر اعظم ہیں اب ہماری اپنی گاڑی ہونی چاہیے۔

ان دنوں ایک فیئٹ موٹر کار کی قیمت 12000 روپے تھی۔ انھوں نے اپنے ایک سیکرٹری سے پوچھا کہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں کتنی رقم ہے۔ ان کا بینک بیلنس صرف 7000 روپے تھا۔

انیل یاد کرتے ہیں کہ جب بچوں کو معلوم ہوا کہ ان کے والد کے پاس کار خریدنے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہیں تو انھوں نے کہا کہ گاڑی نہ خریدیں لیکن لال بہادر شاستری نے کہا کہ وہ بینک سے قرض لے کر باقی رقم اکٹھا کریں گے۔

انھوں نے کار خریدنے کے لیے پنجاب نیشنل بینک سے پانچ ہزار روپے قرض لیے۔ قرض کی ادائیگی سے ایک سال قبل ہی ان کی موت ہو گئی۔

اندرا گاندھی کی پیشکش

اندرا گاندھی ان کے بعد وزیر اعظم بنیں۔ انھوں نے حکومت کی جانب سے قرض معاف کرنے کی پیشکش کی لیکن ان کی اہلیہ للیتا شاستری نے اسے قبول نہیں کیا اور ان کی موت کے بعد چار سال تک ان کی پینشن سے یہ قرض ادا کرتی رہیں۔

انیل بتاتے ہیں کہ وہ جہاں بھی پوسٹنگ پر رہے، وہ گاڑی ان کے ساتھ رہی۔ یہ کار ابھی تک دلی کے لال بہادر شاستری میموریل میں رکھی ہوئی ہے اور لوگ اسے دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’شاستری کی موت سے متعلق دستاویزات عام کی جائیں‘

لال بہادر شاستری: وہ انڈین وزیر اعظم جن کی میت کو صدر ایوب خان نے کندھا دیا

بیٹے کی رپورٹ کارڈ

سنہ 1964 میں جب شاستری ملک کے وزیر اعظم بنے تو ان کے بیٹے انیل شاستری دہی کے سینٹ کولمبس سکول میں زیر تعلیم تھے۔ ان دنوں والدین اور اساتذہ کی کوئی ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ البتہ والدین کو طلبہ کا رپورٹ کارڈ لینے کے لیے ضرور بلایا جاتا تھا۔

شاستری نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کا رپورٹ کارڈ لینے کے لیے اس کے سکول جائیں گے۔ وہ سکول کے گیٹ پر ہی گاڑی سے اتر گئے۔ اگرچہ سکیورٹی گارڈ نے انھیں گاڑی کو سکول کے احاطے میں لانے کے لیے کہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔

انیل شاستری یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میری کلاس پہلی منزل پر تھی۔ وہ خود میری کلاس میں چل کر آئے۔ میرے کلاس ٹیچر ریورنڈ ٹائنن انھیں وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہا کہ سر آپ کو رپورٹ کارڈ لینے کے لیے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ شاستری نے جواب دیا کہ ’میں وہی کر رہا ہوں جو میں پچھلے کئی سال سے کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔‘

ٹائنن نے کہا کہ ’لیکن اب آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں‘ تو شاستری جی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’بھائی ٹائنن، میں وزیر اعظم بننے کے بعد بھی نہیں بدلا لیکن لگتا ہے کہ آپ بدل گئے ہیں۔‘

تاشقند معاہدہ اور شاستری پر دباؤ

سنہ 1966 میں روس کے شہر تاشقند میں انڈیا پاکستان کے مابین معاہدے پر دستخط کے بعد شاستری بہت دباؤ میں تھے۔ حاجی پیر اور ٹیتھوال کے علاقے پاکستان کو واپس دینے پر انھیں انڈیا میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

انھوں نے رات گئے اپنے گھر دلی میں فون ڈائل کیا۔ کلدیپ نیئر کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی فون کی گھنٹی بجی، انھوں نے کہا کہ اما کو فون دو۔ ان کی بڑی بیٹی فون پر آئی اور کہا کہ اما فون پر نہیں آئیں گی۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ جواب آیا اس لیے کہ آپ نے حاجی پیر اور ٹیتھوال پاکستان کو دے دیا اور وہ اس بات سے بہت ناراض ہیں۔ شاستری کو اس بات سے بہت صدمہ پہنچا۔‘

کلدیپ نیئر کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد وہ کمرے کا چکر لگاتے رہے۔ پھر انھوں نے اپنے سیکرٹری کو فون کر کے انڈیا سے آنے والے ردعمل کے بارے میں جاننا چاہا۔ سیکرٹری نے بتایا کہ اس وقت تک دو بیان آئے تھے، ایک اٹل بہاری واجپئی کا تھا اور دوسرا کرشنا مینن کا اور دونوں نے انھین تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

شاستری کی موت

کلدیپ بتاتے ہیں کہ اس وقت تاشقند ہوٹل میں پاکستان انڈیا معاہدے کے جشن کی پارٹی جاری تھی، چونکہ میں شراب نہیں پیتا تھا اس لیے میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں آ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ اگلے دن مجھے شاستری جی کے ساتھ افغانستان کے لیے روانہ ہونا تھا۔

میں نے خواب میں دیکھا کہ شاستری جی انتقال کر گئے۔ پھر میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ جب میں باہر آیا تو وہاں ایک روسی خاتون کھڑی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’یور پرائم منسٹر از ڈائنگ۔‘

کلدیپ کہتے ہیں کہ ’میں نے جلدی سے اپنا کوٹ پہنا اور نیچے آ گیا۔ جب میں شاستری جی کی آرام گاہ کے باہر پہنچا تو میں نے روسی وزیر اعظم کو برآمدہ میں کھڑے دیکھا۔

’انھوں نے میری طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ شاستری جی نہیں رہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو بہت بڑا کمرہ اور اس کمرے میں ایک بہت بڑا بستر تھا۔ اس کے اوپر ایک بہت چھوٹا سا آدمی کسی نقطے کی طرح سمٹا ہوا بے جان پڑا تھا۔‘

تقریباً 2.30 بجے جنرل ایوب خان آئے۔ انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں ایک ایسا شخص پڑا ہے جو انڈیا اور پاکستان کو ایک ساتھ لا سکتا تھا۔‘

اعلیٰ ترین شہری اعزاز

یہ انڈیا کی بدقسمتی تھی کہ تاشقند معاہدے کے بعد وہ اس چھوٹے قد کے عظیم انسان کی قیادت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا۔

انھیں بعد از مرگ سنہ 1966 میں انڈیا کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’بھارت رتن‘ دیا گیا اور اردو کے معروف شاعر علی سردار جعفری نے ان کی آخری کامیابی کے اعتراف میں ایک نظم لکھی:

مناؤ جشن محبت کہ کہ خوں کی بو نہ رہی

برس کے کھل گئے بارود کے سیہ بادل

بجھی بجھی سی ہے جنگوں کی آخری بجلی

مہک رہی ہے گلابوں سے تاشقند کی شام

خدا کرے کہ شبنم یوںہی برستی رہے

زمیں ہمیشہ لہو کے لیے ترستی رہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments