دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے


دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے لیکن عجیب اتفاق ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے دنیا بھر میں ہونے والے بربریت کے دس میں سے نو ہولناک ترین واقعات میں ملوث افراد خود کو مسلمان کہتے ہیں، یہ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ آور ہوتے ہیں، ان کے نام مسلمانوں جیسے ہوتے ہیں، ان کا تعلق مسلمان ملکوں سے ہوتا ہے، ان کے گھر والے نسل در نسل سے مسلمان چلے آرہے ہوتے ہیں، ان کی آخری رسومات تک مسلمانوں کی طرح ادا کی جاتی ہیں اور مختلف النوع مسلم جہادی تنظیمیں ان کو اپنا شہید قرار دینے کے لئے ایسے پرچموں کے ساتھ ان کی تصاویر شائع کرتی ہیں جن پر مسلمانوں کا کلمۂ طیبہ لکھا ہوتا ہے۔

انسان کے روپ میں یہ درندے دہشت، وحشت، خوف اور عدم تحفظ پھیلانے کے لئے نت نئی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ یہ شہری علاقوں میں عوامی اجتماعات پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں، موٹر سائیکل، کار، عمارت وغیرہ میں بم نصب کر کے دور سے اڑا دیتے ہیں، یہ اغوا کرتے ہیں، تاوان لیتے ہیں، لڑکیوں کی آبرو ریزی کرتے ہیں، کنیزوں کی منڈیاں لگاتے ہیں، چھری چاقو گھونپتے ہیں، خود کش دھماکے کرتے ہیں، سانس لیتے انسانوں کو آگ لگا کر جلا دیتے ہیں، یہ تلواروں سے سر قلم کرتے ہیں، سروں سے فٹ بال کھیلتے ہیں، بھاری گاڑیوں تلے انسانوں کو بیدردی سے کچلتے ہیں، سنگسار کرتے ہیں، زندہ دفن کرتے ہیں، اجتماعی قبریں بناتے ہیں اور باقاعدہ ان شیطانی کارروائیوں کی لائیو تصاویر اور فلمیں جاری کرتے ہیں، یہ اپنی حیوانیت گرجا گھر، مندر اور سینا گوگ میں اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ان کے نزدیک قابل احترام نہیں لیکن اپنی ہی مساجد اور مقدس ترین مقامات کا تقدس پامال کرنے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتے۔ خون کی ہولی کھیلنے کے لئے ننھے بچے ان کا محبوب ٹارگٹ اور درس گاہیں ان کا پسندیدہ مقام ہوتی ہیں۔

ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ دہشت گرد مسلمان ہیں یا نہیں کیونکہ میں یا آپ ان سے نہیں ملے لیکن میں اور آپ روز ان لوگوں سے ملتے ہیں جو اس دہشت گردی کو مختلف حیلے بہانوں سے جواز بخشتے ہیں، اس کا جارحانہ دفاع کرتے ہیں اور دانشورانہ تاویلیں گھڑتے ہیں۔ یہ کبھی ہمیں بتاتے ہیں کہ سب کچھ ہماری آزمائش، دشمنوں کی سازش، نظروں کا دھوکہ، سماعت کا فریب، تصوراتی ڈرامہ اور خیالی افسانہ ہے اور کچھ نہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات میں ملوث لوگ ذہنی مریض، نفسیاتی بیمار، عادی مجرم، جنس زدہ، اور اسلامی تعلیمات اور شعائر سے قطعاً بے بہرہ ہیں۔

یہ بتاتے ہیں کہ ساری دہشت گردی فلسطین، عراق، افغانستان اور شام میں ہونے والے ظلم کا شاخسانہ ہے یہ الگ بات ہے کہ دو منٹ تبادلۂ خیال کرنے سے یہ بات راز نہیں رہتی کہ نہ انہیں ان ممالک کی کوئی معلومات ہیں اور نہ ایسا درد کہ ان کی نیندیں حرام ہوں۔ سب سے بڑا ستم یہ کہ دہشت گردوں کے یہ معذرت خواہ اپنی خانگی زندگیوں میں بہت لبرل ہوتے ہیں اور دہشت گرد جس نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کی کوئی جھلک ان کے یا اہل خانہ کے طرز زندگی میں نظر نہیں آتی۔ ہمیں ان احباب کے مسلمان ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ان میں سے کچھ ہمارے قریبی عزیز و اقرباء ہوتے ہیں۔ ہاں، ناں، اگر اور مگر سے بھرپور ان کے دلائل میں آپ کو سب کچھ ملے گا سوائے دہشت گردی کی واضح اور غیر مبہم مذمت کے!

دسمبر 2015 ء میں شائع شدہ پیوریسرچ سروے کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں امریکہ میں مسلمان کل آبادی کا کوئی ایک فیصد تھے جنہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے والوں کی تعداد محض 40 فیصد تھی۔ جبکہ یہی شرح جرمنی میں 69 فیصد، برطانیہ میں 72 فیصد جبکہ فرانس میں 76 فیصد تھی۔ یورپ میں بڑے منظم انداز سے متواتر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات جن میں سے کچھ میں ایسی بہیمیت کی گئی کہ پھر ورثاء تک کو ان نعشوں کے آخری دیدار کی اجازت نہیں دی گئی کے بعد اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں کی طرف لطف و کرم اور محبت کے جذبات میں کتنا اضافہ ہوا ہو گا۔

اس کیفیت کے لئے ’اسلامو فوبیا‘ کی اصطلاح سننے میں آتی ہے جسے استعمال کر کے اندھے بہرے معذرت خواہ مزید گمراہی پھیلاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بے حسی، بے دردی اور ہر واقعہ سے لاتعلقی کے رجحان کو ’اسلامو مینیا‘ یا اسلامی جنونیت کیوں نہ کہا جائے؟! اور نہتے انسانوں پر حملوں کی لعنت ملامت اور مذمت کرنے میں کیا امر مانع ہے؟

اس سوال کا جواب پیو کے اس سروے سے ملتا ہے جس میں جب پاکستانیوں سے سوال کیا گیا کہ وہ خلافت اسلامیہ (آئی ایس) کو کس طرح دیکھتے ہیں تو جہاں نو فیصد نے ان سے اپنی عقیدت کا اعتراف کیا وہیں 62 فیصد نے اس معاملے میں کوئی رائے دینے سے گریز کیا۔ جبکہ محض 28 فیصد نے اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی یاد رہے کہ یہ کنفیوژن اس ملک میں ہے جو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے جہاں فوجی تنصیبات، ائر پورٹس، اہم شخصیات کوئی محفوظ نہیں۔ جہاں آرمی پبلک اسکول کے قتل عام جیسا سانحہ رونما ہوا۔ جہاں فوج دہشت گردوں کے خلاف کسی آپریشن میں مصروف ہے۔

مذہبی دہشت گردی کی اس رو کے بارے میں یورپ کے مارکسی بھی شدید فکری ابہام کا شکار دکھتے ہیں۔ ہمارے ہم نظریہ یہ دوست ہر معاملے کو صرف طبقاتی جدوجہد یا قومی آزادی کی جنگ بنا دیتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا بہت درست ہے کہ سویت یونین کو شکست دینے کے لئے امریکہ نے ان قوتوں کی سرپرستی کی لیکن کیا یہ قوتیں ہمیشہ پوری طرح امریکہ کے قابو میں رہی ہیں؟ کیا ان کا اپنا ایک عالمی ایجنڈا نہیں رہا؟ کیا تمام مسلم ممالک میں ان کی ریاستی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی؟

کیا یورپ میں آ بسنے والے مسلمانوں کی جن آزادیوں کا ہم دفاع کر رہے ہیں ان سے صرف بنیاد پرست ہی فائدہ نہیں اٹھاتے؟ کیا ان کمیونٹیز میں عقیدے اور اظہار کی آزادی کچل نہیں گئی ہے؟ کیا میزبان ماحول میں مدغم ہونے کی راہ میں یہ آزادیاں رکاوٹ نہیں بن رہیں؟ کیا بائیں بازو سے منسلک غیر مسلم یورپی کو اس مسئلے کی شدت کا کوئی ادراک ہے؟

دہشت گردی کی موجودہ لہر کے نتیجے میں مسلمانوں سے نفرت اور ان کے خلاف تعصب کی جو شدید لہر آنے والی ہے اور حالات حاضرہ سے مکمل بے خبر رکھے گئے بچوں میں ریڈیکلائزیشن کا جو طوفان اٹھنے والا ہے اس کی روک تھام کا کوئی فارمولا کسی کے پاس نہیں کم از کم ان مسلمانوں کے پاس نہیں جو ہر محفل اور سوشل فورم پر عالم انسانیت کو درپیش اس بحران کی نشاندہی کرنے والی ہر آواز کو بس یہ کہہ کر گھونٹ دیتے ہیں کہ دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments