نئے زمانے میں اساتذہ کے کرنے کے کام


اساتذہ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے افراد کی موجودگی سے اچھا معاشرہ جنم لیتا ہے اور اچھے معاشرے سے ہی ایک بہترین قوم بنتی ہے۔ یہ استاد کا وصف ہے کہ وہ مقدس فرض کی تکمیل سے نوع بشر کی بہتر مستقبل گری کرتا ہے۔ تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کسی کو انکار نہیں۔ ابتدائے آفرینش سے استاد کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی، معاشرے کی فلاح و بہبود، جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افراد کی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطا کیا۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی بنیادی ذمہ داری تلاوت آیات، تربیت اور تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم بیان کی ہے۔ خود رسالت مآب ﷺ نے ”انمابعثت معلما“ (مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر سے مالا مال کر دیا۔

معاشرے کی زمام کار سنبھالنے والے افراد خواہ وہ کسی بھی شعبے اور پیشے سے وابستہ ہوں اپنے استاد کی تربیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ استاد کا اہم اور بنیادی فریضہ انسان سازی ہوتا ہے۔ جیسے علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

شیخ مکتب ہے اک عمارت گر جس کی صنعت ہے روح انسانی

اگرچہ اس کام میں نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کے اثرات بھی شامل ہوتے ہیں لیکن یہ نا قابل تردید حقیقت ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا مرکز و محور استاد ہی ہوتا ہے۔ پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے لئے چار عملی میدان ہوتے ہیں : ( 1 ) تعمیر ذات ( 2 ) اپنے علم میں مسلسل اضافہ ( 3 ) طلباء کی شخصیت و کردار سازی ( 4 ) تعلیم گاہ

( 1 ) تعمیر ذات:نئی نسل کی تعمیر کا کام انجام دینے والے استاد کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہوتی ہے۔ طلباء کے لیے استاد کی ذات افکار و اقدار کا اعلیٰ معیار ہوتی ہے۔ اساتذہ اپنی شخصیت کی تعمیر میں نبی اکرم ﷺ کی ذات کو پیش نظر رکھیں اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں۔ ایک معلم کا قلب جب رب کی عظمت و کبریائی سے معمور ہو گا وہ احکام خداوندی کا پابند اور سنت نبوی ﷺ پر عامل ہو گا تب اس کا درس شاگردوں کے لئے باران رحمت اور زندگی کی نوید بن جائے گا۔

معلم کا خوش اخلاق، نرم خو، خوش گفتار، ملنسار، ہمدرد، رحمدل، غمگسار و مونس اور مدد گار ہونا بہت ضروری ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے حصول علم کا مقصد خود آگہی اور خدا آگہی ہے۔ ہمیشہ یہ نظریہ اساتذہ کے ذہنوں میں پیوست رہے۔ معلم کی ہر بات و حرکت طلبا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ طلباء صرف استاد سے کتاب یا اسباق ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاد کی ذات اور شخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ استاد مدرسہ، کھیل کا میدان، گھر اور بازار ہر جگہ طلباء کے لئے ایک زندہ نمونہ ہوتا ہے۔ ایک عظیم استاد اپنی شخصیت کو نہ صرف نکھار تا ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعہ معاشرے کو بہتر ین انسان فراہم کرتا ہے۔ ایک استاد کو صبر و تحمل، معاملہ فہمی، قوت فیصلہ، طلبا سے فکری لگاؤ، خوش کلامی اور موثر انداز بیان جیسے اوصاف سے متصف ہونا چاہیے۔

( 2 ) علم میں مسلسل اضافے کی جستجو: انگریزی کا معروف قول ہے کہ Teaching is nothing but learningیہ بالکل حقیقت ہے کہ تدریس کے ذریعہ کئی تعلیمی راز عیاں ہوتے اور تدریس ہر پل اساتذہ کے علم میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔ اساتذہ بہتر تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لئے جدید معلومات کے حصول کو یقینی بنائیں تاکہ درس و تدریس کے دوران کسی خفت اور تحقیر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ اپنے علم میں اضافے کے ذریعہ اساتذہ نہ صرف اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی تدریس کو بھی با اثر بنانے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ استاد میں علمی لیاقت، تدریسی صلاحیتوں کے ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریق تعلیم سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔

( 3 ) طلباء کی شخصیت و کردار سازی: طلباء کی کردار سازی اور شخصیت کے ارتقاء میں معلم کا بڑا دخل ہے۔ اپنے طلباء کے دلوں سے کدورتوں، آلودگیوں اور تمام آلائشوں کو دور کرتے ہوئے ان کو ایمان، خوف خدا، اتباع سنت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور کرتا ہے۔ طلباء کی کرداری سازی کے لئے خود بھی تقویٰ و پرہیز گاری کو اختیار کرتا اور اپنے شاگردوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ ایک اچھا معلم اپنے شاگردوں میں مقصد سے لگن و دلچسپی پیدا کرتا اور طلباء کو بیکار و لایعنی مشاغل سے دور رکھتا ہے۔ دنیا سے بے نیازی اور مادہ پرستی سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے۔ اپنے شاگردوں کو محنت اور جستجو کا عادی بناتا ہے۔ کاہلی، سستی اور تضیع اوقات سے طلبا کو باز رکھتا ہے۔

( 4 ) تعلیم گاہ : تعلیمی ادارے انسان سازی کے کار حمیدہ سے آج عاری نظر آرہے ہیں۔ اساتذہ کی ان حالات میں ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ طریق تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی کی سعی و کوشش کریں۔ تعلیمی ادارہ جات میں دانشوری سے تدریس انجام دیں۔ اپنے عمل و کردار سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو مثبت تعلیمی نظام کی طرف راغب کریں۔ ہنر مندی کے ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک اعلیٰ نمونہ قائم کریں۔ تعلیمی ادارہ جات سے دھوکے باز سیاست دانوں کے بجائے باکردار و امانت دار سیاست دان پیدا کریں۔

ایسے ڈاکٹر تیار کریں جو لوگوں کے علاج کو صرف اپنا ذریعہ معاش نہ بنائیں بلکہ اس خدمت کو عبادت کے درجہ تک پہنچا دیں۔ اساتذہ اپنے شاگردوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنے پیشوں میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ انسان بھی باقی رہیں۔ اساتذہ تعلیمی ادارہ جات اور نصاب تعلیم کو بلند مقصد حیات اور فکر سازی کے رجحان سے آراستہ کریں۔

اساتذہ سے معاشرے کے تقاضے :نوجوان نسل کی کوتاہیاں اپنی جگہ، والدین کا تغافل، نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کی خامیاں بھی اپنی جگہ مگر کار پیغمبری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قوم و ملت کے ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر اساتذہ اس بحران کا جائزہ لیں اور خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا تعین کریں۔ اگر اساتذہ سینکڑوں مسائل اور اسباب و علل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی کوتاہیوں کا تھوڑا سا بھی ادراک کر لیں تب یقیناً یہ احساس قوم و ملت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ہو گا۔

موجودہ دور کے تعلیمی منظر نامے اور نئے رجحانات پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اب اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ تعلیم کے بنیادی ذرائع (قلم، کتاب، بلیک بورڈ ) میں پروجیکٹر، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ بات ہر زمانے میں محسوس کی گئی کہ استاد کے روبرو علم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبا زمانے کی ترقیات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اور استاد اور شاگرد کے درمیان ترقی کا فاصلہ ہوتا ہے۔

اساتذہ نے جس دور کی تعلیم حاصل کی تھی طلبا کو اس سے آگے کی تعلیم دینا پڑتی ہے۔ آج طلبا تیز رفتار دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سمارٹ فون اور کمپیوٹر چلانا جانتے ہیں۔ آج بچے گوگل اور یوٹیوب پر بیٹھ کر کسی بھی قسم کا پراجیکٹ کیسے کیا جائے دیکھ لیتے ہیں اور ان کی مناسب رہبری ہو تو وہ بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے آج کے بدلتے تعلیمی منظر نامے میں ضروری ہے کہ

( 1 اساتذہ مختلف قسم کے ٹریننگ کورسز کرتے ہوئے اپنے آپ کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ اگر اساتذہ کو کمپیوٹر چلانا نہیں آتا تو وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے بہت پیچھے ہیں۔

( 2 آج یوٹیوب پر اردو اور انگریزی میں تعلیمی اسباق سے متعلق مختلف ویڈیوز دستیاب ہیں جن کی جانب اساتذہ اپنے طلبا کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ایک سائنس کا استاد اگر نظام انہضام کا سبق پڑھاتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے طالب علموں کو وہ ایسی ویڈیو بھی دکھائے جس میں نظام انہضام سمجھایا گیا ہو۔

( 3 اساتذہ موجود علمی سہولتوں سے واقف ہوں اور انہیں موثر طریقے سے طلبا تک پہنچائیں۔

( 4 موجودہ تعلیمی نظام میں کتابی تعلیم سے زیادہ فنی اور عملی تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نصاب میں طلبا سے اسباق سے متعلق عملی کام اور پراجیکٹ کروائے جا رہے ہیں اور پرچہ سوالات میں بھی طالب علم کے مشاہدات پر مبنی سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبا کو موجودہ دور کی عملی مثالیں دیتے ہوئے تعلیم دیں۔

( 5 اب وہ دور نہیں رہا کہ سبق کی بلند خوانی کر وادی جائے اور طلبا سے کہا جائے کہ وہ ورک بک یا گائیڈ سے جوابات یاد کر لیں۔ اب تو طلبا سے گفتگو کرنے اور ان سے مسئلے کا حل دریافت کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ موجودہ دور کے اساتذہ بغیر تیاری کے کمرہ جماعت میں نہ جائیں۔ وہ اپنی معلومات کو اس حد تک تازہ کر لیں کہ وہ آج کے دور کے طلبا کے مختلف سوالات کے موثر جوابات دے سکیں۔

( 6 کالج اور یونیورسٹی کے طلبا کی تدریس کے لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا کی نفسیات اور ان کے مشاغل پر توجہ دیں۔ آج کالج کا ہر طالب علم اپنے ساتھ سمارٹ فون رکھتا ہے، اب طلبا کو فون سے دور رکھنا مشکل ہے۔ ایسے میں اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا کی سمارٹ فون کے مثبت استعمال کی جانب توجہ موڑیں۔ سمارٹ فون میں بہت سی تعلیمی ایپلیکیشنز دستیاب ہیں۔ اردو کی مثال ہی لیجیے گوگل پلے سٹور میں کلیات اقبالؒ، کلیات غالب، کلیات پروین شاکر، حکایات سعدیؒ، اردو لغت اور دیگر دلچسپی کی کتابیں اور مطالعے کی چیزیں موجود ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ فون رکھنے والے طلبا کو ان ایپلیکیشنز کے حصول کی ترغیب دلائیں۔ طلبا میں تحریری و تقریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بھی سمارٹ فون کارگر ہو سکتا ہے۔ گوگل میں دستیاب وکی پیڈیا سے کسی بھی موضوع پر معلوماتی مضامین حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

( 7 اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ دور کی سہولتوں کے تعلیمی استعمال سے ہم آہنگ ہوں۔ کالج اور یونیورسٹی سطح کے اساتذہ انٹرنیٹ کا بہتر استعمال کر سکنے کی صلاحیت پیدا کریں۔

( 8 طالب علم چار تا چھ گھنٹے اساتذہ کے سامنے رہتا ہے اس کے بعد بھی وہ اپنے استاد سے رابطے میں رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے فیس بک اور واٹس اپ اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ فیس بک پر طلبا کے لئے علمی گروپ قائم کرتے ہوئے انہیں اساتذہ سے رابطے میں رہنے اور دیگر اساتذہ کے تجربات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔

( 9 اساتذہ اپنے لیکچر کے علاوہ دنیا بھر کے کسی بھی ماہر تعلیم کے لیکچر آن لائن سہولت کے ذریعے کروا سکتے ہیں۔ کمرہ جماعت یا ای کلاس روم میں پراجکٹر کی مدد سے اسکائپ کالنگ کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی مقام سے کسی ماہر استاد کا خطاب کروانا اب انٹرنیٹ کی بدولت عام ہو گیا ہے۔

( 10 طلبا اب کتب خانوں کا رخ نہیں کرتے، وہ اپنے کمپیوٹر اور فون پر ہی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اب اصل کتاب کی جگہ ای بک نے لے لی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ ای بک کے خزانے سے واقف رہیں۔ اردو میں ریختہ نامی ویب سائٹ پر بیش قیمت قدیم و جدید کتابیں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایف کی شکل میں لاکھوں کتابیں نیٹ پر دستیاب ہیں جو آسانی سے ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد فون یا کمپیوٹر کی سکرین پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ اب کوئی طالب علم یا کوئی استاد یہ شکایت نہیں کر سکتا کہ اسے کسی موضوع پر کوئی کتاب یا مواد دستیاب نہیں ہے۔

( 11 بات اگر مقابلہ جاتی امتحانات کی ہو تو ایسی بے شمار ویب سائٹس موجود ہیں جہاں تمام مسابقتی امتحانات کے سابقہ پرچہ جات اور معروضی سوال جواب پر مبنی بیش قیمت مواد دستیاب ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اس جانب طلبا کی رہنمائی کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ عصر حاضر کے تکنیکی اور سماجی تقاضوں اور آئے روز متعارف ہونے والے نئے رجحانات سے واقف ہوں اور ان سے ہم آہنگ ہو کر ایک مثالی استاد بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments