کیا پاکستان ’الیکٹیبلز‘ نے بنایا؟


جواب میں کیا رکھا ہے، تاریخ تو درست سوال اور حقائق کا نام ہے، اس پر بیانیے کی تشکیل تو ہر ایک اپنے تعصب کے مطابق کرتا ہے، اور ویسے بھی تاریخ کا معروف بیانیہ تو فاتحین لکھا کرتے ہیں۔ اس لیے جواب کی جگہ سوال کو سمجھتے ہیں، اور سوال کو سمجھنے کے لیے ایک اور سوال کرتے ہیں۔

آزادی سے پہلے انگریز سرکار کے زیرنگرانی ’1935 ایکٹ‘ کے تحت پہلا انتخاب 1937 میں ہوا اور دوسرا انتخاب کم و بیش دس سال بعد 1946 میں ہوا۔ اگر ہم دونوں انتخابات کا سرسری سا جائزہ لیں تو دوسرا سوال آتا ہے :

دس سال میں ایسا کیا معجزہ رونما ہوا کہ کہ مسلم لیگ جسے 1937 میں پنجاب میں ایک نشست ملی تھی، 1946کے الیکشن میں پنجاب میں تہتر نشستوں کے ساتھ سرفہرست تھی؟

1937 میں گیارہ صوبوں میں الیکشن ہوئے آسام، بنگال، بہار، اڑیسہ، بمبئی، مدراس، سی پی، یوپی، پنجاب، سندھ اور شمال مشرقی فرنٹیئر صوبہ۔ فروری میں نتائج کا اعلان کیا گیا، پندرہ سو سے زائد نشستوں میں سے کانگریس نے لگ بھگ سات سو اور مسلم لیگ نے سو سے کچھ زائد نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ کانگریس نے گیارہ میں سے سات صوبوں میں حکومت تشکیل دی۔

پنجاب کا معرکہ اہم رہا، 175میں سے یونینسٹ پارٹی نے سب سے زیادہ 95 نشستیں حاصل کیں، دوسرے نمبر پہ کانگریس نے 18، مجلس احرار نے 4 اور مسلم لیگ نے صرف ایک نشست حاصل کی۔

یہ الیکشن مسلم لیگ کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا، مسلم اکثریتی صوبوں میں لیگ بری طرح ناکام ہوگی۔

پنجاب میں ’یونینسٹ‘ نے حکومت بنالی اور ’سر سکندر حیات خان‘ نے وزیراعلی کا عہدہ سنبھالا، بنگال میں ’کرشک پرجا پارٹی‘ سے اتحاد کرنا پڑا اور لیگی ’ناظم دین‘ کے بجائے ’فضل حق‘ بنگال کے وزیراعظم بنے، سندھ میں ’یونائیٹڈ فرنٹ‘ جیت گی اور بعد ازاں ’سومرو‘ نے حکومت بنائی، اور شمال مشرقی صوبہ جہاں سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی تھی وہاں کانگریس نے (خدای خدمتگاروں ) حکومت تشکیل دی۔

یہ کون تھے جنہوں نے 1937 میں یونینسٹ کو 95 نشستیں دیں اور دس سال بعد مسلم لیگ کو تہتر نشستوں کے ساتھ سرفہرست بنایا، آج کی اصطلاح میں انہیں ’الیکٹیبلز‘ کہتے ہیں۔

1937 کے الیکشن میں مسلم لیگ کی اکثریتی صوبوں میں بری طرح ناکامی نے قائد اعظم پر واضح کر دیا تھا کہ پنجاب کے ان ’الیکٹیبلز‘ کے بغیر پاکستان کا تصور ممکن نہیں۔

تالبوت نے اپنی کتاب ’پنجاب اور راج‘ میں ان ’الیکٹیبلز‘ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے 1937میں یونینسٹ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔ ’ٹوانے‘ بھلوال اور خوشاب سے جیتے، ’چٹھے‘ گجرانوالہ سے، ’سیال‘ جھنگ سے، ’گرمانی‘ مظفر گڑھ سے، ’تونسہ کے پیر‘ مرکزی جھنگ اور ’شاہ جیوانہ‘ ڈی جی خان سے منتخب ہوئے۔ ’سکندر حیات‘ اٹک سے اور ’نواب ممدوٹ‘ فیروز پور سے منتخب ہوئے۔ ملتان میں بہاودین درگاہ کے سجادہ نشین ’کیپٹن عاشق‘ بلامقابلہ منتخب ہوئے۔

اسی انتخاب کے نتائج نے قائد اعظم کو مسلم لیگ اور یونینسٹ کے درمیان معاہدے پر مجبور کیا جسے آج ہم ’جناح۔ سکندر‘ لکھنؤ کے معاہدے سے جانتے ہیں، یہی وہ معاہدہ تھا جس نے پہلے 1940 کی قرارداد پاکستان کی راہ ہموار کی بعد ازاں 1946 میں مسلم لیگ کو پنجاب میں واضح برتری دلائی۔ فیروز خان نون، دولتانہ اور شوکت حیات خان جیسے الیکٹیبلز یونینسٹ چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ باقی تاریخ ہے۔

قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی انہیں کا اقتدار قائم ہو گیا، جب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک غلام محمد نے 1953 میں خواجہ ناظم الدین کو چلتا کیا اور 1954 میں اسمبلی تحلیل کردی توہم ان کی آہٹ محسوس کر سکتے ہیں، یہ چاپ پھر بوٹوں میں بدل گئی اور ایوب خان کے ’ایبڈو‘ نے 1958 میں بچی کچھی سیاسی سرگرمی کا جنازہ نکال دیا، تب سے انہیں کا راج ہے، ماضی میں ملک انہوں نے ہی بنایا تھا اسی لیے جلد ہی یہ حکمران ہو گئے اور اب بھی یہی نیا پاکستان تشکیل دے رہے ہیں اس لیے مستقبل بھی انہی کا ہے۔ کسی آمر کی حکومت بھی چاہے علانیہ ہو چاہے خفیہ ان ہی کی مرہون منت ہے۔

اس کے بر عکس سرحد پار وہی نظریاتی جماعت حکومت میں رہی جس نے آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔

یہی وجہ ہے ہم اپنی پیدائش سے چار دہائیوں تک جمہوریت کی تلاش میں ملک غلام محمد سے سکندر مرزا وہاں سے ایوب خان سے یحییٰ خان اور بھٹو کے استثنا کے ساتھ 1988 تک ضیا الحق کی آغوش میں پرورش پا رہے تھے۔

دوسری طرف ہندوستان۔ انڈین نیشنل کانگریس کے زیر سایہ۔ نہرو، شاستری، اندراگاندھی اور راجیو گاندھی تک (مراجی ڈیسائی اور چرن سنگھ کے استثنا کے ساتھ) 1989 میں اپنی جمہوریت کے بیالیس سال مکمل کرچکا تھا۔

افسوس اس امر کا ہے کہ ہم شعوری ارتقاء میں بہت پہلے کہیں منجمد ہو گئے ہیں اور دائرے کا سفر کر رہے ہیں، لیکن یہ رویہ کوئی انہونی نہیں، ہمارا ماضی ہمارے حال پر دال ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ہم نے مسلم لیگ سے ’کنونشنل مسلم لیگ‘ نکالی پھر ہم نے ’مسلم لیگ کیو‘ کا تجربہ کیا اور آج کل ’ن‘ سے ’ش‘ نکالنے کی سعی میں مشغول ہیں، غالباً اہل علم اسے ہی ترقی معکوس کا سفر کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments