اقبال کا نسخہ کیمیا


”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی“ اسکول میں تقریر کو تڑکا لگانے کے لیے اس سے زیادہ مصالحے دار شعر ہمیں کبھی ملا نہیں۔ کم علمی کا یہ عالم کہ اس امید پر علمی سفر جاری رکھا کہ کبھی تو اپنی قسمت

کے بنجر پن کو کوئی نمی میسر آئے گی مگر کتابیں ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ خیر کالج کے زمانے میں ہی کتابوں سے آنکھیں چار کرنا بند کر کے آنکھوں کے حقیقی مقصد کو سمجھنے کے بعد حسن والوں سے آنکھیں چار کرنا شروع کیا۔

کچھ دوستوں کی صحبت میں جو کہ خود ساختہ شاعر بھی تھے علامہ کے شعر میں رومانوی پہلو تلاش کرنا شروع کیے۔ کچھ عرصہ کے لیے تمام ہم خیال دوستوں نے نجانے کیا سوچ کر مٹی کے حسین پتلوں کو نم کرنے کی کوشش میں اپنی ساری نمی ضائع کر دی مگر امید کے پھول تھے کہ نہ کھلنے تھے نہ کھلے۔ علامہ نے بھی نجانے کس بنجر زمین پر ہل چلانے کے بعد یہ نسخہ کیمیا ایجاد کیا تھا کہ ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی“

وقت سا استاد کوئی ہو نہیں سکتا اس لیے ہم بھی شاگرد وقت کے ہی ٹھہرے کیونکہ بے ادب شاگرد کو وقت ہی سکھاتا ہے۔ عمر گزرتی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ پاسبان عقل کی قربت میں ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ علامہ جس مٹی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں وہ دھرتی ماں کی مٹی ہے، سو ہم نے مٹی کے بنجر ہونے کی وجہ جاننے کی کوشش شروع کی۔ عقل دھنگ اس بات پہ رہ گئی کہ علامہ کے نسخہ کیمیا کو جنہیں سمجھنا چاہیے تھا انہوں نے تو سمجھا نہیں اور جنہیں اس کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے تھی انہوں نے اسے اپنی کامیابی کی وجہ قرار دیا۔

جن خاندانوں کا اس مٹی سے کسی بھی زاویے سے محبت کا رشتہ نہیں تھا انہوں نے علامہ کے شعر کو ایسا تھاما کہ ان کے یک جان ہونے کی علامت ٹھہرا۔ بنجر ذہنوں، بنجر دلوں اور بنجر سوچوں پر لامتناہی ظالم حکمرانی کی وجہ سمجھ میں آ تو گئی مگر علامہ سے شکوہ بھی دل کے کسی گوشے میں جڑ پکڑنا شروع ہو گیا۔ شکوہ اس بات کا کہ علامہ کو سمجھنا چاہیے تھا کہ ان کا ایجاد کردہ نسخہ غلط ہاتھوں میں بھی جاسکتا ہے اور ہوا بھی ایسا ہی۔

چند افراد کے ہاتھوں میں ہے اگر اقوام کی تقدیر تو وہ چند افراد پاکستان بننے سے پہلے ہی یہ راز پا چکے تھے کہ اس مٹی پر جدید سائنسی علوم کی نمی، آزاد خیالی کی نمی، فہم و فراست کی نمی، تنقیدی سوچ کی نمی، حب الوطنی کی نمی، مذہبی اور معاشرتی ہم آہنگی کی نمی کبھی نہیں پڑنی چاہیے کیونکہ خشک بنجر ذہنوں پر حکمرانی آسان ہی نہیں بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔

دوراندیش و موقع شناس گروہ نے اس دھرتی کو تو بنجر ہی رہنے دیا مگر اپنی گدھ نما نسلوں کے لیے پھولوں کا گہوارہ سجائے رکھنے کی خاطر ہماری دھرتی کے حصے کی نمی اپنے اپنے آنگن میں لے گئے۔ اور ہم ان گدھ نما نسلوں کی محبت میں اس قدر دیوانے ٹھہرے کہ مجال ہے اپنے حصے کی نمی کا سوال بھی ذہن و دل میں آیا ہو۔ بلکہ کبھی گمان بھی گزرا کہ ہمارے آقاؤں کے آنگن کے پھول مرجھانے لگے ہیں تو ہم نے اپنے بچوں کا خون دے کر آقاؤں کے آنگن کو پر بہار رکھا۔

ہمارے آقا جانتے ہیں کہ ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی“ مگر ہم نہیں جانتے یا جاننا ہی نہیں چاہتے، کیونکہ ہم عادی ہو چکے ہیں ویرانے کے، ہمارے بنجر ذہنوں کو اب گھٹن ہوتی ہے ہریالی سے، ہماری بدبودار سوچوں کو تازگی کے جھونکے میں موت دکھائی دیتی ہے، تاریکی میں رہتے رہتے امید کی کرن ایک الجھن لگتی ہے۔

جب بھی کبھی کسی دھرتی ماں کے بیٹے یا بیٹی نے اس مٹی کو نم کرنے کی کوشش کی تو ہمارے آقاؤں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں غدار یا کافر قرار دے کر ان کا اس دھرتی سے رشتہ ہی توڑ ڈالا۔

اب جانا کہ علامہ نے جس دھرتی کا خواب دیکھا تھا وہ دھرتی حقیقت میں بنجر تھی، شاید ان کا خواب یہی تھا کہ ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی“ مگر ان کا یہ خواب اس دھرتی کے آقاؤں نے چھین لیا اور اس دھرتی کو اپنے پاؤں کی چوکی بنانے کے لیے خشک اور بنجر رکھا کیونکہ اس دھرتی کی زرخیزی آقاؤں کی گدھ نما نسلوں کی موت ہے مگر۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments