افغانستان میں طالبان: ایران اور کابل کے پیچیدہ تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا؟


ایران، افغانستان تعلقات
ایک وقت تھا کہ ایران اور طالبان کے درمیان شدید دشمنی نے ان دونوں فریقین کو سنہ 1998 میں جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ لیکن 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان اور ایران کی اپنے مشترکہ دشمن امریکہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ خراسان کی وجہ سے ایک تعلق قائم ہوا۔

تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کی ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان پر ایرانی اثر و رسوخ کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔

ایران میں تقریباً 30 لاکھ افغان پناہ گزین مقیم ہیں۔ دونوں ممالک کی ثقافت اور تاریخ سانجھی ہے اور دونوں ممالک کے مابین 921 کلو میٹر لمبی سرحد ہے اور سب سے اہم بات افغانستان سے دو ایسے دریا بہتے ہیں جو ایران کے لیے زندگی جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔

جب طالبان مزاحمت کار تھے تو وہ ایرانی مفادات میں کام کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال افغانستان کے پانی کے منصوبوں پر ان کے حملے تھے جن سے ایران میں پانی کی سپلائی کو خطرات لاحق تھے۔

اب جب طالبان 15 اگست کو حیران کن انداز میں واپس اقتدار میں آ چکے ہیں تو اب وہ خود کو دنیا سے تسلیم کروانے کے لیے بے تاب ہیں۔

انھیں عالمی امداد کی بھی ضرورت ہے۔ ایران کے ساتھ ان کے تعلقات کی وجہ سے یہ سب کچھ پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ ایران کو ہر طرح کی عالمی پابندیوں کا سامنا ہے۔

ایران، افغانستان تعلقات

ایران اور ہلمند کے طالبان

ایران کا ہلمند صوبے کے طالبان پر زیادہ اثر و رسوخ تھا۔ ہلمند صوبے کی سرحد ایران سے ملتی ہے۔ ہلمند صوبے سے جنگجوؤں کی ایک بڑی طالبان کی صفوں میں شامل ہوئی ہے اور یہ صوبہ افیون کی پیداوار کے لیے بھی مشہور ہے جہاں سے اسے بیرون ملک بھیجا جاتا تھا۔

ایک صحافی نے تو ہلمند کو طالبان کا غیر اعلانیہ دارالحکومت قرار دیا تھا کیونکہ یہاں طالبان پاکستان کے اثر سے قدرے آزاد تھے۔

واضح رہے کہ ملا ابراہیم صدر اور ملا قیوم ذاکر جیسے طاقتور طالبان کمانڈروں کا تعلق بھی ہلمند سے ہے۔

انھوں نے 2016 میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد پاکستان مخالف جنگجوؤں کے ساتھ مل کر ہلمند شوری کی بنیاد رکھی تھی۔

ان رہنماؤں کی نظر میں ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ ان کے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا۔

آئی ایس آئی جو ایک طرف طالبان کی قیادت کو اپنے ملک میں تحفظ فراہم کرتی تھی وہ وہیں افغانستان کے موجودہ نائب وزیراعظم ملا عبد الغنی برادر جیسے لوگوں کو جیل میں بھی بند کر دیتی تھی جو ان کی بات ماننے سے انکاری تھے۔

ایران کو طالبان کے ساتھ تعلقات کے بدلے میں سرحدی تحفظ کے علاوہ افغانستان سے پانی کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا تھا۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے امریکہ نے طالبان کمانڈروں ابراہیم صدر ذاکر اور داؤد مزمل پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔

یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے میں ایران نے ان کی مدد کی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایران کے پاسداران انقلاب نے شمالی اور مرکزی افغانستان میں اپنے زیر اثر افغان گروہوں کو طالبان کے خلاف لڑنے سے منع کیا تھا جس کی وجہ سے طالبان کو افغانستان پر باآسانی قبضہ کرنے میں مدد ملی تھی۔

ایران، افغانستان تعلقات

ایران کو حقانی گروپ سے پریشانی

ایران کو طالبان کے جس گروہ سے پریشانی ہے وہ حقانی گروپ ہے جس کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی آئی آیس آئی کے قریب ہے اور اس کے ایران میں ایران اور شیعہ مخالف سنی گروہوں جیسے جیش عدل سے قریبی تعلقات ہیں۔

پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضےمیں حقانی گروپ کا کلیدی کردار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس گروپ کو نئی قائم ہونے والی عبوری حکومت میں نوازا بھی گیا۔

طالبان کی حکومت میں حقانی گروپ کو اعلیٰ عہدے ملے ہیں جن میں سب اہم وزارت داخلہ ہے جو سراج الدین حقانی کے حصے میں آئی ہے۔ خیال رہے کہ امریکی ایف بی آئی نے سراج الدین حقانی کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کے حوالے سے ایران کا رویہ نرم کیوں ہو رہا ہے؟

امریکہ کے جانے کے بعد طالبان اور ایران آپس میں کیسے نمٹیں گے؟

’طالبان کی واپسی‘ انڈیا، ایران اور ترکی کے مفادات پر کیسے اثر انداز ہوسکتی ہے؟

ایران سے منسلک طالبان کو کابینہ میں کم نمائندگی ملی ہے۔ طالبان نے پہلے جس کابینہ کا اعلان کیا تھا اس میں ہلمندی طالبان ملا ابراہیم صدر اور ملا قیوم ذاکر کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ملا ابراہیم صدر اور ملا قیوم ذاکر ناراض ہو کر کابل چھوڑ کر واپس ہلمند چلے گئے تھے۔

طالبان کی پہلی 33 رکنی کابینہ کے سارے ممبران سنی تھے اور تین کے علاوہ باقی سب کا تعلق پشتون نسل سے تھا۔ پہلی کابینہ کے اعلان کو بیرونی دنیا سے مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔

ایران بھی ایسے ممالک میں شامل تھا جنھیں طالبان کی کابینہ پر اعتراض تھا۔

ایران، افغانستان تعلقات

پنجشیر کی لڑائی نے تعلقات کشیدہ کر دیا

پنجشیر وادی کی لڑائی نے بھی ایران اور طالبان کے تعلقات کو کشیدہ بنا دیا تھا۔

پنجشیر وادی میں قومی مزاحمتی فرنٹ کی قیادت کرنے والے احمد مسعود افغانستان کی تمام قومیتوں کی حکومت میں شمولیت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی غیر پشتون ہے لہذا ان کی بھی کابینہ میں اسی تناسب سے نمائندگی ہونی چاہیے۔

طالبان کی جانب سے پنجشیر کی مزاحمت کو کچلے جانے کے بعد ایران نے اپنے ملک میں طالبان مخالف مظاہروں کی اجازت دے کر اپنی پوزیشن واضح کی۔ تہران میں ایک روڈ کا نام بھی بدل کر پنجشیر رکھ گیا ہے۔

طالبان نے کابینہ میں صرف سنی مسلمانوں کو شمولیت پر ایرانی تنقید کا یہ کہہ کر جواب دیا کہ ایران کی کابینہ میں کتنے سنی مسلمانوں کو شامل کیا گیا ہے۔

طالبان کی ایران سے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش

طالبان نے ایران کے ساتھ اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے کابینہ میں چند تبدیلیاں کی ہیں۔ انھوں نے 20 ستمبر کو ہلمند سے طالبان کمانڈر داؤد مزمل کو ننگرہار کا گورنر مقرر کیا ہے ۔ داؤد مزمل کو ننگرہار کا گورنر بنانے کا مطلب یہ کہ طالبان دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف لڑائی میں سنجیدہ ہے۔

داؤد مزمل کو ننگرہار کا گورنر مقرر کیے جانے کے ایک روز بعد ہی ملا ابرہیم صدر کو نائب وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔ ہزارہ گروپ سے ایک شخص کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے جس کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔

طالبان کے ترجمان نے کابینہ میں اضافے کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ میں اقلیتی قوموں کو نمائندگی دی گئی ہے۔

ایران، افغانستان تعلقات

ایران اور طالبان کے تعلقات کا مستقبل

کابینہ میں تبدیلیاں افغانستان کی اسلامی امارات پر ایران کے اثر و رسوخ کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے شعبے ہیں جو ایران اور طالبان کے تعلقات کی مضبوطی یا خرابی کی نشاندہی کریں گے۔

مثلاً افغانستان سے ایران کو پانی کی فراہمی، دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف کارروائی اور افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کے حقوق ایسے معاملات ہیں جن سے طالبان اور ایران کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا پتہ چل سکے گا۔

طالبان نے ایسے الزامات کو مسترد کیا ہے کہ اس نے کمال خان ڈیم سے ایران کے لیے پانی کھولا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیو شیئر کی گئی تھیں جن میں افغانستان سے پانی بہہ کر ایران میں جاتا ہوا دیکھا گیا تھا۔

طالبان ابھی تک صوبہ ننگر ہار میں دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف شدت کے ساتھ کارروائیاں کرتے نظر آ رہے ہیں۔

البتہ طالبان کی جانب سے شعیہ مسلک خاص کر کئی ہزارہ کو مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ دیکندی میں 800 ہزارہ خاندانوں کو ان کی زمینوں سے بےدخل کیا گیا ہے۔

ایران کا سخت گیر اخبار گیان پہلے ہی طالبان کو ایران کے مزاحمتی محور میں شریک کر چکا ہے۔ اس کی وجہ شاید دونوں کی امریکہ سے دشمنی ہے۔

البتہ ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ طالبان اور ایران کا اتحاد اب دونوں ملکوں کے مابین پائیدار تعلقات کی بنیاد بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments