پرینکا چوپڑا، دپیکا پڈوکون اور انوشکا شرما سمیت دیگر بالی وڈ اداکارائیں جو اب پروڈیوسر کے روپ میں بھی نظر آئیں گی


انوشکا، دپیکا، پرینکا
ہندی فلم انڈسٹری پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکی ہے۔ جس طرح ناظرین کی مانگ بدل رہی ہے اسی طرح فلم بنانے کا عمل بھی بدل رہا ہے۔

مردوں کی اکثریت والی ہندی فلم انڈسٹری اب فلموں میں صنفی مساوات کی طرف جا رہی ہے۔ شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان، اکشے کمار، اجے دیوگن، رنبیر کپور جیسے اداکار فلم پروڈکشن کی طرف مائل ہو رہے ہیں لیکن اب انڈسٹری کی ہیروئنز بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور فلم پروڈکشن کے میدان میں وہ بھی آگے آ رہی ہیں۔

اپنی اداکاری سے فلم انڈسٹری میں جگہ بنانے والی انوشکا شرما نے اپنے بھائی کرنیش شرما کے ساتھ مل کر ’کلین سلیٹ فلمز‘ کے نام سے ایک پروڈکشن ہاؤس کھولا ہے۔ اس کے تحت انھوں نے این ایچ 10، پری، فلوری اور بلبل جیسی فلمیں بنائی ہیں۔

بالی ووڈ سے ہالی ووڈ تک اپنی پہچان بنانے والی اداکارہ پرینکا چوپڑا نے ’پرپل پیبلز پکچرز‘ کے نام سے ایک پروڈکشن ہاؤس کھولا اور کئی ہندی اور علاقائی زبانوں میں فلمیں بنائیں، جن میں مراٹھی فلم وینٹی لیٹر، نیپالی فلم پہنا اور او ٹی ٹی پر ریلیز ہونے والی فلم وائٹ ٹائیگر شامل ہے۔

اداکاری میں اپنا لوہا منوانے والی اداکارہ دپیکا پڈوکون نے ’کا پروڈکشن‘ کے ساتھ فلم پروڈکشن میں قدم رکھا اور فلم چھپاک بنائی۔

وہیں عالیہ بھٹ، تاپسی پنوں، کنگنا رناوت اور کرینہ کپور بھی ہدایتکار بننے کا اعلان کر چکی ہیں۔

اس رجحان کو مثبت نظر سے دیکھتے ہوئے تاریخ داں ایس ایم ایم اوسجا کا کہنا ہے کہ اب اداکارائیں بھی ہیروز کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور یہ بہت مثبت رجحان ہے۔

اس رجحان کی وجہ کیا ہے؟

فلمی کاروبار کے ماہر اتل موہن کہتے ہیں کہ ’اداکاروں کی آج کی نسل بہت ہوشیار ہے۔ وہ مسلسل مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے کہ پیسہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اور بطور فنکار کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟

وہ کہتے ہیں ’پہلے فلمیں صرف سینما گھروں میں ریلیز ہوتی تھیں اور صرف سرکاری ٹی وی چینل دور درشن ہوا کرتا تھا۔ لیکن پچھلے 10 سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ فلموں کی کمائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ فلمیں سو کروڑ سے 300 کروڑ تک کما رہی ہیں۔

سیٹلائٹ، ڈیجیٹل، آڈیو ہر جانب سے پیسہ مل رہا ہے، بیرون ملک فلموں کے کاروبار سے بھی پیسہ مل رہا ہے۔ پیسے کمانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ اس کے ساتھ آئی پی آر (دانشورانہ املاک کے حقوق) مستقبل میں پیسہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔

اتل موہن مزید کہتے ہیں کہ ’جس طرح راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن نے یش چوپڑا جیسے بڑے ہدایت کاروں کے ساتھ مل کر فلم بنائی۔ جب وہی بچن صاحب ٹاپ پر آئے تو انھوں نے ڈسٹری بیوشن لینا شروع کیا جس میں امر اکبر انتھونی، نصیب جیسی فلمیں شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ان کی اگلی نسل شاہ رخ خان نے ایک فلم سٹوڈیو کھولا۔ اداکاروں کو دیکھ کر اداکارائیں بھی سمجھ گئیں کہ فلم پروڈکشن میں پیسہ ہے۔

بڑے اسٹوڈیوز کی سپورٹ

آج کی اداکارہ صرف ہیرو کے ارد گرد کی کہانیوں کا حصہ نہیں ہیں بلکہ فلموں میں اہم کرداروں میں نظر آتی ہیں۔ وہیں اس طرح کی بہت سی کہانیوں میں اداکاراؤں نے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے۔ چاہے انوشکا شرما کی فلم این ایچ 10 ہو یا دیپیکا پڈوکون کی چھپاک۔

اتل موہن مزید کہتے ہیں کہ ’آج کل کے حالات کی عکاسی کرنے والے کئی منفرد موضوعات پر فلمیں بنا رہے ہیں۔ ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کے لیے ہدایتکار یا پروڈیوسر نہیں مل پاتے اگر کوئی بڑا ہیرو یا ہیروئن ایسی کہانی پر فلم بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو انھیں بڑے سٹوڈیوز کا تعاون ملتا ہے جیسے ایروس نے انوشکا شرما کی فلمیں اور فاکس سٹوڈیو انڈیا نے دپیکا کی فلم کے لیے کیا۔

وہ کہتے ہیں انھیں اپنی قسم یا اپنی پسند کی فلم بنانے کی خواہش ہوتی ہے۔ جس قسم کے کردار وہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں مل پاتے وہ ان موضوعات کو بطور پروڈیوسر منتخب کرتی ہیں۔ جس سے ان کا آئی پی آر زندگی بھر کے لیے محفوظ ہوتا ہے۔ یہ ان کا اثاثہ بن جاتا ہے۔ اس سے ہر پانچ یا سات سال بعد رقم کمائی جا سکتی ہے اور انھیں مختلف پلیٹ فارمز پر چلایا جا سکتا ہے۔‘

تاہم انھوں نے واضح کیا کہ سٹار کے پروڈیوسر بننے سے فلم کی لاگت کم نہیں ہوتی کیونکہ سٹار اپنی مارکیٹ میں بھی اپنی فلم کو برقرار رکھتا ہے۔ ساتھ ہی ستارے یہ بھی طے کرتے ہیں کہ اگر فلم تھیٹروں میں ریلیز ہوئی تو ان کی فیس کتنی ہو گی جبکہ اگر براہ راست او ٹی ٹی پر ریلیز کی گئی تو ان کی فیس تھیٹر ریلیز فیس سے زیادہ ہو گی۔

یہ رجحان نیا نہیں ہے

ہندی فلم انڈسٹری کے ابتدائی مرحلے میں ایسی کئی مضبوط اداکارائیں تھیں جنھوں نے فلم پروڈکشن کی کمان سنبھالی۔ تاریخ دان امرت گنگر نے ایسی کئی با اختیار اداکاراؤں کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔

فاطمہ بیگم نے اپنے کیریئر کا آغاز اردو سٹیج سے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اردشیر ایرانی کی ’ویر ابھیمنیو‘ سے فلموں میں اپنی اداکاری کا آغاز کیا۔ بعد میں اردشیر ایرانی نے امپیریل فلم کمپنی بنائی جس نے 1931 میں انڈیا کی پہلی صوتی یا بولتی فلم ’عالم آرا‘ بنائی۔

عالم آرا میں فاطمہ بیگم کی بیٹیوں زبیدہ، سلطانہ اور شہزادی نے کام کیا۔

1926 میں فاطمہ بیگم نے فاطمہ فلمز کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس کھولا اور 1928 میں وکٹوریہ ۔ فاطمہ فلمز قائم کی۔ فاطمہ بیگم ایک باصلاحیت خاتون تھیں جنھوں نے کوہ نور اور امپیریل سٹوڈیو جیسے بڑے سٹوڈیوز کی فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنی پروڈکشن سے فلمیں بھی بنائیں، اداکاری کے ساتھ ساتھ سکرپٹ رائٹنگ اور ڈائریکشن بھی کی۔

انھوں نے 1930 کی دہائی میں اداکاری جاری رکھی۔ وہ ہندی سنیما کے عظیم ہدایت کار نانو بھائی وکیل اور ہومی ماسٹر کے ساتھ کام کرتی نظر آئیں۔

زبیدہ 1931 میں انڈیا کی پہلی صوتی فلم عالم آرا کی سٹار تھیں۔

اداکارہ زبیدہ نے ڈائریکٹر نانو بھائی وکیل کے ساتھ مل کر 1934 میں مہالکشمی سینیٹون کمپنی قائم کی۔ انھوں نے 1930 کی دہائی کے آخر تک فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔

جدن بائی 1930 کی دہائی کے ہندی سنیما کی ایک ورسٹائل اور ذہین شخصیت تھیں۔ جدن بائی 1892 میں الہ آباد میں پیدا ہوئیں اور 1949 میں ممبئی میں ان کا انتقال ہوا۔ 1932 میں وہ لاہور میں پلے آؤٹ فوٹو ٹون سٹوڈیو میں شامل ہوئیں اور چار سال بعد 1936 میں انھوں نے سنگیت فلمز کے نام سے ایک کمپنی قائم کی۔

1933 سے 1935 تک انھوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گانے بھی گائے جن میں انسان یا شیطان، راجہ گوپی چند، سیوا سدن، تلاش حق، پریکشا اور ناچوالی شامل ہیں۔

انھوں نے ہندی اور پنجابی فلموں میں گایا۔ وہ دو فلموں کی مسیقار بھی رہیں۔ انھوں نے 1948 کی فلم انجمن کا سکرپٹ بھی لکھا۔ ورسٹائل، باصلاحیت جدن بائی حسین نے گلوکار، موسیقار، رقاصہ، اداکارہ، ہدایتکار اور پروڈیوسر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔

یہ بھی پڑھیئے

بالی وڈ اداکارائیں:’یہ دل مانگے اور‘

انڈین اداکارائیں امریکی جسم فروش گروہ کے چنگل میں

‘فلم انڈسٹری میں دوست بنانا آسان ہے’

وہ مشہور اداکارہ نرگس کی ماں تھیں۔ امرت گنگر کے مطابق آج کی اداکاراؤں میں ایسی بااثر شخصیت ملنا مشکل ہے۔

کانن دیوی انڈین سنیما کی ایک اور بااثر خاتون تھیں۔ انھوں نے ہندی اور بنگالی سنیما میں اہم کردار ادا کیا ۔ کانن دیوی نے خاموش دور میں اداکاری شروع کی اور 1949 میں شریمتی پکچرز سے فلم سازی کا آغاز کیا۔ انھوں نے فلم اننیا سے سویاساچی کلیکٹیو لانچ کیا۔

انھوں نے تقریباً گیارہ فلمیں بنائیں۔ وہ اپنی کئی مشہور فلموں میں گلوکارہ بھی تھیں۔ کے ایل سہگل کے ساتھ 1938 میں بننے والی فلم ساتھی، سٹریٹ سنگر 1941 میں بنی فلم لگان اور پریچے ایسی فلمیں تھیں۔

ماضی کی خاتون ہدایت کار اور کہانیاں

اس موضوع پر امرت گنگر نے تبصرہ کیا کہ ’جب کوئی عورت کسی موضوع پر فلم لکھتی ہے یا ہدایت یا پروڈیوس کرتی ہے تو اس میں اس کا نقطہ نظر بھی ہوتا ہے، لیکن ذاتی طور پر مجھے لگتا ہے کہ 1930 سے 1940 کی دہائی کے مقابلے آج کا دور بالکل مختلف ہے۔

آج کا بالی ووڈ اس زمانے کے ہندی فلم سٹوڈیوز کے مقابلے میں بہت محدود ہے اور اس میں صنفی تفریق کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ ذہنیت بھی دکھائی دیتی ہے۔ ورنہ اس دور میں فاطمہ بیگم، زبیدہ اور جدن بائی جیسی خواتین ابھر کر نہیں آتیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اُن اداکاراؤں نے ہر موضوع میں اپنا ہاتھ آزمایا جس میں سماجی، تاریخی، ایڈونچر، باغی، ایکشن اور تھرلر فلمیں شامل تھیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اس دور کی نڈر نادیہ نہ بنتی۔‘

1960 کے بعد تبدیلیاں

ہندی سنیما کے ابتدائی مرحلے میں کئی اداکارائیں پروڈیوسر بنیں اور کئی موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں کمی آتی گئی۔ تاریخ دان امرت گنگر نے اس کی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی پدر شاہی ذہینیت بتائی ہے۔

1960 کے بعد معاشرے میں پدر شاہی ذہینیت اور قدامت پسندی کے ساتھ ساتھ مذہبی ، سماجی اور خاندانی روایات کو توڑنے کا خدشہ بڑھ گیا۔

وہ مزید کہتے ہیں’ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ فلمی صنعت میں خواتین کی کثیر جہتی صلاحیتوں کے ابھرنے کے لیے ایک لبرل، سیکولر، غیر انتشار پسند اور غیر نسل پرست نظر والا ماحول ہونا بہت ضروری ہے۔

تصور کریں کہ فاطمہ بیگم گجرات میں سورت کے قریب ایک شاہی خاندان سے تھیں جنھوں نے نواب سے شادی کی تھی۔ ان کی تین اداکارہ بیٹیاں شہزادیاں تھیں۔ اندازہ کیجیے کہ ان کے گھر کے مرد کیا کم با اثر اور شاہی ذہینیت کے مالک ہوں گے۔

اکیسویں صدی کی ہندی سنیما کی اداکارائیں بدلتے وقت کے ساتھ ایسے کئی موضوعات والی فلموں کا حصہ بن چکی ہیں جنھوں نے معاشرے میں بحث چھیڑی ہے اور پبلک کو سنیما ہال میں راغب کر کے پیسہ بھی کمایا ہے۔

تاریخ دان ایس ایم ایم اوساجہ کا خیال ہے کہ ایسی بڑی اداکارائیں جو اکیلے ہی باکس آفس کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں، ان اداکاراؤں کی فلم سازی کے شعبے میں آنے سے ناظرین کو بہت سی نئی اور منفرد کہانیاں دیکھنے کو ملیں گی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments