ایک بہادر لیڈر کی کہانی



یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے اندر باغیانہ جراثیم ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہر دور میں نتائج کی پرواہ کیے بغیر طاقتور جرنیلوں سے بھڑ جاتے ہیں اور پھر حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن کیا ان کا باغی ہونا صرف طاقت کے اندرونی مراکز تک ہی محدود رہا ہے؟ جی نہیں اب یہ ڈھکی چھپی بات نہ ہے کہ جب ہندوستان نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے تو میاں نواز شریف نے ایک ہمہ گیر مشاورتی عمل کے بعد پاکستانی سائنسدانوں اور انجنیئروں کو ان دھماکوں کا جواب دینے کی تیاری کو کہہ دیا، کہا جاتا ہے اور انٹرنیشنل میڈیا بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس وقت امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم نواز شریف کو اپنے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے پہلے پہل سخت پابندیوں سے ڈرایا اور جب نواز شریف نہ مانا تو پھر 5 ارب ڈالرز ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی آفر کی لیکن مشاہد حسین سید جو کہ اس کال رسیو کرتے وقت موقع پر موجود تھے کے مطابق نواز شریف کسی چٹان کی طرح اپنے فیصلے پر اڑے رہے اور دھماکے کروا کر ہی دم لیا تھا اور اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

ان کے باغی پنے کی ایک مثال ان کی لاہور میں ایک تقریر سے بھی ملتی ہے کہ اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے تھے اور ان کا قد غیر معمولی طور پر لمبا تھا اور سب جانتے ہیں کہ امریکی سفیر پاکستان میں کسی وائسرائے کا سا مقام رکھتا ہے لیکن نواز شریف نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے اس وقت یہ کہہ کر سب کو چونکا اور لرزا دیا تھا کہ

”کیا نام ہے اس لمبو کا“ ؟
اور سب کو معلوم تھا کہ دراصل وہ کس ہستی کا ذکر کر رہے تھے۔

پھر جب سابق آمر مشرف نے آئین شکنی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا تو بتایا جاتا ہے کہ کم از کم تین حاضر سروس جرنیل نواز شریف سے اسمبلی توڑنے والی ایڈوائس پر دستخط کے لیے ان کے پاس گئے اور ان سے اس کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا لیکن نواز شریف نے سختی سے انکار کر دیا اور جب ایک جنرل نے انہیں ذرا اونچی آواز میں مخاطب کرتے ہوئے دستخط کے لیے کہا تو نواز شریف کے اندر کا وہی روایتی باغی بیدار ہو گیا اور انہوں نے نہایت پراعتماد لہجے میں کہا

over my dead body

اور سب جانتے ہیں کہ پھر آئین شکن آمر عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے ایک اور نظریہ ضرورت کی وجہ سے ”جدہ کے جادوگر“ شریف الدین پیرزادہ کی صلاح کے مطابق ”چیف ایگزیکٹیو“ کا ایک مضحکہ خیز عہدہ تخلیق کر کے کرسی پر قابض ہوا تھا۔

نواز شریف کا باغی پنا پی پی پی کی سیاسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اس وقت بھی ملاحظہ کیا جب زرداری نے وعدہ کرنے کے باوجود عدلیہ کی بحالی سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ

”وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے“

اور پھر سب نے دیکھا کہ باغی نواز شریف ایک شان اور آن کے ساتھ گھر سے نکلا اور اس سے پہلے کہ اسلام آباد پہنچتا زرداری ٹولے کی ہوا نکل چکی تھی اور اس نے گیلانی کے ذریعے آدھی رات کو چیف جسٹس افتخار چودھری اور معزول ججز کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا اور اس دوران ایک نہایت خطرناک خبر بھی نواز شریف کو لانگ مارچ کی قیادت کے لیے نکلنے سے روک نہ سکی کی کراچی کے لیاری گینگ کا سربراہ رحمان ڈکیت اپنے 20 کے قریب ساتھیوں سمیت میاں نواز شریف کو نقصان پہنچانے کے لیے لاہور میں کہیں پہنچ چکا ہے، یہ اطلاع ملتے ہی سعودیز حرکت میں آئے اور برطانیہ کے کچھ اہم لوگوں نے فی الفور نواز شریف کی زندگی کے تحفظ کے لیے سخت ترین نتائج سے آگاہ کیا تو رحمان ڈکیت کراچی کی طرف روانہ ہو گیا جسے بعد میں ایک پولیس افسر چودھری اسلم نے مقابلے میں مار دیا اور پھر چودھری اسلم بھی ایک بم دھماکے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

کہا جاتا ہے کہ ایک بار کراچی میں نواز شریف ریلی کی قیادت کو گئے تو سامنے فوج لا کر کھڑی کردی گئی، جیسے ہی ریلی ان فوجیوں کے پاس پہنچی تو گنیں سیدھی ہو گئیں، شیخ رشید ساتھ چل رہے تھے انہوں نے تیزی سے نواز شریف کے کان میں کہا

”یہ گنیں سیدھی کر لیں تو مطلب چلانا ہوتا ہے“

نواز شریف نے انہیں گھور کر دیکھا اور گنوں کی طرف قدم بڑھا ڈالے، سب کو اوسان خطا ہو گئے کہ اب چلیں گولیاں لیکن جیسے ہی نواز شریف پہلے گن بردار کے پاس پہنچے سب نے اپنی گنیں ایک دم نیچے کر لیں اور نواز شریف ریلی لے کر آگے بڑھتے چلے گئے تھے اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس وقت شیخ رشید کہیں پیچھے کو کھسک لیے تھے۔

اور ایک سین وہ بھی ہے جب موجودہ وزیراعظم عمران خان اپنے کزن طاہر القادری کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کفن پہنے اور قبریں کھود کر وزیراعظم نواز شریف کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کی دھمکیاں دے رہے تھے، حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے اور میڈیا میں تواتر سے یہ خبریں آ رہی تھیں کہ کچھ وزرا ڈر کر اسلام آباد چھوڑ کر بھاگ لیے تھے اور اس دوران وزیراعظم نواز شریف کے بھی فیملی سمیت ہیلی کاپٹر پر لاہور نکل جانے کی خبریں چلوائی گئیں لیکن نواز شریف نے کچھ صحافیوں کو وزیراعظم ہاؤس بات چیت کے لیے بلا کر اس جھوٹ کا پول کھول دیا اور بتا دیا کہ وہ ایسے بحرانوں کا شیر کی مانند مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نفسیاتی جنگ میں حوصلے بلند رکھنے کا فن ان سے زیادہ کوئی نہ جانتا ہے اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ 126 روز کا پرتشدد دھرنا بے کار گیا اور مرد بحران نواز شریف چند انچ بھی پیچھے نہ ہٹایا جا سکا تھا اور عمران خان اور ان کے موقع پرست اور فسادی کزن سمیت سب لندن پلان کے سازشیوں کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔

میاں نواز شریف کو جنرل مشرف نے اپنے اندھی طاقت استعمال کرتے ہوئے زبردستی کے ایک معاہدے میں باندھ کر سعودیہ روانہ کر دیا تھا لیکن بے چین روح تڑپتی رہی اور پھر سرزمین پاک پر باغی آیا بھی لیکن منہ زور آمر نے ریاستی طاقت اور جبر کو بھرپور استعمال کرتے ہوئے اسے اپنے ہی وطن کی فضاؤں میں سانس لینے کی مہلت و آزادی سے محروم کر دیا تھا۔

پھر آسمان نے ایک یہ منظر بھی دیکھا کہ کراچی میں ممتاز اینکر و کالم نگار حامد میر کو گولیاں لگیں اور ان کے بھائی نے ایک حساس ادارے کے سربراہ پر اس کی ذمے داری ڈال دی جس سے ریاستی ادارہ کی ان سے ایک ٹینشن کا ماحول بن گیا تھا اور اس وقت نواز شریف نے بطور وزیراعظم حامد میر کی انسانی بنیادوں پر عیادت کے لیے جانے کا اعلان کر کے سب کو ”وختہ“ ڈال دیا تھا، ذرائع کے مطابق نواز شریف کو اس عیادت سے روکا گیا لیکن وہ پھر بھی چلے گئے تھے اور دوسری طرف آرمی چیف نے اپنے ادارے کے ہیڈ کوارٹر جاکر ان سے اظہار یک جہتی کیا تھا۔

میاں محمد نواز شریف کو جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ ہواؤں کے مخالف رخ پر چلنے والے انسان ہیں اور ابھی جو منظرنامہ بنا ہے اس میں خلائی مخلوق سے بات آگے بڑھ کر سیدھی ناموں تک چلی گئی ہے جس کی وجہ سے شریفز اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کی سرگوشیاں بھی نہ سنائی دے رہی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک بڑا کردار میاں نواز شریف کی طرح سخت موقف رکھنے والی ان کی جرات مند بیٹی کا بھی ہے جو کہ ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگانے کے بعد ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہیں۔

خاکسار میاں محمد نواز شریف کے حوالے سے ایسے بے شمار واقعات پیش کر سکتا ہے کہ جن سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے اندر ہمیشہ سے ایک سرپھرا اور باغی انا الحق کا نعرہ لگانے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے اور باغیوں سے نہ کبھی کوئی خوش ہوا ہے اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کبھی کوئی کمی آئی ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان مشکل راستوں کا انتخاب یہ باغی خود ہی کرتے ہیں اور ان کی کامیابی ہی عوام کی کامیابی کہلاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments