حوالہ کا کاروبار کیا ہے، یہ کب شروع ہوا اور کتنا وسیع ہے؟


کرنسی
رقم کو دنیا کے ایک حصے سے دوسرے تک پہنچانا اور وہ بھی اسے اپنی جگہ سے منتقل کیے بغیر، اس کے لیے نہ تو بینکوں کی اور نہ ہی کرنسی ایکسچینج کی ضرورت ہے، نہ کوئی فارم بھرنا ہے اور نہ ہی فیس ادا کرنی ہے۔

اس میں ایک تو رقم بھیجنے والا اور دوسرا جس کے پاس رقم پہنچنی ہے اور درمیان میں کم از کم دو اور لوگ ہوتے ہیں جنھیں آپ ثالث یا مڈل مین کہہ سکتے ہیں۔

یہ حوالہ کا کاروبار ہے جو روایتی بینکاری نظام کی آمد سے بہت پہلے سے موجود تھا۔ رقوم کی منتقلی میں آسانی اور اس میں شامل لوگوں کو دستیاب بہت سے فوائد کی وجہ سے یہ صدیوں سے جاری ہے۔

اس کے ذریعے لاکھوں ڈالر دنیا بھر میں ادھر سے ادھر منتقل کیے جا سکتے ہیں، اس علم کے بغیر کہ رقم کتنی ہے اور اسے کون کنٹرول کر رہا ہے۔

رقم کو دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں غیر قانونی طور پر منتقلی کا نام ہی حوالہ ہے اور اس میں سب سے اہم کردار ایجنٹ یا مڈل مین کا ہوتا ہے جسے ثالث کہا جا سکتا ہے۔ مڈل مین شاذ و نادر ہی کسی لین دین کا ریکارڈ چھوڑتے ہیں۔

اسی وجہ سے یہ معلوم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہوتی کہ رقم حوالہ کے ذریعے کہاں سے نکل کر کہاں پہنچ رہی ہے اور اس کا استعمال ممکنہ طور پر منی لانڈرنگ، منشیات کی سمگلنگ اور انتہا پسند تنظیموں کی مالی معاونت کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔

میڈرڈ کی پونٹیفیسیا کامیلا یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر البرٹو پریگو مورینو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اگرچہ حوالہ خود ان سرگرمیوں سے منسلک نہیں لیکن یہ غلط مقاصد کے حصول کا آلہ کار ہو سکتا ہے۔‘ درحقیقت یہ خلیج فارس، مشرقی افریقہ، جنوبی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں پھیلا ہوا ہے۔

بینکنگ نظام کے متوازی

اسے ایک روایتی اور غیر رسمی طریقہ کار کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو کسی دوسرے بینکنگ نظام کے متوازی چلتا ہے اور اس کی اہمیت مڈل مین کے اعتماد پر مبنی ہے۔

مثال کے طور پر نیویارک سے کوئی شخص بینک اکاؤنٹ کھولے بغیر ہی اسلام آباد رقم بھیج سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے مقامی مڈل مین سے رجوع کر کے اسے ڈالر میں رقم اور پاس ورڈ دینا ہوتا ہے جس پر پیسے بھیجنے والے اور وصول کرنے والے دونوں متفق ہوں۔ یعنی ان دونوں کے علاوہ یہ پاس ورڈ اب بیچ والے افراد کو بھی معلوم ہے۔

کرنسی قیمت

اب مقامی مڈل مین پاکستان کے دارالحکومت میں موجود مڈل مین سے رابطہ کرتا ہے اور اسے رقم اور پاس ورڈ بتاتا ہے۔

یہ دوسرا مڈل مین پاکستانی روپے میں اتنی ہی رقم اس شخص کو دیتا ہے جہاں پیسے پہنچانے تھے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ رقم صحیح شخص تک پہنچے اور اس کے لیے وہ پاس ورڈ پوچھتا ہے۔

یہ سارا عمل صرف چند گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے اور مڈل مین ایک چھوٹی سی رقم بطور کمیشن لیتا ہے۔

حوالہ کہاں سے آیا؟

یہ واضح نہیں کہ حوالہ کب شروع ہوا لیکن کچھ لوگ اس کا تعلق آٹھویں صدی میں شاہراہ ریشم کے تعلق سے ہندوستان سے جوڑتے ہیں۔

شاہراہ ریشم قدیم زمانے میں چین سے باقی دنیا کا تجارتی راستہ کہلاتا تھا۔ ریشم کی تجارت دو سو سال قبل مسیح اور دوسری صدی قبل مسیح کے درمیان ہان خاندان کے دور میں پروان چڑھی۔ اس سے پہلے شاہراہ ریشم کے قافلے چینی سلطنت کے شمالی سرے سے مغرب کی طرف جاتے تھے۔

لیکن پھر وسطی ایشیا کے قبائل سے رابطہ ہوا اور آہستہ آہستہ یہ راستہ چین، وسطی ایشیا، شمالی ہند، موجودہ ایران، عراق اور شام سے ہوتا ہوا روم پہنچا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس راستے پر نہ صرف ریشم کی تجارت ہوتی تھی بلکہ اس سے وابستہ تمام لوگ اپنی مصنوعات کی تجارت اسی راستے سے کیا کرتے تھے۔

لیکن شاہراہ ریشم پر اکثر چوری اور لوٹ مار کی وارداتیں بھی ہوتی تھیں، اس لیے انڈین، عرب اور مسلمان تاجروں نے اپنے منافع کے تحفظ کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے۔

نقشہ

تاجروں نے ایک پاس ورڈ استعمال کیا جو کوئی چیز، لفظ یا اشارہ ہوتا تھا اور اسی طرح کی چیزیں، لفظ یا پاس ورڈ وصول کنندہ کو ظاہر کرنا ہوتی تھی۔ اس طرح وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ رقم یا سامان کا لین دین صحیح ہاتھوں تک ہوا۔

یہ نظام کتنا پرانا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں پہلا بینک ’بینک آف ہندوستان‘ تھا جو 18ویں صدی میں کولکتہ میں قائم کیا ہوا تھا۔

آج دنیا جس رفتار سے ٹیکنالوجی کے معاملے میں ترقی کر رہی ہے اسی آسانی کے ساتھ حوالہ کے کام بھی آسان ہو گیا ہے۔ آج فوری پیغام رسانی کے ایپ کے ذریعے پاس ورڈ کی جگہ کوڈ بھیجے جاتے ہیں۔ لہذا مڈل مین اپنی کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ متوازی طور پر بھی اسے بہت آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔

لیکن یہ لین دین خفیہ طور پر کیوں کیے جاتے ہیں؟

پروفیسر البرٹو پریگو مورینو کا کہنا ہے کہ ’ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات یہ پیسے اعلانیہ یعنی مکمل طور پر جائز نہیں ہوتے۔ بعض اوقات (صارف) ٹیکس ادا کرنے سے بچنا چاہتا ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ کمیشن کم سے کم ہوں۔‘

ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص روایتی طریقے سے کسی دوسرے ملک میں واقع اپنے خاندان کو امریکہ سے رقم بھیجنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسے کئی مطالبات پورے کرنے پڑتے ہیں۔

راستہ

اگر آپ بینکنگ سسٹم استعمال کرتے ہیں تو آپ کے پاس ایک مخصوص رقم ہونی چاہیے۔ اکاؤنٹ کھولنے کے لیے آپ کو کچھ دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے جیسے آپ کی شناخت اور وہاں آپ کی قانونی حیثیت وغیرہ۔

دوسری رقم کی منتقلی کی خدمات بین الاقوامی لین دین کے لیے آپ سے 20 فیصد تک کمیشن وصول کر سکتی ہیں۔ کوئی بھی طریقہ ہو صارف کو کئی ضابطوں سے گزرنا ہوتا ہے تاکہ منی لانڈرنگ جیسی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔

لیکن حوالہ میں اس طرح کی بہت سی پیچیدگیاں نہیں ہیں۔

پریگو مورینو کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت زیادہ مؤثر طریقہ کار ہے کیونکہ رقم وصول کنندہ تک نسبتاً جلدی پہنچ جاتی ہے اور کمیشن کم ادا کرنا پڑتا ہے۔‘

’مڈل مین کے لیے اس کا اچھا نیٹ ورک ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ کے جتنے زیادہ رابطے ہوں گے آپ کا کاروبار اتنا ہی اچھا چلے گا۔ لہذا آپ بہت کم چارج کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ منافع دیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مڈل مین کے لیے ضروری ہے کہ وہ قابل اعتماد ہو۔ پہلے سود خوری کا رواج کم تھا اور مڈل مین کے لیے بہت زیادہ پیسہ کمانا مشکل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ نظام مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں زیادہ پھیل گیا۔ مغربی ممالک میں بینکنگ لین دین تو ہے لیکن وہاں سخت نگرانی اور کنٹرول ہے۔‘

مورینو کہتے ہیں کہ ’کچھ جگہوں پر لوگ بینکوں کے مقابلے میں ان مڈل مین پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ یہ مڈل مین کا خاندانی اور آبائی کاروبار ہوتا ہے جسے وہ بینکوں سے زیادہ قابل اعتماد مانتے ہیں۔‘

جرمنی کے میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں جنوبی ایشیا کے قانونی تاریخ کے شعبے کی کوآرڈینیٹر مرینا مارٹن کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں حوالہ اور اسی طرح کے ہنڈی کاروبار بہت مشہور تھے اور آج اس کی تفہیم بدل گئی ہے کیونکہ جدید بینکنگ سے اس کے کام کرنے کا طریقہ مختلف ہے۔‘

کرنسی

حوالہ کا کاروبار کتنا بڑا ہے؟

روایتی حوالہ نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیسے کا لین دین کون کر رہا ہے یہ بات حکومت یا بین الاقوامی اداروں کی گرفت سے باہر رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لین دین کا بہت کم یا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ہے جو کہ ان پیسوں کی ہیرا پھیری کا پتہ لگانے میں رکاوٹ ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ نیو یارک میں 9/11 کے حملوں میں دہشت گردوں کو بھی ان غیر روایتی طریقوں سے مالی اعانت فراہم کی گئی تھی۔ نئے اور سخت قوانین کے نفاذ کے ساتھ اب نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں چند ہزار ڈالر کے بین الاقوامی لین دین اور بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

مارٹن کا کہنا ہے کہ ’نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ حوالہ کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ممکنہ ذرائع کے طور پر دیکھتا ہے۔‘

مرینا مارٹن کہتی ہیں: ’حوالہ (اور دیگر غیر روایتی طریقے) کئی برسوں سے منی لانڈرنگ اور سیاسی بدعنوانی سے لے کر انسانی اعضا کی اسمگلنگ تک کئی مجرمانہ سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔‘

سنہ 2018 میں آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ دبئی میں بڑی تعداد میں غیر ملکی کارکنان اپنے خاندانوں کو انڈیا، فلپائن جیسے ممالک میں حوالہ جیسے غیر روایتی نظام کا استعمال کرتے ہوئے رقم بھیج رہے ہیں۔ اس میں بتایا گیا کہ یہ رقم 240 کروڑ سے زیادہ ہے۔

ٹیکنالوجی

فروری سنہ 2016 میں امریکی ڈرگ انفورسمنٹ آفس (ڈی ای اے) نے کولمبیا اور حزب اللہ تنظیم کے درمیان یورپ کے ذریعے منی لانڈرنگ اور منشیات کی سمگلنگ کے روابط کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے ذریعے لاکھوں یورو رقم اور کثیر مالیت کی منشیات کی تجارت ہوئی ہے۔

ڈی ای اے کی دستاویزات کے مطابق لاکھوں ڈالر مالیت کی منشیات لبنان کے راستے مشرق وسطیٰ پہنچائی گئیں اور بدلے میں حوالہ کے ذریعے یورو میں رقم کولمبیا بھیجی گئی۔

مشرقی افریقہ بالخصوص صومالیہ میں اسلحہ سمگلر لاکھوں ڈالر ادھر ادھر منتقل کرنے کے لیے حوالہ کا استعمال کرتے ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے ایسے تارکین وطن مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو حوالے کے ذریعے اپنے خاندانوں کی مدد کے لیے رقم بھیجتے ہیں۔

کووڈ 19 وبا کے اثرات کے باوجود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بھیجی جانے والی رقم 2020 میں 400 ارب روپے کے لگ بھگ تھیں۔ یہ رقم سنہ 2019 کے مقابلے میں صرف 1.6 فیصد کم ہے۔ سنہ 2019 میں یہ تعداد 406.31 کھرب روپے تھی۔

بہرحال عالمی بینک نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’ترسیلات زر کا اصل سائز، جو روایتی اور غیر روایتی دونوں طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے، سرکاری اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہے۔‘

معیشت میں ممکنہ عالمی بحالی کے ساتھ یہ توقع کی جارہی ہے کہ سنہ 2021 اور 2022 میں روایتی اور غیر روایتی طریقوں کے ذریعے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو حوالہ کے ذریعے بھیجی جانے والی رقم کی مقدار اور بھی بڑھ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments