پانچ دوست، پانچ دن اور نیلم ویلی


مدتوں پہلے گزری کسی تاریک شب کے پچھلے پہر میں بند آنکھوں نے وادی نیلم کو ایکسپلور کرنے کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر یکم ستمبر 2021 کو حقیقت میں بدلنے والی تھی۔

پچھلی شب ہی رضوان بھائی، اسلام آباد میرے اور عبدالمعید بھائی کے آستانے پر تشریف لا چکے تھے۔ اگلی سویر یعنی مہم جوئی کی پہلی صبح ہم تینوں، ایک کمزور لیکن تندرست مہران لے کر مظفرآباد روانہ ہو گے وہاں سے حمزہ بھائی کو پک کر کہ اٹھمقام، کیرن، باڈر ساتھ حیرہ کرنے والی بلندیاں، ڈھلوانوں پر سرسراتی گھاس، ستھری فضاؤں اور بڑھتے تجسس کے ساتھ عشاء ٹائم دواریاں میں پہنچ چکے تھے جہاں ہوٹل میں نائٹ سٹے کرنا تھا۔

ارسلان بھائی جو ذاتی مصروفیت کی وجہ سے تاخیر سے نکلے تھے۔ جس کا خمیازہ وہ رات بھر سفر میں بھگتتے رہے لیکن صبح سویرے ہی ہمارے پاس پہنچ چکے تھے۔

ناشتہ تناول کرنے کے بعد ملتان سے آئے دوسرے سیاحوں سے مل کر ایک جیپ بک کروائی گئی جو رتی گلی بیس کیمپ تک 16 کلومیٹر کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کرتے ہوئے 8000 میں لے جائے۔

ٹریک انتہائی خوفناک لیکن سحر انگیز تھا، آسمان سے باتیں کرتے درختوں، دودھ سفید بہتے جھرنوں، بلند ہوتی ہوئی چٹانوں کے نظارے کرتے، ہچکولے کھاتے بیس کیمپ پہنچ گئے۔

بیس کیمپ سے رتی گلی تک کا فاصلہ دو کلومیٹر پیدل ٹریک کا تھا۔ چائے وغیرہ پی کر فوراً ہی ہائکنگ کیلے کمر بستہ ہو گئے۔ پہلے پہل تو آسان معلوم ہو رہا تھا لیکن چڑھتے ساتھ اندازہ ہوا کہ یہ تو نوے کے زاویے کی طرح عمودی ہے خیر وہاں گھوڑے بھی اس سفر کو آسان بنانے کیلے میسر تھے جنھوں نے اپنی آسانی کیلے زگ زیگ راستے بنا لیے تھے۔

آکسیجن سے خالی ہوا میں منہ کھولے ہانپتے، منزلیں مارتے، مشقتیں سہتے اسی زگ زیگ وے کا سہارا لیتے ہوئے 12130فٹ کی بلندی کو سر کر گئے تھے، جیسے ہی ٹاپ پر پہنچے تو ہمارے قدموں میں سبز گھاس سے آرائش شدہ ایک نرم اور جادوئی قالین بچھ گیا۔ آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا منظر بھی کبھی دیکھنے کو ملے گا جو ان کی روشنائی میں اضافہ کر دے گا۔ وہ جھیل ایک کامل حیرت بھری تصویر تھی۔ نیلگوں آسمان تلے، قوس نما چٹانوں سے ڈھکی بالکل چودھویں کے چاند کی مانند تھی۔

تاحد نگاہ سرخ ہی سرخ پھول کھلے تھے جو اس کے نام ”رتی گلی“ کی دلیل کیلے کافی تھے۔ جھیل کی نیلاہٹ کو محسوس کرتے پھولوں کو مسلتے ہم مست سانپ کی طرح جھومتے سرکتے جھیل کے پانیوں تک گئے ساری تھکاوٹ دور ہو چکی تھی۔ کیونکہ جھیل سیف الملوک کی طرح اسے ابھی تک طوائف نہ بنایا گیا تھا، بلکہ ایک بے داغ کنواری دوشیزہ کی مانند بالکل معصوم تھی۔ کسی طرح کا کوڑا نظر نہ آ رہا تھا۔

بے شمار لوگ اس پہاڑوں کی ملکہ کا درشن کرنے آئے تھے۔ کوئی اس کی نیلاہٹ کو محسوس کر رہا تھا، کوئی اسے خاموشی سے داستان سن سنا رہا تھا اور کوئی تصویریں اتارنے میں مگن تھا۔ جھیل کے پانی کئی دو ہی وجہ ہیں ایک تو قوس نما چٹانوں سے چمٹی برف جو پگھل پگھل کر اسے سیراب کر رہی تھی اور دوسرا بڑا ذریعہ اس کی تہہ سے بڑبڑاتے پھوٹتے چشمے تھے جو اس کے لیول کو برقرار رکھنے کے ساتھ ایک بڑے دودھیا نالے کی شکل میں دواریاں کی طرف رواں دواں تھے۔ رب سائیں کی قدرت پر رشک آیا اور پیار کرنے کو جی چاہا اور لوو یوو زبان پر آن پڑا۔ رب سائیں ہی ایسی حیرت انگیز جگہوں کا خالق ہو سکتا ہے۔

چونکہ ہم دوپہر تک وہاں پہنچ چکے تھے اس لیے شام تک ہمارے پاس ٹائم تھا کہ اس حسن کی دیوی سے جتنی باتیں کرنی کر لیں اس کے سکون کو محسوس کر لیں۔ سو ہم نے کیا۔ مروجہ فیشن کہ اس دیوی کے ساتھ تصویریں بھی ہر نت نئے اینگل سے اتروائی تاکہ کوئی ایک تو اس کے حسن کے مدمقابل آ سکے لیکن یہ ناممکن تھا۔

میں جھیل کے عشق میں ایسا مبتلا ہوا تھا کہ اب بھی میرے ذہن کی سکرین پر وہ متحرک ویو سامنے آ جاتا ہے جو راحت بخش ہوتا ہے۔

سورج ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ہم نے بھی اسے الوداع کہنا چاہا دل تو کبھی جانے کو تیار نہ تھا لیکن شیڈول کے مارے ہمیں اداسی کے ساتھ عمودی ڈھلوان کو ڈھلنا پڑا۔ قلابازیوں کے ڈر سے پھونک پھونک کر قدم رکھتے لڑھکتے اتر رہے تھے۔ تاریکی پھیلنے سے پہلے قبل ہمیں بیس کیمپ تک پہنچنا تھا تاکہ کوئی مناسب جگہ دیکھ کر اپنا خیمہ نصب کر سکیں، اور پہنچ بھی گئے۔

اللہ نے ہم پر بہت رحم کر دیا تھا، جس خیمے میں ہم سامان رکھ آئے تھے واپسی پر جب سامان سمیٹنے لگے تو اس خیمے کے مالک نے مہمان نوازی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یہاں اسی کے ایک خیمے میں رہ لیں کسی طرح کے چارجز نہ ہوں گے ساتھ میں خدشہ ظاہر کیا یہاں سرد ہوائیں رات بھر خیموں کا حال پوچھنے آتی رہتی ہیں اور پارہ منفی میں داخل ہوتا ہے۔

گو کہ ہمارے پاس امپورٹڈ سلیپنگ بیگ بھی تھے۔ جو کسی گورے نے پتا نہیں کوہ نوردی کرتے ہوئے کہاں کہاں یوز کیے ہوں، کتنے گلیشیرز کی ٹھنڈک کو جھیل آئے ہوں گئے۔ لیکن یہ اس سردی کیلے اکیلے کافی نہ تھے۔ اس طرح ہم اسی کیمپ میں رکنے کے لیے سامان اٹھائے چل دیے۔

ریسٹ کے بعد چکن جو ہم دواریاں بازار سے لے گئے تھے ہمراہ بقیہ سامان کہ کیمپ کے اندر ہی، دو کلو کی چھوٹے سائز کی پیٹرول پر چلتی سلنڈری پر پکانے میں مگن ہو گئے۔

طعام کے بعد مٹر گشت کیلے باہر نکلے جہاں سیریز اور پیرالل سرکٹ کی مانند دو سو پچاس خیمے ایستادہ تھے۔ ہولے ہولے چلتے ہوئے ایک خیمے کی طرگ بڑھے جہاں کھلی فضا میں آگ کا الاؤ بلند ہو رہا تھا تین چار بندے آگ سینک رہے تھے۔ ہمارے پہنچنے پر نہایت ہی خوش دلی سے کرسیاں دی گئیں اور ہم ان پر فوراً براجمان ہو گئے۔ آگ سینکتے ہوئے نیلم کے ان جوانوں سے خوب گپ شپ ہوئی، ہنسی مذاق کے گلچھرے اڑے، تھکاوٹ بھی تھی سو ہم نے خیمہ کو لوٹ جانا مناسب سمجھا تاکہ آرام کر سکیں کیونکہ صبح واپس سورج کی پہلی کرن پھوٹنے ساتھ ہی بکڈ جیپ پر پھر ہچکولے کھانے کیلے ریڈی ہونا تھا۔

کسی گورے کے سلیپنگ میں رات بھر سہانی نیند کے مزے لینے کے بعد اب اگلی سویر کی آمد تھی۔ ٹھنڈی میٹھی سرد ہواؤں سے چھاتی لگانے خیمہ سے باہر آ گئے اور ہاں کوچ کرنے سے پہلے تو ہم نے بچہ سلنڈری پر چائے بھی تو بنائی تھی جس کے گرم سپ سرد مہری میں بہت سکون بخش تھے۔ جیپ پر تین گھنٹے کی مسافت میں ایسے جھولے جھولتے دواریاں پہنچے کہ بس نا قابل بیان تھے۔ بہرحال اچھا لگ رہا تھا۔

آتے ساتھ ہی کیل کی طرف اپنی پیاری فردوس ”مہران“ کے ساتھ رواں ہوں گے۔ پورا روڈ گندا تھا، دھول ہی دھول تھی۔ بلڈوزر اور ایکسویٹرز چٹانوں سے ٹکریں مار رہی تھی تبھی راستہ بارہا بلاک بھی ہوتا رہا۔ شاید اقتدار اعلی کو کبھی پہلے شرم تک نہ آئی کہ اس خوبصورت وادی (جس میں سالانہ ہزار نہیں بلکہ کئی لاکھوں میں سیاح سیر کو آتے ہیں ) کی مین شاہراہ کو بنایا کیوں نہیں۔

اس سب کے باوجود سفر برا نہ تھا، دریا نیلم روڈ کے عین ساتھ ہموارگی پر سست سانپ کی طرح رینگتا ہوا جا رہا تھا۔ بلندیوں اور ڈھلوانوں کو سر کرتے کیل پہنچ گئے۔ کیل ہی میں گاڑی دو دن کے لئے پارک کی اور اڑنگ کیل جس کے لیے ذہن نے پتا نہیں کیسے کیسے سکیچ بنا رکھے تھے کی طرف جانے والی کیبل کار کی جانب گامزن ہوئے۔ دو چار منٹ کی مسافت کے بعد لفٹ لینے کیلے اندراج اور پیمنٹ کی اور تھوڑی دیر میں ہم اس کار کے ہمراہ خلاء میں داخل ہو چکے تھے تب بارش بھی برس رہی تھی، قوس قضا بھی دھلی ہوئی سامنے آ چکی تھی، سحر انگیز فضاؤں اور سینریز سے محظوظ ہوتے لفٹ سے اتر چکے تھے۔

اب آگے اڑنگ کیل تک پہنچنے کیلے ہائکنگ پھر سے کرنا پڑے گی لیکن تھکاوٹ کے باوجود لڑکے چست تھے اور اس وادی کے تجسس میں جلدی سے چڑھنے لگے تھے، کمر کے ساتھ ہیوی بیگز بھی چمٹے تھے لیکن حوصلے ہارے بغیر سب نے اس عمود کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔

عین مغرب اڑنگ کیل کی وادی میں جیسے ہی قدم جمائے تو لگا کہ ایک الگ کائنات میں داخل ہو گئے ہیں۔ میں اس جنت کا نقشہ کیسے کھینچوں۔ وسیع و عریض سر سبز و شاداب میدان، جو جنت گم گشتہ تھی، ایک پیراڈائز لاسٹ تھی۔ سامنے بلند و بالا پہاڑ تھے۔ بے شمار قد آدم درخت تھے۔ جگہ جگہ خیمے نصب تھے۔ خالص لکڑی سے تین چار منزلہ گھر کسی پرانی صدی کی یاد دلا رہے تھے بس اتنا بے شمار قدرتی سحر تھا کہ ہم گرفتار ہو گئے تھے۔

اس خوبصورت وادی میں رات رکنے کیلے ایک ”ٹائٹینک گیسٹ ہاؤس“ میں دو ہزار میں روم رینٹ پر لیا۔ روم تھا بس لکڑی ہی لکڑی بلکہ پورا ٹائٹینک یہاں لوہے کا نہیں بلکہ خاصی مہارت سے لکڑی کا بنایا گیا تھا جو کسی سمندری سیلاب میں ڈوبنے کے بجائے تیر جاتا نہ کہ ہزاروں بندوں کو ہمیشہ کی نیند سلاتا۔

فریش ہو کر کھانا تناول فرمایا جو کہ ہم کیل سے ہی پیک کروا لائے تھے چونکہ اس الگ دنیا کے ریٹ بھی خاصے الگ تھے۔ حسب عادت کھانے کے بعد واک کیلے عارضی آشیانے سے نکلے۔ آسمان دمکتے ستاروں سے لبریز تھا اور چاند تو جیسے دولہا تھا۔ ستھری فضاؤں میں گھومتے ہوئے ہمارے کومل بدن پر کونپلیں سی اٹھنے لگی تھیں۔

آس پاس گھومتے رہے چونکہ منظر تو پر لطف تھا، ایک خوبرو جوان سیاح گٹار بجانے کے ساتھ کچھ گنگنا بھی رہا تھا اٹریکشن ہوئی اور ہم سننے پاس کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ جب محظوظ ہو چکے تو روم سونے واپس آ گئے۔

یہ مہم جوئی کی تیسری سویر جو نہایت ہی خوبصورت تھی جسے دیکھنے ہم بستر سے اٹھ کر ڈائریکٹ آ گئے تھے۔ پہاڑوں کے بیچ ہوا کی تازگی کی نویکلی بستی تھی جس میں صبح کے مدھم اجالے میں ہمارے سمیت کئی جین ٹائٹ لڑکیاں، شوخ سجیلے نوجوان، شادی شدہ، کنوارے، پر جوش جوڑے اور کراچی کے سیٹھ بے فکری سے وہاں چہل قدمیاں کر رہے تھے شاید انھی کو دیکھ کر جانی حمزہ نے فیوچر میں اپنی ہونے والی کے ساتھ یہاں ایک لمبا ٹرپ کرنے کی قسم کھا لی تھی باقی سب نے بھی اچھا تاثر دیا تھا کیونکہ ان کے دلوں کی بھی ترجمانی ہو چکی تھی کو نکہ یہ اڑنگ کیل کپل سیف پوائنٹ تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں سویر کی دھندلی سفیدی کی گھلاوٹ میں سے سورج کی کرنیں ٹھٹھرتی ہوئی نمودار ہوئی اور سارا سکوت ٹوٹ گیا۔ چار چفیڑے پھیلے پہاڑ تھے جو اب زرد ہو رہے تھے اور جنھوں نے برف کی سفید دستاریں پہن رکھی تھی جو لشکنا شروع ہو گئی تھی۔ یہ سب بہت فرحت بخش تھا۔

ناشتہ وغیرہ کر کہ اسی وادی، گاؤں یا جنت کو ایکسپلور کرنے کیمرہ اٹھائے سب وائیٹ شرٹ پہنے نکل پڑے تھے۔ دن بھر قدآور درختوں کے جنگل میں اور وادی کے سبزہ زار پر گھومتے جھومتے رہے۔

دوپہر کے وقت واپس ہوئے اور سب کچھ سمیٹ کر کیبل کار کی جانب جانے لگے تاکہ واپس کیل جایا جا سکے۔ واپسی پر عمودی اترائی تھی کچھ جوان تو حاملہ خواتین کی طرح پھونک پھونک کر قدم دھر رہے تھے کہ کہیں پھسل کر لڑھک نہ جائیں۔ لیکن ہم تھے کہ تیزی سے بے مہار اونٹ کی طرح پھسلتے سنبھلتے کیبل کار تک پانچ منٹ میں پہنچ گے۔

لفٹ سے اتر کر کیل سے فوراً ایک انیسویں صدی کی جیپ 7000 میں بک کروائی جو ہمیں تاوبٹ (نیلم کے آخری پوائنٹ ) تک لے جائے گی۔ یہاں تو جلدی دکھائی لیکن رضوان صاحب نے آدھا گھنٹہ صرف اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے میں لگا دیا کیونکہ وہاں لوگوں کی ایک لمبی قطار تھی۔

ٹراؤٹ مچھلی جا کر تاؤ بٹ کھانے کے چکر میں لنچ نہ کیا گیا بس چند بسکٹ وغیرہ لے لیے گئے جو انرجی دلاتے رہیں گے۔

ساڑھے تین گھنٹے کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ روڈ انتہائی خراب جگہ جگہ پتھر ایسے نکلے تھے جیسے اونٹ کا کوہان ہوتا ہے۔

لیکن تھا منظر بڑا ہی پرکشش۔ دریائے نیلم روڈ کے ساتھ بہتا تھا جو کہ پرفسوں تھا، لمبے دیودار کے درخت تھے اور چلتے ہوئے بیچ میں ایسے گاؤں نمودار ہوتے جو بناوٹ میں ہوتے چھوٹے لیکن ایسے سحر انگیز کے دل موہ لیتے۔ لکڑی کے گھر جن کے واش روم حتٰی کہ ہر چیز لکڑی کی تھی ان کی چھتیں موسم کی زحمتیں اور برف کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے کالی ہو چکی تھیں لیکن وہ اب اور زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ مجھے وہاں کے رہائشیوں پر رشک آ رہا تھا، حسد ہو رہی تھی کہ کتنے خوش قسمت ہیں لیکن کیا وہ سچ مچ خوش بخت تھے؟

بہرحال مجھے وہ گاؤں کبھی نہ بھولیں گے میں وہاں رکنا چاہتا تھا بسیرا کرنا چاہتا تھا لیکن شیڈول۔

جیپ کے ہچکولے کھاتے قدرت کے قدرتی سحر کے مزے لیتے بالآخر تاؤبٹ پہنچ گے۔ جیپ ڈرائیور نے کوئی ساڑھے تین بجے وہاں ایک دریا کے کنارے اتار دیا تھا اور کہا کہ یہاں سے آگے گھومنے کی جگہ ہے جائیں۔

ہیجان خیز چہرے اٹھائے ہم پانچ منٹ کی مسافت پر ایک فش فارم پر پہنچ گئے تھے جہاں سے آگے کچھ خاص نہ تھا مقامی بندے سے پوچھنے پر معلوم پڑا کہ بس یہ نیلم کا آخری پوائنٹ ہے ہم ہکے بکے ساکت ہو گئے اور سوالیہ نظروں سے کہ تو تاؤبٹ دیکھنے والا کیا ہے؟ جس کے لیے ہم تین گھنٹے رگڑا کھا کر آئے۔ ہم نے عالم تصور میں اس کے ایسے روپ تو تصور نہیں کیے تھے وہ تو بہت خیرہ کرنے والے پر لطف اور خوش کن تھے۔

پھر ایک بندے نے بتایا کہ اصل تاؤ بٹ تو آگے ہے جسے ایکسپلور کرنے کیلے پانچ گھنٹے نہیں پانچ دن چاہیے ہیں جہاں پانچ جھیلیں ہیں لیکن بہت دور صرف ہائکنگ سے ہی جایا جاسکتا ہے۔ اب تو ہم مجبور تھے پوچھا کہ ہم ان دو گھنٹوں میں کہاں اور زیادہ سے زیادہ گھوم سکتے ہیں بتایا گیا بس یہیں اوپر نیچے گھوم جاؤ۔

مطلب ہمارے ساتھ ایک بڑا پرینک ہو چکا تھا۔ نیچے دریا پر اترے چائے کے لئے بچہ سلنڈری سیٹ کی اور چائے چڑھا دی دریا کی موجوں کو پاس سے محسوس کیا، تصویروں کا سیشن چلا، چائے پی۔ یہ لمحہ یقیناً سکون بخش تھا غصے میں کمی آ گئی تھی۔

واپس اس بازار آئے تھوڑا اوپر سبزہ زار دکھائی دیا، گئے اور وقت کو اچھا بنانے کی سعی کی جو صحیح ہو گئی۔

جب سورج اپنی زرد چادر بچھائے رو پوش ہو رہا تھا تب ہی ہم بھی نیچے کو اتر رہے تھے آ کر جیپ میں سوار ہو گئے تاکہ واپس کیل پہنچ سکیں۔ ٹراوٹ مچھلی تو جیسے پرینک کی نظر ہو گئی تھی۔

واپسی پر ابھی چالیس منٹ کا راستہ ہی طے کیا تھا گاڑی کو روکنا پڑ گیا تھا۔ کیونکہ وہاں ایک سانحہ ہو گیا تھا۔ ایک نوجوان بجلی کے کھمبے پر تار لگاتے ہوئے کرنٹ لگنے سے اللہ کو پیارا ہو گیا تھا اور لوگ میت کو روڈ میں ٹکائے ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے، دونوں جانب سے سیاح اور مسافر بری طرح متاثر ہو رہے تھے گھنٹہ بھر انتظار کے باوجود جب روڈ کے کھلنے کا کوئی امکان نظر نہ آیا تو تعزیت کر کے ہم بچہ سلنڈری اور ببلو بھائی کی مہربانیاں جو نوڈلز لے آئے تھے کو پکا کر کھانے نکل پڑے چونکہ بھوک کی شدت اتنی بڑھ گئی تھی کہ ناقابل برداشت!

ایک نو تعمیر سکول میں جا کر یہ واردات ڈالی اور بھوک مٹا کر واپس آ گئے۔ آتے ہی جیپوں کا ایکسچینج ہو چکا تھا، کیل سے آئے سیاح ہماری جیپ میں بیٹھ کر تاوبٹ اور ہم ان کی میں سوار ہو کر کیل۔

اس کھٹارا جیپ میں مجبوراً سوار ہو گئے جس کے ڈرائیور نے چرس کا کش لگا رکھا تھا۔ آدھا راستہ طے کرنے کے بعد جیپ کے کلچ میں مکینیکل فالٹ آ گیا جس کی وجہ سے اس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اب یوں سمجھ لیں کہ جیپ بغیر کلچ کے چل رہی کلچ کے بغیر گیئر لگ رہے اور بریک بھی۔

خانہ بدوشوں کے قافلے جیپوں کے راستے میں حائل ہوتے تو جیپ کا دل منہ کو آ جاتا اسی وجہ سے متعدد بار بند ہوئی کبھی دھکے سے اسٹارٹ ہوتی تو کبھی ڈرائیور کوئی اپنی مہارت دکھاتا۔ جب تک گاڑی فالٹ فری تھی حمزہ اور عبدالمعید بھائی نے فحش فلمی گانے خوب الاپے تھے لیکن اب بالکل خاموشی چھا گئی تھی، خوف سا تھا سب کو۔

اللہ اللہ کر کے کیل پہنچے رات کا ایک بج رہا تھا تھکے ماندے سٹے کسی کمرے میں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ تو ملا نہیں شاید زیادہ دیر کر لی تھی۔

اللہ کا نام لے کر ایک گیسٹ ہاؤس کے ساتھ روڈ کے عین اوپر اپنا خیمہ نصب کر دیا اور فوراً سے اپنے سلیپنگ بیگ کھولے اور بے سدھ ہو گے۔

صبح جب آنکھ کھلی تو دھوپ ہی دھوپ تھی یہ ہمارے ٹور کا پانچواں دن شروع ہو چکا تھا، آٹھ بج چکے تھے، ناشتہ وغیرہ کر کہ گاڑی واپس نکالی اور واپسی کے لئے نکل گئے۔ چلتے رکتے ہم شاردہ پہنچ گئے وہاں ایک شاردہ یونیورسٹی تھی جس کا کافی نام سنا تھا، جا کر جب اس کی ہسٹری پڑھی تو حیرت ہوئی یہ ایک پانچ ہزار سال پرانی یونیورسٹی تھی۔ جس کو ایسی مہارت سے تعمیر کیا گیا تھا کہ اب کے انجنیئرز کو بھی اپنی بناوٹ پر سوچنے پر مجبور کر دے۔ یونیورسٹی کے وزٹ کے بعد ہم واپس نکل گئے اور لگاتار چلتے رہے آخر کار عین مغرب مظفرآباد پہنچے، مظفر آبادی کلچوں کے ساتھ حسین یادوں کو لیے دکھوں اور خوشیوں سے بھری زندگی کی طرف لوٹ آئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments