پنڈورا پیپرز: وفاقی کابینہ کے ارکان اور سابق فوجی افسران کے پنڈورا پیپرز میں نام سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم پاکستان کا تحقیقات کا اعلان


پنڈورا پیپر
پنڈورا پیپرز میں پاکستانی سیاستدانوں، سابق فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ سمیت درجنوں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز کی معلومات سامنے آنے پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان افراد کے خلاف تحقیقت کی جائیں گی۔

پنڈورا پیپرز کا خیر مقدم کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تحقیقات کے نتیجے میں اگر کچھ غلط ثابت ہوتا ہے تو ان افراد کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔

ٹوئٹر پر اپنے سلسلہ وار پیغام میں انھوں نے لکھا: ‘ہم ٹیکس چوری اور بدعنوانی سےجمع کرکے منی لانڈرنگ کےسہارے بیرونِ ملک ٹھکانے لگائی جانےوالی اشرافیہ کی ناجائز دولت بے نقاب کرنےوالے پنڈورا پیپرز کا خیرمقدم کرتے۔۔۔۔میری حکومت اپنے ان تمام شہریوں کی پڑتال کرے گی جن کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں اور اگر کچھ غلط ثابت ہوا تو ہم مناسب کارروائی عمل میں لائیں گے۔’

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1444709593561579523

یاد رہے کہ اتوار کی شام سامنے آنے والے پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی دستاویزات میں متعدد ایسی آف شور کمپنیوں اور کئی ملین ڈالر مالیت کے ٹرسٹ کے بارے میں معلوم ہوا ہے جو مبینہ طور پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کی ملکیت ہیں۔

صحافیوں کی تحقیقاتی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) اور ان کے ساتھی میڈیا اداروں کی طرف سے کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے ایک اہم اتحادی سمیت کابینہ کے تین ارکان اور ان کے اہل خانہ، پاکستان کی فضائیہ کے سابق سربراہ کے اہل خانہ سمیت پاکستانی بری فوج کے اہم عہدوں سے ریٹائر ہونے والے افراد اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں۔

پنڈورا پیپرز دراصل چودہ آف شور کمپنیوں کی آئی سی آئی جے کو لیک ہونے والی تقریباً بارہ ملین خفیہ فائلوں پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں میڈیا کے ان کے ساتھی اداروں سے بھی شیئر کی گئیں۔

آئی سی آئی جے کی تحقیق میں ابتدائی طور پر سامنے آنے والے ناموں میں وفاقی کابینہ اور حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان کے علاوہ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اسحاق ڈار کے بیٹے کا نام بھی ہے۔


شوکت ترین

ان دستاویزات کے مطابق عمران خان کے وزیر خزانہ شوکت ترین اور ان کے اہل خانہ چار آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔

مالیاتی مشیر طارق فواد ملک جنھوں نے ان کمپنیوں سے متعلق کاغذی کارروائی کی تھی آئی سی آئی جے کو بتایا کہ یہ کمپنیاں ترین خاندان کی طرف سے ایک بنک میں سرمایہ کاری کے ارادے سے بنائی گئی تھیں جس کے سعودی کاروباری رابطے تھے۔ ‘لیکن یہ ڈیل مکمل نہیں ہوئی۔’ شوکت ترین ماضی میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے پاکستان کے مقامی نیوز چینل جیو نیوز کو ایک بیان میں کہا ہےکہ پینڈورا پیپرز میں نامزد ان کی آف شور کمپنیاں اس وقت قائم کی گئی جب طارق فواد ملک، یو اے ای کی ایک کمپنی کے لیےکام کرتے تھے، انھوں نے سرمایہ کاری کے لیے باقاعدہ اجازت لی تھی۔

شوکت ترین

شوکت ترین کا کہنا ہےکہ کمپنیوں کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں کھلا اور نہ ہی کوئی ٹرانزیکشن ہوئی، بعد میں جب ان کا ارادہ بدل گیا تو پھر کمپنیاں 2014 اور 2015 کے درمیان بند ہوگئی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ طارق بن لادن بڑے سعودی سرمایہ کار ہیں اور طارق فواد ملک یو اے ای کی طارق بن لادن کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔

اس حوالے سے براڈ شیٹ کیس کے اہم کردار طارق فواد ملک کا کہنا ہےکہ 2014 میں وہ مشرق وسطیٰ کی ایک کمپنی سے منسلک تھے جو شوکت ترین کے بینک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھی، اس سرمایہ کاری کی اجازت کے لیے ان کی کمپنی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مذاکرات کیے تھے۔

مونس الہی

آئی سی آئی جے کا دعویٰ ہے کہ انھیں پنڈورا پیپرز میں شواہد ملے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہی ایک متنازعہ کاروباری سودے سے حاصل ہونے والے رقم سے ایک خفیہ آف شور ٹرسٹ میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق مونس الہی سن 2007 میں اپنے خاندان کی پھالیہ شوگر ملز کی زمین کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے۔

الہی خاندان کے ترجمان نے آئی سی آئی جے کے میڈیا پارٹنر کو بتایا کہ ’سیاسی انتقام اور ڈیٹا کی غلط تشریح بری نیت سے دستاویزات میں پھیلائی گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کے خاندان کے اثاثے قانون کے مطابق ڈکلیئر کیے گئے ہیں۔

بی بی سی نے مونس الہی کا رد عمل جاننے کے لیے ایک سے زیادہ بار ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کے سٹاف نے کہا کہ وہ مصروف ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا پر جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق چوہدری خاندان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اثاثے ڈکلیئر کیے گئے ہیں اور انھوں نے کہا کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فیصل واوڈا

فیصل واوڈا

آئی سی آئی جے کے مطابق پنڈورا پیپرز سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی جماعت کے سینیٹر اور آبی وسائل کے سابق وزیر فیصل واوڈا نے سن 2012 میں برطانیہ کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے ایک آف شور کمپنی بنائی تھی۔

پنڈورا پیپرز کے بارے میں آئی سی آئی جے سے اپنے رد عمل میں فیصل واوڈا نے کہا کہ انھوں نے اپنے نام تمام اثاثے پاکستان ٹیکس حکام کے سامنے ڈکلیئر کیے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ عمران حان نے اپنی کابینہ کے تمام غیر منتخب ارکان کے لیے اپنے تمام اثاثے ڈکلیئر کرنا لازمی قرار دیا ہے اور یہ ہدایات پاکستان قوانین میں ارکان قومی اسمبلی کے لیے درج تقاضوں کے علاوہ ہیں۔

بی بی سی نے فیصل واوڈا سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔

خسرو بختیار

خسرو بختیار

وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی خسرو بختیار سے فوڈ سیکیورٹی کا قلمدان واپس لے کر انھیں اقتصادی امور کی وزارت دے دی گئی ہے

تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان کے ایک وزیر مخدوم خسرو بختیار کے بھائی اور بزنس پارٹنر نے ایک آف شور کمپنی کے ذریعے سنہ 2018 میں لندن کے علاقے چیلسی میں ایک ملین ڈالر کی ایک پراپرٹی اپنی ضعیف والدہ کے نام منتقل کی۔

بی بی سی نے خسرو بختیار سے ان کے رد عمل کے لیے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر بتایا کہ خسرو بختیار سے ان کی بات ہوئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بھائی کی آف شور کمپنی ہے تو وہ ڈیکلیئرڈ ہو گی۔

اس سے پہلے آئی سی آئی جے کو اپنے رد عمل میں انھوں نے کہا کہ ان کے خلاف ملکی اداروں نے جو تحقیق کی تھی وہ بے بنیاد الزامات پر مبنی تھی اور نہ ہی کسی باقاعدہ شکایت میں تبدیل ہو سکی تھی۔

وقار مسعود خان

آئی سی آئی جے کے مطابق عمران خان کے سابق مشیر برائے خزانہ اور ریوینیو وقار مسعود کا بیٹا بی وی آئی میں ایک آف شور کمپنی میں حصہ دار ہے۔ وقار مسعود نے اگست سنہ 2021 میں پالیسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

وقار مسعود خان نے آئی سی آئی جے کو اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ انھیں اپنے بیٹے کی کمپنی کے بارے میں معلومات نہیں ہیں کہ وہ کیا کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا بیٹا سادہ زندگی گزراتا ہے اور مالی طور پر خودمختار ہے۔ بی بی سی نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔

راجہ نادر پرویز

آئی سی آئی جے کے مطابق پینڈورا پیپرز میں انھوں نے دیکھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رکن ماضی میں مسلم نواز کے ساتھ وابستگی رکھنے والے میجر (ریٹائرڈ) راجہ نادر پرویز انٹرنیشنل فائنانس اینڈ اکویپمنٹ لمیٹڈ نامی کمپنی کے مالک ہیں جو کہ ایک بی وی آئی رجسٹرڈ کمپنی ہے۔

آئی سی آئی جے کے مطابق انھوں نے جو ریکارڈ دیکھے ان کے مطابق راجہ نادر پرویز نے سنہ 2003 میں کمپنی میں اپنے شیئر ایک ٹرسٹ کو منتقل کر دیے جو کئی آف شور کمپنیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

بی بی سی نے راجہ نادر پرویز سے ان کے رد عمل کے لیے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی اور ان کے فون پر بتایا گیا کہ وہ ملک سے باہر ہیں۔

علی ڈار

https://twitter.com/alimdar82/status/1444710507798224905

تحریکِ انصاف کی حکومت سے متعلق افراد کے علاوہ ان دستاویزات میں مسلم لیگ ن کے رہنما اور پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کی کمپنیوں کا بھی ذکر ہے۔

علی ڈار پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد بھی ہیں۔

اس سلسلے میں علی ڈار نے سوشل میڈیا پر آئی سی آئی جے کو لکھے گئے جوابی خط کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’کمپنیز بالکل قانونی تھیں اور قانونی مقاصد ہی کے لیے بنی تھیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ گریجویشن کے بعد سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور وہیں کاروبار کر رہے ہیں

عبدالعلیم خان

پنجاب کے سینیئر وزیر عبدالعلیم خان کا نام بھی پینڈورا پیپرز میں شامل ہے کہ انھوں نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں کمپنی قائم کی۔

عبدالعلیم خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں اور مذکورہ کمپنی 15 برس سے ان اعلان شدہ اثاثوں کا حصہ ہے جو ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو فراہم کیے گئے ہیں۔

https://twitter.com/aleemkhan_pti/status/1444710680536440832

سیاسی شخصیات کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج کے سابق اعلیٰ افسران اور ان کے اہلخانہ کے نام بھی پینڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

میجر جنرل(ریٹائرڈ) نصرت نعیم

آئی سی آئی جے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک سابق سینیئر فوجی عہدیدار میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصرت نعیم، جو ایک وقت میں آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل کاؤنٹر انٹیلجنس بھی تھے، ایک بی وی آئی کمپنی افغان آئل اینڈ گیس لمیٹڈ کے مالک تھے جو ان کی ریٹائرمنٹ کے کچھ ہی عرصے بعد سنہ 2009 میں رجسٹر ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق دیکھی گئی فائلوں سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ کمپنی کرتی کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد پولیں نے ایک موقع پر نصرت نعیم کے خلاف سترہ لاکھ ڈالر سے ایک سٹیل مل خریدنے کی کوشش سے وابستہ مبینہ فراڈ کا کیس شروع کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ یہ کیس ختم کر دیا گیا تھا۔

نصرت نعیم نے بی بی سی کو رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 2009 میں انھوں نے ایک افغان آئل اینڈ گیس کمپنی نامی آف شور کمپنی الٹرا ونٹرائزڈ ڈیزل بیچنے کے لیے قائم کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کمپنی کے ذریعے انھوں نے مزید کوئی کام نہیں کیا۔ اور اس کمپنی کو اسی برس بند کر دیا۔

انھوں نےاس حوالے سے مزید بتایا کہ یہ کمپنی انھوں نے افغانستان میں الٹر ونٹرائزڈ ڈیزل کی پہلی کھیپ بھجوانے کے بعد قائم کی تھی کیونکہ افغانستان میں موجود کمپنی نے ان سے مستقبل میں مزید کاروبار کرنے کا کہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کاروبار میں صرف چار ٹینکر افغانستان بھجوائے تھے جس سے صرف تین لاکھ روپے کمائے اور تمام اخراجات کے بعد ان کے پاس صرف 80 ہزار روپے منافع آیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ وہ دور تھا جب افعانستان میں سکیورٹی صورتحال شدید خراب تھی اور ٹینکروں کی سکیورٹی اور بروقت پہنچنے میں مشکلات تھیں جس کے باعث انھوں نے مزید اس کمپنی کے ذریعے یہ کام کرنے کا فیصلہ ترک کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی آف شور کمپنی کو رجسٹر کرنے کے بعد فعال کرنے کے لیے وکیل کے ذریعے فیس کی مد میں کچھ ادائیگی درکار ہوتی ہے تاہم اس کی کوئی ادائیگی بھی نہیں کی گئی اور اس کمپنی کے ذریعے کوئی ٹرانزیکشن نہیں کی گئی۔

ان سے جب پنڈورا پیپرز میں 1.7 ملین ڈالر کی سٹیل مل خریدنے کے الزام اور بعدازاں اس کیس کے ڈراپ ہو جانے کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلے عدالت میں ہوتے ہیں۔ انھوں نے اس پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

میجر جنرل نصرت نعیم نے آئی سی آئی جے کو اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ ‘یہ ایک مختصر اور بہت برا تجربہ تھا۔ میں افغان آئل اینڈ گیس کو 345000 لیٹر ‘الٹرا ونٹرائزذ ڈیزل’ فراہم کر کے الگ ہو گیا تھا۔ یہ بہت رسکی تھا سن 2009 میں جس میں کوالٹی پر جھگڑے تھے اور راستے میں دہشت گردی کے خطرات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی تھی۔

احد خٹک اور عمر خٹک

آئی سی آئی جے کی تفتیش کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی فضائیہ کے سابق سربراہ عباس خٹک کے بیٹوں احد خٹک اور عمر خٹک نے دستاویزات کے مطابق سن 2010 میں برٹش ورجن جزائر(بی وی آئی) میں یہ کہہ کر ایک کمپنی رجسٹر کی تھی کہ وہ اپنی ‘خاندانی کاروبار کی کمائی’ سے سٹاک، بانڈز، میوچویل فنڈ اور ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔

آئی سی آئی جے نے ان سے رد عمل کے لیے رابطہ کیا لیکن انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔

کیا آف شور کمپنیوں میں دولت رکھنا غیر قانونی ہے؟

پینڈورا پیپرز

کئی بار قانون میں کمزوریاں لوگوں کو بغیر کسی خلاف ورزی کے ٹیکس بچانے کے راستے فراہم کرتی ہیں اور وہ ایسے مقامات پر اپنا پیسہ رکھتے ہیں اور کمپنیاں بناتے ہیں جہاں ٹیکسوں پر چھوٹ ہے۔ غیر قانونی نہیں لیکن اس عمل کو غیر اخلاقی ضرور سمجھا جاتا ہے۔

برطانوی حکومت کے مطابق اس طرح ٹیکس بچانا قانون کے دائرے میں تو ہے لیکن قانون کی روح کے مطابق نہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کئی لوگوں کے پاس ایسی جگہوں پر اپنی دولت رکھنے کی جائز وجوہات بھی ہوتی ہیں جن میں غیر مستحکم سیاسی حالات اور مجرمانہ حملوں سے اپنے آپ کو بچانا۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خفیہ کمپنیوں میں پیسہ رکھنا اور اسے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا غیر قانونی دولت چھپانے کا بھی بہترین طریقہ ہے۔

حکومتوں سے ٹیکس میں چھوٹ اور دولت چھپانے کے راستے بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاناما پیپرز کے سکینڈل کے بعد اس مطالبے نے زور پکڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments