پاکستان میں آباد اویغور مسلمانوں کی زندگی: ’چین میں ہمارے رشتہ داروں نے کہا دوبارہ فون مت کرنا‘


اویغور
'پہلے میرے بھائی اور دوست احباب کاروبار اور رشتہ داروں سے ملنے وہاں جایا کرتے تھے لیکن اب وہ نہیں جا سکتے۔ نہ یہاں سے کوئی جا رہا ہے اور نہ ہی وہاں سے کوئی آ رہا ہے۔ ہمارے تین سو خاندان وہاں آباد ہیں لیکن اِس جدید دور میں بھی کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔'

یہ جس جگہ کی بات ہو رہی ہے وہ چین کا صوبہ سنکیانگ ہے جسے وہاں کے مقامی افراد ‘ترکستان’ کہلانا پسند کرتے ہیں، اور جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ سنکیانگ میں رہنے والے اویغور مسلمان ہیں۔

سنکیانگ میں ایک کروڑ سے زیادہ اویغور مسلمان آباد ہیں اور چین پر اِس نسلی اقلیت کے خلاف مظالم کا الزام لگایا جاتا ہے، تاہم چین نے اس کی ہمیشہ تردید کی ہے۔

47 سالہ محمد عمر خان پیدا تو پاکستان میں ہوئے لیکن اُن کے اجداد دو نسل پہلے کاشغر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ آج بھی اُن کے کئی عزیز اور رشتے دار سنکیانگ میں رہتے ہیں۔

پہلی نظر میں عمر خان ایک عام پاکستانی ہی لگتے ہیں لیکن وہ اپنے اویغور پس منظر پر بھی ناز کرتے ہیں۔

پاکستان میں اویغور کب آئے

سنہ 1949 میں چین نے ترکستان پر مبینہ قبضہ کیا تو محمد عمر خان کے آبا و اجداد سنہ 50 کی دہائی میں ہجرت کر کے گلگت کے راستے پاکستان آ گئے جنھیں صدر ایوب خان کے زمانے میں پاکستانی شہریت مل گئی۔

اویغور

عمر خان کی اپنی پیدائش 1973 میں راولپنڈی میں ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں ایک پاکستانی اویغور ہوں اور میرے دل میں پاکستان کے لیے بے انتہا عزت اور احترام ہے۔ جب ہمارے آبا و اجداد ہجرت کر کے یہاں آئے تو وہ لُٹے پُٹے اور دربدر تھے لیکن پاکستان نے ہمیں اپنی بانہوں میں لیا اور ہمیں شہریت دی۔’

عمر خان کا دعوی ہے کہ آج اُن میں اور کسی دوسرے پاکستانی میں کوئی فرق نہیں۔ اُنھیں بھی اُتنے ہی حقوق حاصل ہیں جتنے کسی عام پاکستانی شہری کو حاصل ہیں۔

عمر خان کے مطابق پاکستان میں آباد اویغور کمیونٹی کا آپس میں انتہائی مظبوط تعلق قائم ہے جبکہ وہ غیر اویغور پاکستانیوں کے ساتھ بھی مل جل کر رہتے ہیں۔

پاکستان میں ہزار کے قریب اویغور خاندان آباد ہیں۔ یہ لوگ پورے پاکستان میں ہیں لیکن زیادہ تر راولپنڈی اور گلگت میں رہتے ہیں۔ گلگت میں یہ کاشغری برادری کے نام سے مشہور ہیں اور زیادہ تر ہوٹلوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

‘راولپنڈی میں آباد لوگ کپڑے، برتنوں اور پتھروں کا کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ملازمت جبکہ باقی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ راولپنڈی میں قائم بڑے بڑے بازار جیسے چائینہ مارکیٹ، بیجینگ پلازہ اور اورومچی پلازہ سنکیانگ سے آئے اویغوروں نے ہی آباد کیے ہیں۔’

عمر خان بتاتے ہیں کہ پاکستانی اویغور دیگر پاکستانیوں کے ساتھ شراکت داری میں کاروبار بھی کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اُن کی ایک دوسرے کے خاندانوں میں شادیاں بھی ہوتی ہیں۔ اُن کے بہترین دوست غیر اویغور پاکستانی ہیں۔

کئی دہائیوں تک اویغور مسلمان پاکستان کے راستے حج کے لیے سعودی عرب جایا کرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں راولپنڈی میں اُن کے لیے ایک حاجی کیمپ بھی بنایا گیا تھا۔

‘کوئی رابطہ نہیں’

اویغور

محمد عمر خان بتاتے ہیں کہ سنہ 2016 تک ہر سال پندرہ سے بیس ہزار اویغور پاکستان آیا کرتے تھے۔

وہ سنکیانگ سے مال لا کر یہاں بیچتے تھے اور کاروبار کر کے واپس چلے جاتے تھے۔ لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور سنکیانگ میں رہنے والے اویغوروں سے اُن کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔

‘کئی سال پہلے میرے کزنز نے وہاں سے فون کر کے کہا کہ ہمارے اوپر بہت سختیاں ہیں اِس لیے آپ ہمیں کال نہ کیا کریں۔ میرے کئی رشتے داروں کو پندرہ، پندرہ، بیس، بیس سال قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔ ہمیں پتا چلا ہے کہ اُنھیں نماز اور قرآن پڑھنے اور روزے رکھنے پر مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔’

عمر خان کا دعوی ہے کہ بے شمار پاکستانی مردوں نے سنکیانگ میں اویغور عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں لیکن وہ بھی اپنی بیویوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں۔

‘اپنے ہم وطنوں سے ہمارے تمام رابطے منقطع تو ہیں لیکن دل کرتا ہے کہ اُن سے ملیں اور جا کر اپنا وطن دیکھیں۔ اپنے بچوں کو وہ جگہ دکھا سکیں جہاں سے ہمارے آباواجداد آئے تھے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ایک نہ ایک دن ہم وہاں ضرور جا سکیں گے۔’

اویغور شناخت

محمد عمر خان کی خواہش ہے کہ جیسے اُن کے باپ دادا نے اُنھیں اُن کی اویغور شناخت دی، وہ یہ پہچان اپنے بچوں کو بھی منتقل کر سکیں۔

اویغور

'اگر کبھی موقع ملتا ہے تو کسی تہوار یا خاندانی تقریب میں ہم اپنا روایتی اویغور لباس بھی پہن لیتے ہیں۔ اِس طرح ہمارے بچوں کو اپنا روایتی قومی لباس دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم یہ لباس ترکی سے منگواتے ہیں، یہ پاکستان میں دستیاب نہیں ہیں۔'

پاکستان میں آباد اویغور مسلمان تقریباً وہی تمام تہوار مناتے ہیں جو پاکستان میں منائے جاتے ہیں۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ اپنا قومی دن یا کلچر ڈے بھی ضرور یاد رکھتے ہیں جو ہر سال بارہ نومبر کو منایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے

بنگالی اور افغان شہریوں کی پاکستانی شناخت پر تشویش کیوں؟

اویغور مسلمانوں اور چین کے درمیان جھگڑا کیا ہے

فرض کریں آپ بنگالی ہیں!

’اویغور کھانے روایتی کھانوں سے مختلف ہیں‘

اویغور

عمر خان بتاتے ہیں کہ اویغور کھانے روایتی پاکستانی کھانوں سے کافی مختلف ہیں۔ اُن کے بچے روٹی سالن کے بجائے یہ کھانے کھانا پسند کرتے ہیں۔

‘میرے بچے نوڈلز جن کو ‘لغمن’ کہا جاتا ہے یا ڈمپلنگز جو ‘منتو’ کہلاتی ہیں زیادہ پسند کرتے ہیں۔

‘منتو’ میدے، قیمے اور پیاز سے بھاپ پر تیار کیا جاتا ہے۔ ‘منتو’ بنانے کے لیے مخصوص دیگچی بھی کاشغر سے منگوائی جاتی ہے، یہاں نہیں ملتی۔’

عمر خان کے بقول ‘لغمن’ اویغور کھانوں کا بادشاہ ہے۔ جیسے پاکستان میں بریانی شوق سے کھائی جاتی ہے بالکل اُسی طرح اویغور ‘لغمن’ کھاتے ہیں۔ اویغور گھروں میں کم از کم ایک وقت یہ ڈش ضرور بنتی ہے۔ اِن کھانوں کا ذائقہ بھی بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسا سنکیانگ میں ہے۔

کوشش ہے کہ اویغور زبان سے دور نہ ہونے دیا جائے

عمر خان سمجھتے ہیں کہ قومیت کا براہِ راست تعلق مادری زبان سے ہے۔ اُن کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان میں آباد اویغور بچوں کو اُن کی مادری زبان سے روشناس کرائیں۔

اویغور

'اویغور ایک بہت قدیم زبان ہے جو اُردو، فارسی اور تُرکی سے ملتی جلتی ہے۔ ہماری کمیونٹی نے اپنے طور پر اویغور زبان میں کئی کتابیں چھپوائی ہیں جن میں حروفِ تہجی اور بنیادی اسلامی احکامات کا ذکر ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ درسی کتابوں کے علاوہ بچے یہ کتابیں بھی پڑھیں۔'

عمر کہتے ہیں کہ اِن سب کوششوں کا واحد مقصد یہ ہے کہ پاکستانی اویغور بچوں کو اُن کی مادری زبان سے دور نہ ہونے دیا جائے۔ وہ ایک سکول بنانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں جہاں اویغور زبان میں تعلیم دی جائے گی۔

شناخت زندہ رہے

پاکستانی اویغور محمد عمر خان کی خواہش ہے کہ اُن کی آنے والی نسلیں پاکستانی روایات کے ساتھ ساتھ اویغور اقدار کو بھی اپنائیں۔

اُن کی کوشش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایک ایسا ماحول دے پائیں جس کے ذریعے وہ اویغور کلچر کے بارے میں نہ صرف جان سکیں بلکہ اُس کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنائیں۔

‘میری کوشش ہے کہ میں پاکستانی اویغوروں کی منفرد شناخت کو برقرار رکھ سکوں۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہمارے بعد آنے والی نسلیں اویغور کلچر کو بالکل فراموش کر دیں گی۔’

اویغور

سنکیانگ میں اویغور

سنہ 2017 سے چینی حکومت نے سنکیانگ میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف مہم کے تحت اویغور مسلمانوں پر مبینہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ چین پر الزام ہے کہ اُس نے نسل کشی، ریپ، نس بندی اور جبری مزدوری جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور دس لاکھ سے زائد افراد کو 'تعلیمِ نو' کے مراکز میں قید کیا ہے۔

چین اپنے صوبے سنکیانگ میں بدامنی کے لیے علیحدگی پسندوں اور اسلامی عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ چینی حکومت کا موقف ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

چین سنکیانگ میں حراستی کیمپوں کے وجود سے بھی انکار کرتا ہے لیکن یہ ضرور تسلیم کرتا ہے کہ وہاں ‘پیشہ ورانہ تربیت’ دی جاتی ہے۔

مزید جانیے

سنکیانگ میں اویغور آئمہ کی گرفتاریاں: جب داڑھی رکھنا ہی جرم ہو تو ’مذہبی آزادی‘ کیسی

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

چین: کیمپوں میں اویغوروں کو ’برین واش‘ کیسے کیا جاتا ہے؟

اویغور کون ہیں؟

اویغور

سنکیانگ چین کے انتہائی مغرب میں واقع رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اِس کی سرحدیں پاکستان، انڈیا، افغانستان اور منگولیا سمیت کئی ممالک سے ملتی ہیں۔ یہاں کی دو کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی کا تقریباً نصف اویغور افراد پر مشتمل ہے۔

اویغور قبیلے کے لوگ ترکی النسل مسلمان ہیں جو خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں۔ اویغوروں کا دعوی ہے کہ اُن کا کلچر، رسم و رواج اور رہن سہن چینیوں سے بالکل مختلف ہے۔

آج پاکستان کے علاوہ اویغور افغانستان، وسطی ایشیائی ریاستوں، ترکی، امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments