موحولیاتی تبدیلی: انڈیا کوئلے کے بغیر کیوں نہیں رہ سکتا؟


کوئلے کی صنعت
انڈیا کی 70 فیصد سے زیادہ توانائی کا انحصار کوئلے پر ہے
ایندھن کا اخراج کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک انڈیا اب بھی کوئلے پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔ مختلف ملکوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اس کا استعمال ختم کر دیں تو کیا ایسے میں تیزی سے ترقی کرنے والا اور ترقی پذیر ملک انڈیا توانائی کے اس اہم وسیلے کو چھوڑ سکتا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ انڈیا کے چیلنجز کی ایک جھلک سنہ 2006 میں میری ایک نوجوان کاروباری شخصیت شونک کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں نظر آتی ہے۔

انھوں نے مجھ سے پوچھا: ’انڈیا سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کیوں کہا جائے جبکہ مغرب کئی دہائیوں سے کرہ ارض کو آلودہ کر رہا ہے اور اس کے فوائد بھی حاصل کر رہا ہے۔

انڈیا کے شہر ممبئی سے تعلق رکھنے والی یہ کاروباری شخصیت جوتوں کی ایک فیکٹری چلاتے ہیں اور انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کی فیکٹری سے ہوا میں مضر گیسوں کا اخراج کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا ’میں ان جوتوں کو امریکہ اور برطانیہ برآمد کرتا ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مغرب نے یہ اخراج ترقی پذیر ممالک کو برآمد کر دیا۔۔۔ تو اب ہم کیوں رکیں۔‘

اس کے بعد انڈیا کی آبادی اور معیشت کی طرح بہت کچھ بدل گیا اور عالمی اخراج میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اور جیسا کہ مغرب انڈیا پر زور ڈالتا ہے کہ وہ اپنے کاربن کے اخراج کو کم کرے تو اس کا زیادہ تر فوکس کوئلے پر ہے۔ کوئلہ سب سے مضر ایندھنوں میں سے ایک ہے اور انڈیا کی 70 فیصد سے زیادہ توانائی کا انحصار کوئلے پر ہی ہے۔

مقامی کمیونٹیز کی لائف لائن

یہ طلوع آفتاب سے پہلے کا وقت ہے اور انڈیا کی مشرقی ریاست اڑیسہ کے تلچیر ضلع میں ایک کان سے نکالے گئے کوئلے کا ڈھیر ٹرک پر لاد دیا گیا ہے۔

قریب سے ہی شور کرتی ایک ٹرین گزر رہی ہے جس کے ذریعے ملک بھر میں کوئلے کی ترسیل کی جاتی ہے۔

چمکدار گلابی ساڑھیوں میں ملبوس خواتین کا ایک گروہ اپنے ہاتھوں سے کوئلہ جمع کرتا ہے اور ایک ٹوکری میں ڈال کر انھیں انتہائی مہارت سے اپنے سروں پر رکھتا ہے۔ مرد کوئلے کے بڑے بڑے بیگز کو توازن کے ساتھ اپنی سائیکلوں پر رکھتے ہیں۔

بروکنگز انسٹیٹوشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں کوئلے کی صنعت سے تقریباً 40 لاکھ افراد کا روزگار منسلک ہے۔

کوئلے کے زیادہ تر ذخائر ملک کے مشرق میں اڑیسہ، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ میں پائے جاتے ہیں۔

ان علاقوں میں کوئلہ معیشت کو مضبوط بھی کرتا ہے۔ یہ مقامی کمیونٹیز کے لیے لائف لائن ہے، جن کا شمار انڈیا کی غریب ترین کمیونٹیز میں ہوتا ہے۔

کوئلے کی صنعت

انڈیا میں کوئلے کی صنعت سے تقریباً 40 لاکھ افراد کا روزگار منسلک ہے

اڑیسہ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے افراد کی نمائندگی کرنے والی ایک یونین کے رہنما سدرشن موہنتے کہتے ہیں کہ ’انڈیا کوئلے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘

تاہم ملک کے دیگر بہت سے لوگوں کی طرح سدرشن موہنتے بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کوئلے سے توانائی کے صاف وسائل تک منتقل ہونے کے لیے مناسب طریقے سے سوچی سمجھی حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جو لوگ اس پر انحصار کرتے ہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ دہائیوں پہلے یہاں سے ایسے بہت سے خاندان بے گھر ہوئے، جنھیں کانوں کے لیے جگہ بنانے کی خاطر یہاں سے ہٹایا گیا۔

وہ کہتے ہیں ’اگر ان کانوں کو ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر مزید ایسے ہی لوگ اس سے متاثر ہوں گے۔ اگر ہم عالمی کمیونٹی کے دباؤ میں آ کر کوئلے کی پیداوار روک دیتے ہیں تو پھر ہماری روزی روٹی کیسے چلے گی۔‘

سدرشن موہنتے نے کچھ فاصلے پر موجود وادی ایشون کی دوسری طرف سبز درختوں سے ڈھکی ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم ماحولیاتی خدشات سے نمٹنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن جب کوئلے کی پیداوار کی بات آتی ہے تو کوئی بھی سمجھوتہ ممکن نہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے؟ ایک آسان گائیڈ

کوئلے کی کانوں میں مسلسل ہلاکتیں کیوں ہو رہی ہیں؟

ریت: جس کے لیے لوگ جان بھی لینے کو تیار ہیں

صاف توانائی کی مارکیٹ

گذشتہ ایک دہائی میں انڈیا میں کوئلے کا استعمال دوگنا ہو گیا ہے۔ بڑی مقدار میں کوئلے کی درآمد جاری ہے جبکہ آئندہ برسوں میں درجنوں نئی ​​کانیں کھولنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

لیکن اس کے باوجود ایک عام شہری اب بھی برطانوی یا امریکی شہری کے مقابلے میں توانائی کا استعمال بہت کم کرتا ہے۔

انڈیا صاف توانائی کی طرف بھی جا رہا ہے اور سنہ 2030 تک اپنی الیکٹرک توانائی کا 40 فیصد حصہ غیر فوسل ایندھن سے حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

دلی میں ماحولیاتی تبدیلی کے تھنک ٹینک ’کاؤنسل آن انرجی، انوائرمینٹ اینڈ واٹر‘ کے ارونبا گوش کہتے ہیں کہ ملک اس سمت میں ترقی کر رہا ہے۔

انھوں نے دلی میٹرو سسٹم کی مثال دی، جو اب اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے 60 فیصد سے زیادہ شمسی توانائی پر انحصار کرتا ہے۔

کوئلے کی صنعت

کوئلے کے زیادہ تر ذخائر انڈیا کے مشرق میں اڑیسہ، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ میں پائے جاتے ہیں

لیکن ارونبا گوش کہتے ہیں کہ انڈیا میں ایسے قابلِ تجدید منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

’یہ مفت پیسے کے بارے میں نہیں۔ صرف ایسا ہے کہ صاف توانائی کی سرمایہ کاری کے لیے ہم دنیا کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی سرمایہ کار یہاں آئیں، اپنا پیسہ لگائیں اور بہترین منافع کمائیں۔‘

’اور کوئی آپشن نہیں‘

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق آئندہ 20 برسوں میں ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی والے انڈیا کی توانائی کی ضروریات کسی بھی ملک سے زیادہ ہونے والی ہیں۔

لیکن اڑیسہ جیسی کمیونٹیز ہمیں کوئلے پر انحصار کم کرنے میں درپیش چیلنجز کی یاد بھی دلاتی ہیں۔

کوئلے کی کان کے پاس واقع ایک عارضی کچی بستی میں جمنا منڈا چولہے کے پاس بیٹھی ہیں۔

وہ ایک ایسی مزدور ہیں جنھیں زندگی گزارنے کے لیے عجیب ملازمتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ وہ انڈیا کے ان سینکڑوں مزدوروں میں شامل ہیں جنھیں بجلی تک رسائی حاصل نہیں۔ وہ کوئلے کا استعمال کر رہی ہیں جو وہ اپنے کھانے کو گرم کرنے کے لیے کان سے لائی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’اگر ہمارے پاس کوئلہ نہ ہو تو ہم کھانا نہیں بنا سکتے۔ رات کے وقت ہم اسے جلا کر گھر میں رکھتے ہیں تاکہ روشنی ہو سکے۔‘

’اگر یہ نقصان دہ ہے تو ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئلے کے استعمال کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔‘

لیکن انڈیا میں ایسے بہت سے لوگ بھی ہیں جو اس بات سے متفق نہیں بلکہ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ جب شمسی توانائی جیسے متبادل ذرائع کو وسعت دینے کی بات آتی ہے تو ملک پہلے ہی اس میں بہت ترقی کر چکا ہے۔

لیکن پھر بھی انڈیا کی قوم کا کوئلے پر اس قدر انحصار دیکھ کر لگتا ہے کہ کوئلے سے پاک مستقبل ابھی بہت دور ہے۔

جمنا کے ساتھ بات چیت نے مجھے شونک کے ساتھ گفتگو کی یاد دلا دی کہ انڈیا اور کوئلے کا تعلق کس قدر پیچیدہ ہے۔

توانائی کی بھوکی قوم میں ترقی کی خاطر اکثر قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments