آداب غلامی


کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے یوں حاکم وقت کو باپ کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اب حاکم وقت جو بھی فیصلہ صادر فرما دے، مان لیں کہ عوام کی بھلائی کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ اب کسی تمہید کے بغیر سیدھا موضوع کی جانب چلتے ہیں۔ سال 2000 ء سے ستمبر 2021 ء تک پاکستان میں دہشتگردی کے کل 29537 واقعات رونما ہوئے۔ غیر سرکاری تنظیم (ساؤتھ ایشیاء ٹیرر ازم پورٹل) کے اعداد و شمار کے مطابق ان سالوں کے دوران ہونے والے واقعات کی ترتیب کچھ یوں ہے۔

سال 2000 ء میں 150 واقعات ہوئے جبکہ دیگر سالوں کے دوران بالترتیب 311,319، 284، 323، 606، 1032، 1773، 2779، 3923، 3668، 2799، 2204,2790، 2102، 1315، 1043، 674، 489، 249، 368، 336، واقعات ہوئے۔ سال 2006 ء سے لے کر 2016 ء تک دہشتگردی کے واقعات نسبتاً زیادہ ہوئے۔ ان سالوں کے دوران 2013 ء کو بدترین سال کہا جاسکتا ہے۔ اس سال کل 3923 واقعات ہوئے اور اگر اسے روزانہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو روزانہ گیارہ دہشتگردی کے حملے کیے گئے، جن سے 2700 لوگوں کو موت کی نیند اتار دیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔

اسی سال پشاور چرچ میں اتوار کی عبادت کے دوران بموں سے حملہ کیا گیا جس میں سو سے زائد لوگ مرے او ر سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اسی طرح سال 2014 ء کے آخر میں آرمی پبلک سکول پشاور کا دل خراش واقع پیش آیا جس میں معصوم بچوں سمیت بے گناہ اساتذہ کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ گزشتہ سال 2020 ء کے دوران 319 دہشتگردی کے واقعات سامنے آئے جس کے باعث 169 لوگوں کی موت ہوئی۔ مان لیا کہ دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ہے یعنی سال 2013 ء کی نسبت دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب امریکہ نے ہمارے ہمسایہ ملک پر حملہ کیا اور 9 / 11 کے حملوں میں مرنے والوں کا بدلہ لیتے ہوئے دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔ بدلے میں ہمسایہ ملک سے دہشتگردوں نے چن چن کر ہم پر قیامت ڈھائی اور معصوم بچوں سمیت بے گناہ شہریوں، اہلکاروں اور افواج پاکستان کو نشانہ بنایا۔ اسی دوران تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے جنم لیا اور ملک کے اندر رہتے ہوئے کارروائیاں کیں۔ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق دہشتگردی کے واقعات کے دوران 23372 سویلین اور 8832 پاکستانی سیکیورٹی پرسنل کی جانوں کی قربانی دی، اس کے علاوہ زخمی ہونے والوں کے نقصان کا اندازہ خود لگا لیں اور اربوں کا مالی نقصان الگ سے ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے انہی دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کیے اور ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے واپس اپنے وطن چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں طالبان نے کابل پر کنٹرول سنبھال لیا۔ یہ بحث الگ ہے کہ طالبان نے گزشتہ سالوں کے دوران سبق سیکھا ہے یا سیکھیں گے یا نہیں۔ لیکن ہمارے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو کے دوران فرمایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کا معافی دے کر انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔

ذرا غور کریں نائن الیون سے پیشتر جب طالبان افغانستان پر حکمران تھے تو ان کا طرز حکمرانی کیا تھا اور اب جب وہ دوبارہ کابل پر قابض ہوئے ہیں تو انہوں نے کیا طریقہ کار لاگو کر رہے ہیں۔ جناب والا، یہی سوچ ٹی ٹی پی کی ہے اور وہ بھی پاکستان میں اسی سوچ کے تحت دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طالبان ایک سوچ یا نظریے کا نام ہے چاہے وہ افغانستان میں ہویا پاکستان میں ہی کیوں نہ ہو۔ اب ذرا موازنہ کریں وزیراعظم کو طالبان خان کا خطاب کیوں ملا تھا۔

اگر طالبان افغانستان میں اسلامی طرز حکومت نافذ کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران دھیرے دھیرے اسی سوچ کو عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے جس پر ہلکی پھلکی آوازیں ضرور سننے کو ملتی ہیں مگر سخت ردعمل کہیں سے نظر نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ جمہوری طرز حکومت کی بجائے حکمرانوں کا آمرانہ رویہ سامنے آ رہا ہے۔ وہ ہر بات کو عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا پر کنٹرول سے لے کر یکساں نظام تعلیم، خواتین پر لباس کی پابندی جیسے احکامات صادر فرمانا، کس بات کی جانب اشارے ہیں۔

طالبان خان کی حکومت کے تین سال پورے ہونے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ڈالر اور تیل کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ستم یہ ہے کہ کہیں سے کوئی تگڑی آواز نہیں آ رہی ہے۔ اپوزیشن اس سلسلے میں فرضی بیانات کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا کو ویسے ہی کنٹرول کیا ہوا ہے۔ خبر دار اگر کسی نے آواز نکالی تو ۔

ایسے میں چند ایک لکھنے والوں کی آواز بس ”نقار خانے میں طوطی کی آواز“ کے مترادف ہے۔ ملک میں بسنے والی اقلیتیں تو ویسے تیسرے درجے کے شہری ہیں نہ 3 میں نہ 13 میں۔ ہمارے جیسے لکھاری لکھتے کچھ ہیں اور ”وہ“ کچھ اور سمجھ بیٹھتے ہیں اور نتیجہ، دھمکیاں، جبری اغواء جیسے واقعات۔ اب اوپر والا ہی کوئی کرم کردے تو خیر ورنہ تو کوئی امید نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیگر مذاہب کے لوگوں کی کیا اہمیت ہے؟ کسی پالیسی میں انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا اور نہ فیصلہ سازی کے کسی عمل میں شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا مذاکرات ہوتے ہیں اور کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ وقت بتائے گا اور وہ لوگ جن کے عزیز دہشتگردی کے واقعات کی بھینٹ چڑھ گئے ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ حاکم وقت جو چاہیں کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments