ڈرامہ رنگ محل کے اداکاروں سحر خان اور علی انصاری سے انٹرویو: ’مہ پارہ نے تنگ کپڑے نہیں پہنے۔۔۔ اس نے وہی کیا جو سب کرتے ہیں‘


’مجھے مہ پارہ کے کردار میں سب سے اچھی بات یہ لگی کہ وہ ڈرامے میں بالکل نہیں روئی۔۔۔ عموماً لڑکیوں کے ساتھ کچھ بھی ہوتا ہے تو وہ روتی ہیں اور کہتی ہیں کہ سب ختم ہو گیا۔ مگر مہ پارہ نے ’موو آن‘ کیا، یہ پیغام تھا کہ آپ کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے آپ نے اپنی زندگی نہیں روکنی اور آگے بڑھتے جانا ہے۔‘

جیو ٹی وی کے ڈرامہ سیریل ’رنگ محل‘ میں مہ پارہ کا مرکزی کردار ادا کرنے والی سحر خان کہتی ہیں کہ جب انھیں اس ڈرامے کا سکرپٹ ملا اور اسے انھوں نے پڑھا تو چند سین ایسے تھے جن پر وہ بے ساختہ رو پڑیں۔

’جب آپ ایک کردار کے ساتھ جذباتی لگاؤ پیدا کر لیتے ہیں تو وہ پراجیکٹ اچھا ہو جاتا ہے۔ رنگ محل کے جتنے بھی سین ہیں ان میں ایک ربط ہے، ڈرامہ دیکھتے ہوئے بالکل بھی ایسے نہیں لگتا کہ یہ سین تو بے محل ہے۔‘

رواں برس جولائی کے اختتام پر شروع ہونے والے اس ڈرامے کی 88 اقساط نشر ہو چکی ہیں اور راعد کا کردار ادا کرنے والے علی انصاری کے بقول ہر نئی قسط کی ریٹنگ پہلے آنے والی قسطوں سے بہتر ہوتی ہے۔

بی بی سی اُردو کے لیے صحافی براق شبیر نے اس ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی سحر خان اور علی انصاری سے گفتگو کی ہے۔

علی انصاری بتاتے ہیں کہ ’ڈرامے میں حاجرہ کا کردار کرنے کے لیے ایک لڑکی کو کاسٹ کیا گیا تھا جنھوں نے چند وجوہات کی بنا پر وہ کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا، پھر عروبہ مرزا آئیں جنھوں نے اس کردار کو کیا۔ کافی لوگوں کو اس پراجیکٹ کے لیے اپروچ کیا گیا تھا جنھوں نے اپنی اپنی وجوہات کی وجہ سے اس ڈرامے کو کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔ شاید اُن کے نصیب میں نہیں تھا۔۔۔ یہ اُن کا نقصان ہے۔۔۔‘

رنگ محل میں قدرے کم معروف اداکاروں کو کاسٹ کیا گیا مگر ڈرامہ انڈسٹری میں گذشتہ کئی ماہ سے یہ ڈرامہ ٹاپ چارٹس پر ہے۔

سحر خان کہتی ہیں کہ اِس ڈرامے کے بعد ان سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے کئی لوگوں نے رابطہ کیا جبکہ چند انڈین اداکاروں نے انسٹاگرام پر پیغامات بھیجے جن میں مہ پارہ کے کردار کو سراہا گیا تھا۔ ’خاص طور پر جب ایکٹرز آپ کے کام کی تعریف کرتے ہیں تو اچھا لگتا ہے اور جب کوئی چیز ناظرین کو پسند آ جائے تو پھر تو بہت ہی اچھا لگتا ہے۔‘

مہ پارہ کا ظاہری حلیہ مشرقی سے مغربی طرز کا کیوں ہو گیا؟

سوشل میڈیا پر پوچھے جانے والے اس سوال کے جواب میں سحر نے بتایا کہ مہ پارہ کا کردار شروع سے کچھ خاص مشرقی یا ڈوپٹوں والا نہیں تھا۔

’ڈرامے کی ابتدا میں بھی وہ شوخ چنچل ڈوپٹے اوڑھتی تھی اور شلوار قمیض پہنتی تھی۔۔۔ پڑھائی پر تو اس کا دھیان تھا ہی نہیں۔ مگر جب کریکٹر چینج ہوا اور مہ پارہ آفس جاتی ہے تو اُس کا باس اسے اوپر سے نیچے تک دیکھ کر پوچھتا ہے کہ میں تمھیں اس حلیے میں جاب دوں گا۔۔۔‘

’یہ بات مہ پارہ کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔ مہ پارہ نے اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کیا ۔۔۔ مگر ضروری نہیں کہ لوگ کپڑوں کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ جینز شرٹ ہے یا قمیض شلوار ہے تو کریکٹر کیسا ہو گا۔‘

’مہ پارہ کا کردار پورے ڈرامے میں بہت ولگر نہیں ہوا، اس نے تنگ کپڑے نہیں پہنے، وہ عزت دار ہے جس کی سب عزت کرتے ہیں، اگر آپ کریکٹر کو دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ مہ پارہ کوئی بہت بولڈ نہیں ہوئی کریکٹر چینج کے بعد۔۔۔ ہر جگہ اور آفس کا ایک ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور مہ پارہ نے وہی کیا۔۔۔ اور سب ایسا ہی کرتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

رمشا خان: ’سامعہ کا کردار عورتوں کے دل کی آواز ہے‘

’ٹی وی پر یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ عورت اپنا دفاع خود کر سکتی ہے‘

رقصِ بسمل کی اداکارہ سارہ خان ’ہمیشہ‘ مردوں کو برا دکھانے پر نالاں کیوں؟

سجل علی کے ساتھ موازنہ کرنا ٹھیک ہے مگر مقابلہ کرنا ٹھیک نہیں: صبور علی

سحر کہتی ہیں کہ جب ان کا کردار چینج ہوا اور ان کی ظاہری وضع قطع بدلی تو بہت سے ناظرین نے انھیں انسٹاگرام اور سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجے اور کچھ لوگوں کو نے کہا انھیں یہ سب اچھا نہیں لگا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

رنگ محل کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟

سحر خان اس کی بنیادی وجہ ڈرامے کی کہانی کو قرار دیتی ہیں۔ ’کہانی اور تمام کریکٹرز کی بہترین پرفارمنس۔۔۔ کہانی اتنی مزے کی تھی کہ میں نے سکرپٹ پڑھتے ہوئے اور پھر کردار نبھاتے ہوئے اسے بہت انجوائے کیا۔‘

علی انصاری کہتے ہیں کہ ’کانٹینٹ کسی بھی ڈرامے کی مقبولیت کی بنیادی وجہ ہوتی ہے، پوری ٹیم نے بہت محنت کی اور سیٹ پر کوئی ایسی ویسی چیز نہیں تھی، سب ایک خاندان کی طرح تھے، وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔‘

اس ڈرامے میں نیا کیا تھا؟

علی انصاری کہتے ہیں کہ رنگ محل میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کو ڈریگ کر کے سٹارٹ نہیں کیا گیا بلکہ شروع میں بتا دیا کہ یہ تمام معاملات ہیں اور پھر ناظرین نے ’اب آگے کیا ہو گا‘ کا جواب جاننا شروع کیا۔ ’ہر قسط میں کچھ نہ کچھ نیا ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران ہی ہم بات کرتے تھے کہ اس ڈرامے کو لے کر وائبز اچھی آ رہی ہیں۔

علی انصاری کہتے ہیں کہ انھیں مہ پارہ کے کردار میں دو چیزیں بہت اچھی لگیں۔ ’ایک تو ایجوکیشن۔۔۔ تمام خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے، چاہے وہ جس طریقے سے بھی ممکن ہو پائے ہو۔ اور دوسرا یہ کہ آپ اپنے دماغ میں فیصلہ کر لیں کہ مجھے یہ کرنا ہے یا یہ حاصل کرنا ہے تو اس کی جستجو میں لگ جائیں جیسا کہ مہ پارہ نے کیا۔ یہ سب خواتین کے لیے ہے کہ اگر دل یا دماغ میں کچھ ہے تو وہ کر کے دکھا دو۔‘

راعد کا کردار لوگوں کی باتوں میں کیوں آ گیا؟

علی انصاری ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ڈرامہ ہے۔۔۔ شوٹنگ کے بعد جب ڈرامہ آن ایئر ہوا تو یہ چیز دیکھ کر مجھے غصہ آیا کہ راعد یہاں وہاں سے لوگوں کی باتیں سُن رہا ہے۔ شوٹ کے دوران مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں نے اتنی دفعہ لوگوں کی بات چیت چھپ پر سُنی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ راعد کو شروع میں سمجھدار کریکٹر دکھایا گیا جس نے اپنے بھائی بھابی پر واضح کیا کہ مہ پارہ کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور اس کی عزت کی جائے۔ آگے جا کر غلط فہمی ہوئی۔۔۔ ’راعد کا برین واش ہوا اور وہ سچ پتہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا اور وہ صورتحال سے فرار اختیار کر رہا ہے۔‘

سحر کہتی ہیں کہ ’جب غلط فہمیاں آپ کے اپنے گھر والے پیدا کرتے ہیں تو ان کا جواب ڈھونڈنا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ آپ سوچتے ہیں کہ ان میں حقیقت ہو گی۔ ہماری سوسائٹی جس طرح کی ہے اس میں اگر بھائی آ کر بولے کہ یہ ہوا ہے تو یقین تو آئے گا۔۔۔ راعد کنفیوز ہے کیونکہ اس کے اپنے گھر والوں نے اسے دھوکے میں رکھا۔‘

علی انصاری کہتے ہیں کہ ’ابھی تو پکچر باقی ہے کیونکہ ابھی بہت ٹوئسٹ آنے باقی ہیں سٹوری میں۔‘

سحر اینڈ علی

ناظرین زیادہ ’مصالحے‘ کو پسند کرتے ہیں

علی انصاری کہتے ہیں کہ لوگ کہانی میں ’مصالحہ‘ چاہتے ہیں۔

’جن پراجیکٹس میں بہت زیادہ مصالحہ نہ ہو اور کہانی حقیقت سے نزدیک ہو اور اچھی ڈائریکٹ کی گئی ہو، اس پراجیکٹ کو ویلیو نہیں دی جاتی اور میرا ماننا ہے کہ ناظرین زیادہ مصالحے کو پسند کرتے ہیں۔‘

’مہ پارہ کو نظر لگ گئی‘

شوٹنگ کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے سحر نے بتایا ’ہم سین کر رہے تھے اور میں نے کہا کہ میرا شاٹ پہلے لے لو۔۔۔ ہم وہ سین عکس بند کر رہے تھے جب مہ پارہ کو گھر سے نکالا جاتا ہے۔۔۔ اس دوران میرے لیے چائے لا کر رکھی گئی، کپ کافی گرم تھا اور میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور چائے میری پوری ٹانگ پر گر گئی۔ مجھے دو دن کی بریک لینا پڑی۔‘

مزید پڑھیے

نازیہ حسن: وہ سکول یونیفارم پہنے مائیک پر کھڑی ہوئیں اور برصغیر میں موسیقی کی شکل بدل دی

مغل اعظم: اگر مدھوبالا آخری پسند تھیں تو پہلی، دوسری، تیسری کون تھیں؟

ابتدا میں اسود کا کردار ادا کرنے سے منع کر دیا تھا: عثمان مختار

راعد کہتے ہیں شاید سحر کو نظر لگ گئی تھی۔

’راعد کو تھپڑ پڑا تو ناظرین خوش ہوئے‘

سحر بتاتی ہیں کہ گذشتہ قسط میں جب انھوں نے راعد کو تھپڑ مارا تو ناظرین کے کافی جذباتی پیغامات انھیں موصول ہوئے۔ ’لوگ خوش ہوئے، کئی نے کہا ٹھیک کیا۔۔۔ اور زور سے مارنا چاہیے تھا۔۔۔‘

علی انصاری نے بتایا کہ راعد کے کردار کو لے کر انھیں لوگوں کے غصہ بھرے پیغامات بھی آئے اور انھوں نے کہا کہ ’آپ نے مہ پارہ کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ یا تم ایسا کیسے کس سکتے ہو۔۔۔ تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے، تمھیں ایسا نہیں ایسا کرنا چاہیے تھا۔‘

علی کہتے ہیں یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ناظرین کا اس ڈرامے سے کس حد تک جذباتی لگاؤ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments