پنڈورا چونگی سے پنڈورا پیپرز تک


انتہائی دکھ کے عالم میں ’آپ کو بتا رہا ہوں کہ میرا نام پنڈورا پیپرز میں بھی نہیں آیا۔ لگ بھگ ایک کروڑ انیس لاکھ فائلز کی جانچ پڑتال کی۔ مگر اپنا نام تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ پنڈورا سے واقفیت تو بہت بچپن میں لفظ پنڈورا باکس کے سبب ہوئی۔ مگر یہ الگ بات کہ پنڈورا باکس کھلتا آج پنڈورا پیپرز کے توسط سے دیکھا۔ پنڈورا چونگی جانے کا اتفاق بھی پہلی بار عین جوانی میں ایک خاتون دوست کے مرہون منت ہوا۔ خیر راولپنڈی/اسلام آباد کے باسی پنڈورا چونگی سے باخوبی واقف ہیں۔ پنڈورا چونگی‘ سید پور روڈ پر واقعہ ہے۔ جو کے راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملاتی ہے۔ میں اسلام آباد کی جم تو نہیں ہوں مگر پل ضرور ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی جاتے ہوئے مجھے باقاعدہ موت آتی ہے۔ اس لیے پنڈورا چونگی بارے اس سے زیادہ معلومات دینے سے قاصر ہوں۔

پنڈورا پیپرز میں تقریباً ساری بڑی جماعتوں کے ولی وارث تو صادق و امین ٹھہرے۔ لیکن ان کے اہل و عیال، رفقاء اور ہمدرد ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ان پیپرز میں کامیاب ٹھہری۔ حکومت و اپوزیشن میں آرٹلری رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے تمام ارکان ایک دوسرے پر گولے داغ رہے ہیں۔ تا کہ عوام کو باور کروایا جا سکے کہ ہم کم اور حریف زیادہ ”پنڈورے“ ہیں۔ اور عوام بیچاری پنڈورا چونگی بس سٹاپ پر بیٹھی سوچ رہی ہے کہ جیت راولپنڈی والوں کی ہوئی یا اسلام آباد والوں کی۔ ویسے اس بار پنڈی والے بھی کم نہیں رہے۔

ایک ہمارے سادہ لوح خان صاحب ہیں جو اردو و انگریزی میں ٹویٹ پر ٹویٹ کیے جا رہے ہیں۔ کہ پتہ چل گیا رقم باہر منتقل کرنے والوں کا اور کل رقم کا بھی۔ اب کون سمجھائے خان صاحب کو کہ پنڈورا پیپرز کا میدان آپ کے حلیفوں، وزیروں اور ہمدردوں نے مارا ہے۔ شاید یہ خوش خبری ان تک ابھی پہنچی نہیں یا ہمیشہ کی طرح وہ کسی یو ٹرن کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ سب چھوڑئیے! ان پیپرز کے توسط سے مجھ ایسوں کو پہلی بار پتا لگا کہ خان صاحب کے زمان پارک ’لاہور میں واقعہ گھر کا نمبر 2 ہے۔ اور باقاعدہ داخلی دروازے پر نمبر 2 کندہ ہے۔ کاش! یہ بات کوئی تین برس پہلے پاکستانیوں کو پتہ چل جاتی۔

سات سو پاکستانی پنڈورا پیپرز میں سرخرو ہوئے۔ اور پاکستان بحیثیت ملک پانچویں نمبر کا حقدار ٹھہرا۔ اس اعزاز کے لیے اس وطن کا بچہ بچہ ان سات سو ”محب وطن“ پاکستانیوں کا زندگی بھر احسان مند رہے گا۔ اور خان صاحب کے ٹویٹ کے مطابق ان محب وطن پاکستانیوں نے چوری شدہ رقم اس دیس کے غریبوں سے چھپا کر آف شور کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی پنڈورا پیپرز سے سامنے آئی کہ پاکستانی ’دامادوں پر باقی ممالک کی نسبت زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔

پاکستانی ادارے اس قدر چوکس ہیں کہ میرے جیسا بندہ نئی گاڑی خرید لے تو اگلی صبح کوئی چار اداروں کے دس بندے آ جاتے کہ بھئی اپنے ذرائع آمدنی بتائیں۔ آپ نے یہ نئی نکور گاڑی آخر خرید کیسے لی۔ کسی اکاؤنٹ میں دو لاکھ رکھوا دو تو اگلے مہینے بینک منیجر ہی کال کرتا۔ وہ جی سورس آف انکم کا لیٹر دے جائیں۔ ہم سے جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ ایف بی آر والے تو ہر بندے کو خط لکھ کر لائن مارتے ہیں۔ میری ایک کولیگ کے میکے والے ایڈریس پہ ایف بی آر والوں نے خط لکھ چھوڑا۔ کہ ادائیگی کریں۔ ان کے والد نے خصوصی کال کر کے گلہ کیا۔ بیٹی اتنے پیسے کماتی ہو۔ ہمیں تو کبھی دیکھنے کو نہیں ملے اور ٹیکس والوں کو ایڈریس ہمارا دے رکھا ہے۔

میرے ایک لاہور کے دوست نے کچھ سو درہم دوبئی بھجوانے تھے۔ تو کچھ مصروفیت کے باعث اس نے مجھے کہا کہ یار اس پتے پر اتنے پیسے بھجوا دو۔ میں کہا بے فکر ہو جاؤ۔ یقین جانئیے! بلیو ایریا، اسلام آباد کے ایک منی ایکسچینج پر متعدد فورمز، اپنے آبا و اجداد کے اتے پتے، شناختی کارڈ کی کاپیوں اور انگوٹھوں کی مدد سے میں رقم بھجوانے میں کامیاب ہوا۔

ایک عام پاکستانی بیچارہ بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتا اپنی حلال کی کمائی رکھوانے کے لیے۔ بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے کوئی ہزار دستاویزات مانگی جاتی ہیں۔ مگر ان ”پنڈوروں“ کے بے نام اکاؤنٹ بھی کھل جاتے ہیں۔ پیسے منتقل بھی ہو جاتے ہیں۔ آف شور کمپنیاں بھی بن جاتی ہیں۔ مگر مجال ہے ان چوکس اداروں کو خبر تک ہو۔ یہ تو مغرب والوں کا شکریہ کہ گاہے بگاہے ویکی لیکس، پاناما لیکس یا پنڈورا پیپرز لیکس کرتے رہتے ہیں۔ نہیں تو یہ سب خودساختہ صادق و امین کہاں ہمیں پتہ لگنے دیتے۔ اور پبلک بیچاری علی بابا چالیس چور والی کہانیاں پڑھتی رہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments