نقالوں سے ہوشیار رہیں


یہ وہی بد دیانت اور بکے ہوئے لوگ ہیں جنہوں نے اشارہ پا کر کروڑوں عوام کے منتخب وزیراعظم اور جمہوری حکومت کا غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر دھڑن تختہ کرنے اور آمرانہ قوتوں کو بالا دست بنانے میں حد درجہ گھناؤنا کردار ادا کیا تھا

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بڑے بڑے فارم ہاؤسز لگژری لائف سٹائل لمبی لمبی گاڑیوں اور بھاری بھر کم تنخواہوں کی خاطر اس بد نصیب ملک اور بائیس کروڑ عوام کو تباہ کن بربادی سے دو چار کیا

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر جھوٹ بہتان طرازی الزامات اور گالم گلوچ کی وہ غلاظت اڑائی جس نے صدیوں سے چلے آتے محبت اور شائستگی کے تہذیب کو اس محلے کی کلچر سے بھی بدتر بنا دیا جس کا ذکر کرنا بھی کسی شریف آدمی کو گوارا نہیں

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے معصوم ذہنوں کم عمر نوجوانوں اور آمرانہ ہتھکنڈوں سے نا شناسا خلق خدا کی معصومیت کا خون کیا

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے طویل ناتوانی بے بسی بد نصیبی اور مظلومیت سے ایک طاقت وقار عزت اور مالی استحکام کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان کو منہ کے بل گرانے میں قابل نفرت کردار ادا کیا

لیکن المیہ ملا حظہ ہو کہ یہی لوگ اب ایک اور زاویئے سے اشارہ پا کر اس ”بت“ کو توڑنے کے لئے کمر بستہ ہیں جس کی تراش خراش بھی انہی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔

لاہور کے ایک وسیع و عریض فارم ہاؤس کے مالک اور برانڈڈ گھڑیوں کے شوقین ایک بد زبان صحافی سے ان پڑھ ایگزیکٹیو تک اور لکھا ہوا بلکہ لکھوا کر لایا ہوا تجزیہ نگار سے بانڈوں کے درمیان بیٹھ کر ہر وقت باپ کے شعر سنانے والے تک کہیں سے اشارہ پا کر اچانک ملک و قوم کی تباہی اور بربادی سے نڈھال ہونے لگے ہیں

یہ عمران خان حکومت کے ہاتھوں ملک کے معاشی انہدام کا رونا بھی رو رہے ہیں بیڈ گورننس کے طعنے بھی دے رہے ہیں مہنگائی پر بھی نوحہ خوانی کر رہے اور پی ٹی آئی کی حمایت کرنے پر معافیاں بھی مانگ رہے ہیں لیکن یہ لوگ یہ کبھی نہیں کہتے کہ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے پیچھے کون تھا ان لوگوں کی زبانیں اب بھی ان قوتوں کا ذکر کرتے ہوئے گنگ ہو جاتی ہیں جن کی کارستانیوں کے سبب ملک و قوم پر تباہی نازل ہوئی یہ وٹس ایپیئے صحافی کبھی نہیں بتائیں گے کہ دو ہزار اٹھارہ کے فتنہ انگیز انتخابات پر کون اثر انداز ہوا تھا ڈرامہ بازیوں کے ان ماہرین کے منہ سے کبھی نہیں نکلے گا کہ دھرنا کس کے کہنے پر شروع کیا گیا تھا اور کس کے کہنے پر ختم ہوا تھا

یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ طاہر القادری کو کس نے بلا کر اسلام آباد میں بٹھایا تھا

یہ بتاتے ہوئے ان کی زبانوں پر آبلے پڑ جاتے ہیں کہ خادم حسین رضوی کے دھرنے کے پیچھے کیا محرکات تھے اور اس کے سہولت کار کون تھے

سیاست جمہوریت اور آئین و قانون کی سربلندی کے خلاف بولتے ہوئے ان کی زبانیں ہونٹوں سے باہر لٹکی رہتی ہیں لیکن پاپا جونز جیسے معاملات کا ذکر آٹے ہی یہ پتھر کا بت بن کر ساکت ہو جاتے ہیں

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس فائز عیسی کے لئے کلمہ حق کہنے سے ان کا کیا سروکار
ریجیکٹڈ پر بولنا ان صحافتی مزارعوں کے لئے ریجیکٹڈ ہے

پانامہ کا ڈرامہ نہ تو اس ایجنڈے کا حصہ ہے جو ان خداموں کو تھما دیا گیا ہے اور نہ ہی ان میں یہ جرآت ہے کہ حقائق پر خود سے بول سکیں

سچ تو یہ ہے کہ کل اشارہ پا کر یہ وٹس ایپی عمران خان کی بے فیض بت کی تراش خراش اور پرستش کرتے رہے اور آج مختلف اشارہ پا کر اسی بت کو منہدم کرنے چلے ہیں

سو ان کے تجزیوں بلکہ کرتوتوں سے رائے عامہ کا کیا تعلق کیونکہ انہی کے سبب تو لوگوں کے گھروں میں پڑے ٹیلی ویژن سیٹ کے سکرینوں پر گرد کی دبیز تہیں جم گئی ہیں

ان کی مصنوعی صحافت اور ایجنڈا نما تجزیہ کاری کے پرخچے تو عوامی شعور اور ڈیجیٹل میڈیا کب کا اڑا چکے ہیں البتہ مالکان کی بے خبری کے سبب ان کی اپنی دکانیں اور گاریگری بدستور چل رہے ہیں

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments