نطشے کا خدا مر گیا، شریعتی کے خدا کی نمائندہ عورت ہے


دیوتاؤں کو ماننے سے انکار پر سقراط کو 399 قبل مسیح میں سزائے موت سنائی گئی۔ اور اس نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے زہر کا پیالہ پیا تھا۔ بعد ازاں سقراط کے شاگرد افلاطون نے یونانی فلسفہ کو آگے بڑھایا اور ایتھنز اکادمی کا بانی قرار پایا۔ یوں تو جرمن فلسفی نطشے افلاطونیت کا انکاری تھا اور لکھتا ہے کہ کیا واقعی میسنا سقراط ہی افلاطون کے بگاڑ کا باعث بنا تھا؟ کیا سقراط بہرصورت نوجوانان ایتھنز کو بگاڑنے والا اور زہر کے پیالے کا مستحق تھا؟

لیکن بعد میں خود انہی کے زاویہ سے سوچتا ہے، سقراط دیوتاؤں کا انکاری تو نطشے خدا کا ہی انکار کر بیٹھا وہ بھی اس حد تک کہ لکھا ”خدا مر گیا ہے“ نطشے سپر مین کا تصور پیش کرتا ہے۔ ایک آئیڈیل انسان ہے جو کسی بھی الہامی خیر و شر سے ماورا خود اپنے اوپر بھروسا کر کے زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہے۔ ساتھ میں یہ فوق البشر ہر طرح کے الہامی اخلاق کو بھی شدت سے رد کرتا ہے۔ ایک گال پر تھپڑ کے بعد دوسرا گال آگے کرنے جیسی سوچ کو انسانیت مخالف درجہ دیتا ہے۔

نطشے افلاطونیت اور ویدیت سے خائف نظر آتا ہے : لکھتا ہے قدیم زمانے کے کسی معروف توہم (مثلاً روح سے متعلق ضعیف الاعتقادی جو فاعل/موضوع اور انا کے وہم کی صورت میں ہنوز بنائے فساد ہے ) یہ بھی کہا ایشیا میں فلسفۂ و ہدانت اور یورپ میں افلاطونیت میں موجود رہا ہے۔ چلیے، ہم ناشکری سے کام نہیں لیتے، اگرچہ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آج تک ہونے والی خطاؤں میں سب سے زیادہ بری، سب سے زیادہ تکلیف دہ، اور سب سے زیادہ خطرناک بھول، ایک تحکم پسند غلطی ہے یعنی افلاطون کی ایجاد برائے خالص روح (Pure Spirit) اور خیر فی نفسہ (Good in Itself) ۔

جب علامہ اقبال جرمنی سے فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے تو خودی اور مومن سے نطشے کا فوق البشر جھلکتا نظر آتا تھا۔ اقبال کے مرد مومن نے نطشے کے مرد کامل سے تھوڑا بہت اثر ضرور لیا ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

شاید اسی لیے اقبال یہ بھی فرما گئے ہیں کہ نطشے ایک کافر ہے جس کا دل مومن ہے۔ لیکن اس کے برعکس نطشے اپنی بہن کو لکھے خط میں کہتا ہے ”وعدہ کرو کہ میرے مرنے کے بعد صرف میرے دوستوں کو میرے تابوت کے قریب آنے کی اجازت دو گی اور عوام کو میری لاش سے دور رکھو گی کیونکہ وہ خواہ مخواہ ہر بات کی کرید کرتے ہیں اور دیکھنا کوئی پادری، یا کوئی اور شخص میری قبر پر کھڑا ہو کر جھک نہ مارے کہ میں اس وقت مدافعت نہ کر سکوں گا۔ میں کافر اور مشرک ہوں۔ اور اسی حیثیت سے مجھے قبر میں اتار دینا“

لیکن پھر اقبال اسی خودی کو اسلام کی مرکزی حیثیت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں
خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ

نطشے ایک عرصہ تک یورپی فلسفہ کے متاثر نوجوانوں کے ذہنوں پر نقش رہا یہاں تک کہ علی شریعتی فلسفہ کے میدان میں وارد ہوئے۔ شریعتی بھی صوفیوں کے وحدت الوجود کے عقیدے سے خود کو الگ کرتے ہیں اور اس چیز کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں (وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے )

ڈاکٹر علی شریعتی نے خدا کا نیا تعارف کرایا۔ علی شریعتی نے بتایا کہ قاتل قابیل، نمرود اور فرعون نے ہمیشہ خدا کے مقابلے پر آ کر خدا کی مخلوق پر ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جس کو یونان نے یوں تعبیر کیا کہ خدا ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو وہ اپنی مخلوق پر جاری ظلم کو روک نہیں سکتا۔ لیکن علی شریعتی نے اپنی کتاب ”ہاں دوست ایسا ہی تھا“ میں اس سارے ظلم کی داستان رقم کی جو مردہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں کو بچانے کے لئے ڈھائے گئے۔ اہرام مصر کی تعمیر میں تیس ہزار غلام جو ایک ہزار میل سے ان پتھروں کو کھینچ کر لانے پر لگائے گئے تھے، ان میں سے روزانہ سینکڑوں اسی بھاری بوجھ تلے دب جاتے تھے۔

اسوان سے قاہرہ تک غلاموں کو پتھر لانا پڑتے تھے تاکہ تین بڑے اور چھ چھوٹے اہرام بنائے جا سکیں اور اس عمارت میں فرعون کی حنوط شدہ لاش محفوظ کی جا سکے۔ اندر قبر سنگ مرمر کی پانچ سلوں سے تیار کی گئی تھی۔ ان میں سے چار سلوں سے قبر کی دیوار بنی اور ایک سل قبر کے اوپر رکھی گئی۔ قبر کے اوپر اس مر مر کی سل کے حجم کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی سل پر لاکھوں پتھر ایک کے اوپر ایک سجائے گئے۔ یہاں تک کہ اہرام کا بالائی سرا مکمل ہوا۔ اور پانچ ہزار سال سے یہ سل ان سارے بلاکوں کا وزن سنبھالے ہوئے ہے

مشہور فلسفی نطشے عورت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”عورت کی محبت میں ہر اس چیز کے خلاف نا انصافی اور اندھا پن شامل ہوتا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتی، عورتیں دوستی کے قابل نہیں، وہ محض بلیاں اور زیادہ سے زیادہ گائیں ہیں۔

لیکن دیکھیے شریعتی کیسے عورت کو بطور نمائندہ پیش کر رہے ہیں۔ شریعتی لکھتا ہے اللہ جل جلالہ، اپنی الوہیت میں لا شریک ہے۔ اس کو کسی کی حاجت ہے نہ ضرورت پھر بھی اپنی کروڑوں مخلوق میں اس نے انسان کو منتخب کیا۔

سارے انسانوں میں۔ ایک عورت کو
ساری عورتوں میں۔ ۔ ایک کنیز کو
سارے غلاموں میں۔ ۔ ایک کالی حبشی کنیز کو

ہاجرہ ایک عورت، مفلس، حقیر، حبشی کنیز، سارا ؑکی کنیز۔ انسانوں کے بنائے ہوئے معاشرے میں یہی کچھ اس کی خصوصیات ہیں۔ کفر کے معاشرے میں وہ بس اسی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ مگر توحید کے معاشرے میں اس کی حیثیت کچھ اور ہے۔ یہ کنیز اللہ سے مخاطب ہے، اولو العزم پیغمبروں ؑ کی ماں ہے۔ اور اللہ کے بہترین اور محبوب بندوں کی نمائندہ ہے۔ اللہ کے گھر میں وہ واحد عورت ہے۔ ایک ماں!

نطشے اور شریعتی میں فرق صرف اتنا ہے کہ نطشے خدا و مذہب اور توہم پرستی کا منکر ہے جبکہ شریعتی مذہب پرستوں سے خائف ہے۔ شریعتی مذہب شناس اور بیدار لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments