پردہ، حجاب اور ہراسانی



معاشرے میں طبقات کی تقسیم مالی حیثیت، سماجی طور پر کسی رتبے اور مذہب سے زیادہ قربت کے اعتبار سے پائی جاتی ہے، اسلامی دنیا اور مغرب میں حجاب سے متعلق مختلف رویے پائے جاتے ہیں، اسلامی ممالک میں پردے کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات ہیں، مطلب یہ کہ حجاب اوڑھنے کے انداز ہر جگہ جدا جدا ہیں۔

افغانستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد ایک بار پھر نگاہیں طالبان اور عورت کے مستقبل پر لگ گئی ہیں، انہیں کون سی قدغنوں کا سامنا ہو گا، عالمی میڈیا نے قیاس لگانا شروع کردی۔ 15 اگست کو کابل فتح کرنے کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا کہ وہ اس بار ماضی کی نسبت سخت نہیں ہوں گے، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔

میڈیا کا طالبان پر الزام ہے کہ وہ خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی پر قدغن لگانے کے ساتھ ساتھ لباس کی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ افغانستان ان اسلامی ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں عورتوں کو دوسری پابندیوں سمیت تعلیم کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔

اگرچہ ایران اور سعودی عرب میں عورتوں کے لئے حجاب لازمی قرار دیا گیا ہے، لیکن دونوں معاشروں میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا صرف سر ڈھانپنا ہی کافی ہے یا چہرے پر نقاب ڈالنا بھی ضروری ہے۔ ادھر ترکی کے سرکاری اداروں میں اس پر پابندی بھی لگائی گئی، جبکہ کئی مسلم اکثریت والے یورپی ممالک میں پردے یا حجاب کا رواج تک ختم ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں بھی خواتین کی اکثریت برقعہ اور حجاب اوڑھتی ہے، اس کے باوجود شہروں اور دیہات میں ایک بڑی تعداد پردہ کرتی ہے نہ ہی برقعہ یا حجاب اوڑھتی ہے۔

پاکستان میں اس موضوع پر مذہبی حلقے بہت شد و مد سے بحث شروع کر دیتے ہیں، مسئلہ فرانس، اٹلی یا یورپ کے کسی بھی ملک میں حجاب پر پابندی سے متعلق ہو۔ حقیقت تھوڑی سے مختلف اور تلخ ہے، پاکستان میں عورت کی حیثیت اور مرتبہ طبقاتی تقسیم سے جڑا ہوا ہے، اس کا بہت سا تعلق مذہبی وابستگی سے بھی ہے، پاکستان میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا اپر کلاس اور بالکل نچلے مزدور طبقے کی نسبت دین سے لگاؤ زیادہ ہوتا ہے، اسی کے نتیجے میں گھروں کا ماحول بھی عورتوں کو پردے، نقاب اور حجاب کی تلقین اور نصیحتوں پر مبنی ہوتا ہے۔

آج بھی دیہات میں عورت پردے اور حجاب کا اس قدر خیال نہیں رکھتی جتنا ایک مثالی مسلمان عورت سے توقع کی جاتی ہے، اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ وہاں کا ماحول کسی قسم کی بے حیائی یا جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ وہ عورت کھیتوں میں مردوں کے ساتھ کام بھی کرتی ہے، ہر قسم کا بوجھ اٹھاتی اور ساری گھرداری بھی انجام دیتی ہے۔ یہی کام شہروں میں متوسط طبقے کی خواتین کرتی ہیں جنہیں کہا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں، وہ جہاز بھی اڑاتی، آپریشن کرتی، مشکل کاموں میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں۔ اس سب کے دوران انہیں کسی قسم کے خاص پردے کی پابندی نہیں ہوتی، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کا لباس کہیں یونیفارم کی صورت اور کہیں اپنی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ مراعات یافتہ، اپر کلاس ایسے کسی تکلف میں نہیں پڑتا، ان میں لباس یا حجاب دقیانوسی باتیں ہیں۔

عورت کا معاشرے میں با اختیار کردار کی بحث بھی صرف متوسط اور نچلے متوسط طبقے تک محدود ہے۔ کیونکہ اعلیٰ درجے میں زندگی بسر کرنے والی عورتیں اپنی جگہ کہیں بھی بنا لیتی ہیں، اگر ایسا نہ ہو سکے وہاں انہیں مردوں سے آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ اختیار غریب اور نچلے طبقے کی عورت کے پاس نہیں یہاں وہ با اختیار نہیں۔

جس طبقے کی خاتون با اختیار اور آزاد خیال ہے کبھی کبھار وہ بھی ہراسانی کی شکایت کر دیتی ہے۔ گلوکار اور اداکار علی ظفر پر ساتھی گلوکارہ میشا شفیع نے ایسا ہی الزام لگادیا، یہ کس حد تک درست تھے یا نہیں؟ قانونی تحقیق اور تفتیش کے بعد اس بات کی جانچ کی گئی کہ معاملہ تکنیکی اعتبار سے کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی کے زمرے میں بھی آتا ہے کہ نہیں۔ عدالت ورکنگ پلیس کا تعین کرنے میں ناکام رہی، اس لیے مقدمے کی سماعت ہراسانی سے تحفظ کے قانون کے تحت نہ ہو سکی۔

اس کیس نے ثابت کر دیا عورت اپنے حق کے لئے مرد کو چیلنج کر سکتی ہے، وہ جب گانا گاتے، اداکاری کرتے، ماڈلنگ کرتے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، اس دوران کوئی حجاب نہیں لیکن جہاں محسوس کیا کہ آزادی کی حد عبور ہو رہی ہے عورت اپنا اختیار استعمال کر لیتی ہے۔

غریب کی بیٹی پردے میں ہو، امیر کا بیٹا اس سے زیادتی کر لے، وہ خوف، شرم اور سماج میں اپنی بدنامی کی خاطر خاموش رہتی ہے، کہاں گیا اس کا پردہ، کہاں سے انصاف مانگے، اگر قانون کی پاسداری ہوتو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف عدالتوں سے انصاف لے لیتی، ایسی مثالیں کم کم پائی جاتی ہیں،

ریاست کا ہمیشہ سے وعدہ رہا ہے کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو گا، خواتین سے امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ انہیں مردوں کے برابر حقوق دیے جائیں گے، سیاست سے وابستہ تمام حلقے اور قیادت اس کے دعوے کرتی نہیں تھکتی، مگر مشرق کی عورت حجاب اور حیثیت کے چکر میں پھنسی ہے۔ سول سوسائٹی عورت کی آزادی اور ویمن امپاورمنٹ کا نعرہ لگاتی ہے۔

پاکستان کا مڈل کلاس طبقہ تاجر اور تنخواہ دار لوگوں پر مشتمل ہے، یہ سب سے زیادہ مذہبی رجحان رکھنے والے ہوتے ہیں، ان کی عورتیں پردہ دار، نسبتاً شرم و حیا کی پیکر اور مشرقی لباس پہنتی ہیں۔ انہیں میڈیا کے توسط سے اپر کلاس کے فیشن اور طرز زندگی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے جسے اپنانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔

صدر عارف علوی نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ایک معاشرہ سمجھتا ہے افغان عورت نقاب اتارے گی تو با اختیار ہو گی، مغرب صرف انسانی حقوق کی باتیں کرتا ہے، عمل نہیں کرتا، خواتین کو زبردستی برقعہ پہنانا اور اتارنا دونوں ہی غلط ہیں،

اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے ریپ اور خواتین کے لباس سے متعلق بیان دیا، جس کے بعد میں کچھ ایسی وضاحت کی کہ زیادتی کا شکار خاتون پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی بلکہ صرف اس کا ارتکاب کرنے والا ذمہ دار ہوتا ہے۔

بی بی سی کے ایک سروے میں کسی کا کہنا تھا اس بات پر مباحثہ کیوں شروع نہیں کیا جاتا کہ کیا مغرب میں عورتوں کا ننگا پن ضروری ہے؟ یا کیا عیسائیت مغرب میں عریانیت کی حمایت کرتی ہے؟ ہم مسلمانوں کو اپنی اقدار پر فخر ہے۔

کسی نے کہا حجاب عورت پر لازم ہے۔ انہیں اپنے ہاتھوں، پیروں اور چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھانپنا چاہیے۔

سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پردہ کیا ہے، اس کی تعریف واضح ہونی چاہیے، حجاب کے معاملے میں مختلف مکاتب فکر کی مختلف آراء ہیں۔ جدت پسند افراد حجاب کو آنکھوں اور دل کا پردہ کہتے ہیں لیکن کیا صرف ان چیزوں کا نام پردہ ہے۔ جو جسم کا پردہ نہ کرسکے وہ آنکھوں اور دل کا پردہ کیا کرے۔ کسی دور میں عوامی مقامات پر عورتوں کے لئے مستورات کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، جس کا مطلب ڈھکی، چھپی ہوئی، اسلام بھی کچھ ایسی تشریح کرتا ہے۔

مسئلہ پھر وہیں کا وہیں کہ پردہ، برقعہ، حجاب شاید کچھ پیچھے رہ گئے، اب مناسب اور سادہ لباس ہی پردہ کہلاتا ہے ورنہ جدت پسند اور مغرب زدہ خواتین فیشن کے نت نئے انداز اپناتے مختصر اور جاذب نظر ملبوسات میں دکھائی دیتی ہیں۔ اسے اپنانے والے معاشرے کی اکثریت یعنی نچلے متوسط طبقے کی عورت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ بھی ایسا روپ دھار لیں۔

یہاں پردے اور آزادی کی بحث پھر جنم لیتی ہے، جنہیں اجازت نہیں ملتی یا معاشرے کی خودساختہ پابندیوں کے باعث اپنے آپ پر جبر کرنا پڑتا ہے، وہ عورت کے با اختیار ہونے کے نعرے میں بھرپور کشش محسوس کرتی ہیں۔ حالانکہ ہر شعبے میں عورت اپنا کردار ادا کر رہی ہے، اسے صرف تیکھی اور صنفی ایکسرے کرنے والی نگاہوں کا سامنا ضرور رہتا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے ہراسانی روکنے خاص طور پر کام کرنے کی جگہ پر عورتوں کو پریشان کرنے کی سزا بھی موجود ہے، حتیٰ کہ اداروں کے اپنے قواعد و ضوابط بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں بہت کم شکایات آتی ہیں۔

سماجی امور پر نظر رکھنے والے وجاہت حسن کی رائے میں متوسط طبقے کی خواتین زیادہ تر مردوں کے ہراساں کرنے پر خاموش رہتی ہیں کیونکہ نوکری چلے جانے کا خوف مدنظر رہتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں اپر مڈل کلاس کی عورت کام کے دوران تعلق بناتے کسی جھجک کو بالائے طاق رکھتی ہے۔ شاید پردہ، حجاب یا عورت کی آزادی اس کا موضوع بھی نہیں۔

سول سوسائٹی کے سرگرم رکن کہتے ہیں، عورت صنفی امتیاز کا شکار ہے، اسے گھر سے باہر کام سمیت مختلف مقامات پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ جس کے پس پشت مختلف وجوہات کارفرما ہوتی ہیں، خواتین کے لئے معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنا آج بھی مسئلہ ہے۔ مذہب سے وابستہ افراد مختلف توجیہات کو بنیاد بنا کر خواتین کو دباؤ میں رکھتے ہیں۔ انہیں دین کی تشریح کرتے ہوئے نگاہیں جھکا کر، سینے کو ڈھانپ کر چلنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایسا نہ کرنے والی خاتون بے حیائی کے زمرے میں شمار کی جانے لگتی ہے۔ دوسری جانب سماج کا تعلیم یافتہ باشعور کہلائے جانے والا طبقہ اس سب کو دقیانوسی خیال کرتا ہے۔ یہی سوچ رکھنے والی خواتین کسی بات کو نہیں مانتیں۔

خواتین کے حقوق کا معاملہ قدیم اور ہمیشہ توجہ طلب رہا۔ اس میں مغرب نے عورت کو اس کا حق دیا اور آزادی بھی۔ مگر مشرق میں کچھ کمی بیشی والا معاملہ رہا یہاں مناسب حیثیت وراثت میں حصہ تک نہیں مل پایا۔ یہاں تمام طبقات ایک مقام پر کھڑے ملیں گے۔ تعلیم یافتہ اعلی گھرانے عورت خاندانی جائیداد سے محروم کردی جاتی ہے۔ ایسے میں با اختیار عورت کا تصور بے معنی سی بات لگتی ہے۔

خواتین کو مردوں سے مقابلہ کرنے میں بے شمار مسائل درپیش آتے ہیں۔ انہیں حق لینے کے لئے کسی آزادی کی تحریک کا حصہ بننے کے بجائے معاشرے اور گھر میں ایک بہتر انداز سے اپنا مقام بنانا ہو گا۔ یہ چیلنج عورتوں کا اپنا ہے کسی کو الزام دینا یا چیلنج کرنے بھی ضرورت نہیں۔

حجاب اور پردہ بھی انسان کا ذہنی مسئلہ ہے جسے مناسب لباس کی صورت کسی بحث میں لائے بغیر حل کیا جاسکتا ہے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments