کپتان یہ کہاں پہنچا دیا ملک کو


کچھ دنوں سے روح فرسا، انگشت بدنداں کردینے والی خبروں نے احاطہ کیا ہوا ہے، پیٹرول، اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں نے ہوش اڑائے ہوئے ہیں، سیاسی، اخلاقی معاشرتی افراتفری نے گرفت میں لیا ہوا ہے۔ زبیر عمر صاحب کی اخلاق باختہ وڈیو خبروں میں گرم رہی تو دوسری طرف خان صاحب کے اس انٹرویو نے ہزاروں شہداء کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو مٹی میں ملا کر دکھی کر دیا جس میں صاحب فرما رہے تھے کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے طالبان کو عام معافی دے کر معاشرے میں بہتر کردار ادا کرنے کا موقع دینے کے لیے تیار ہیں اور ان میں سے کچھ اچھے طالبانی گروپوں سے بات چیت شروع ہو چکی ہے۔

پھر توشہ خانے میں جمع کرانے والے تین سؤ کلو سونے کے گم ہونے کی خبروں نے ہوش اڑائے، جب سرکار سے دنیا بھر سے ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی گئی تو یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ دنیا کے اکثر سربراہان اور ممالک یہ تفصیلات بتانے پہ تحفظات رکھتے ہیں، ان تحائف کی تفصیلات بتانے سے ان ممالک کی توہین کا تاثر ابھرتا ہے، اس لیے وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات نہیں بتائی جا سکتی ہیں، جبکہ اسی توشہ خانے کے حوالے سے مخالف قیادت پہ نیب میں ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔

ابھی ہوش ٹھکانے آئے ہی نہ تھے کہ شہزادہ محمد بن سلیمان کی جانب سے ہیروں جڑی گھڑی کے مبینہ طور پر مارکیٹ میں بیچے جانے کی افواہوں نے تو سر شرم سے ہی جھکا دیا، تفصیلات سوشل میڈیا سمیت دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہیں، ایک انڈین دوست نے سوشل میڈیا پہ لکھا کہ پاکستان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب اس کا وزیراعظم تحفے میں ملنے والی قیمتی گھڑیاں بیچ کر ملک چلا رہا ہے۔ ایسے ایسے الفاظ اور جملے سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں جو شاید اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے نہ سنے۔ اس سے پہلے بہت سی چیزیں کبھی دیکھنے، سننے، سمجھنے کو نہیں ملیں جو کپتان کے اقتدار کے بعد ملیں ہیں، واقعی تبدیلی تو آئی ہے مگر تبدیلی کی صورت اتنی بھیانک ہوگی یہ سپنے میں بھی نہیں سوچا تھا۔

ایک غیر ملکی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے لکھا کہ ”چودہ سو کی گھڑی وقت بتاتی ہے جبکہ چودہ کروڑ کی گھڑی نے پاکستانی وزیراعظم کی اوقات بتا دی“ کاش کہ یہ توہین آمیز ریمارکس نہ سننے پڑتے، ان تمام چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتوں نے ایک بات تو بالکل صاف کردی کہ خان صاحب عزت کے معاملے میں بھی بڑے لبرل ہیں انہیں بالکل بھی نہیں پرواہ کہ ان کے کس فعل سے ان کی اپنی یا ملک کی عزت خراب ہوتی ہے، انہیں صرف اپنی ذات سے غرض ہے، یا پھر اس بات سے کہ کسی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنا دینا ہے، وہ ستر ہزار سے زائد معصوم و بے گناہ پاکستانیوں کے قاتلوں کو معاف کرنے ان سے مذاکرات کی ٹیبل پہ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں مگر اپوزیشن کو سلام تک کرنا انہیں گوارا نہیں کہ یہ ان کی توہین ہے۔

کپتان اپنے تئیں خود کو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سب سے مقبول عوامی لیڈر سمجھتے ہیں، وہ اپنی بدترین حکمرانی کے خلاف اٹھے طوفان کو پانی کا ابال، مخالفین کا پروپیگنڈا اور میڈیائی بلیک میلنگ سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب من گھڑت باتیں افسانے ہیں جو میڈیا اور ان کے مخالفین فیک نیوز کی صورت میں ان کے خلاف پھیلا رہے ہیں، وہ اب تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کے چاہنے والے یہ جانتے ہیں کہ خان صاحب مسیحا ہیں وہ انہیں اس معاشی، سیاسی بھنور سے نکال لیں گے، ان کے چاہنے والے پیٹرول کی قیمت پانچ سؤ روپے تک پہنچ جانے کے بعد بھی انہیں ہی اگلے ٹرم کے لیے چنے گے، چاہے اشیاء صرف ان کی قوت خرید سے باہر ہو جائیں، چاہے وہ بجلی، گیس کی بل جمع کرانے کی سکت کھو دیں پھر بھی عوام انہیں ہی وزیراعظم منتخب کرے گی کیونکہ وہ لیڈر ہیں اور لیڈر ہی قوم کی رہنمائی کرتے ہیں قوم لیڈر کی نہیں۔

کپتان نے قوم کو وہ وہ سبز باغ دکھائے، وہ وہ بونگیاں ماری ہیں کہ آج تین سال کے مختصر عرصے میں ہی ان کے اقوال زریں ان ہی کے آگے کھڑے ہو کر ان کی طرز حکمرانی پہ ان کا منہ چڑا رہے ہیں۔ پاناما لیکس کے بعد اب پنڈورا لیکس منظر عام پہ آ گئیں، پاناما لیکس کے موقع پر کپتان صاحب کے فرمودات آج ان سے تقاضا کر رہے ہیں کہ جو مطالبات وہ پاناما لیکس کے آنے پہ نواز شریف اور ان کی حکومت سے کرتے رہے آج ان مطالبات پر من و عن عمل کرنا ان کی فرائض میں شامل ہو چکا ہے، کیونکہ وہ کرپشن کے خلاف بیانیے کا مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئے تھے اور اب ان کی ہی کابینہ کے انتہائی اہم لوگ، سابق جرنیل اور دیگر سات سؤ پاکستانی بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں جو رعایت سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی نہیں ملی تھی۔

خان صاحب برسر اقتدار ہوئے تو انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے علاوہ جن ساڑھے چار سؤ کے قریب پاکستانیوں کا ذکر ہے ان کے خلاف بھی بلا امتیاز تحقیقات ہوں گی اور قوم کو سارے چور جلد قانون کے کڑے شکنجے میں کسے نظر آئیں گے، مگر سوائے نواز شریف کے کسی کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوا۔

خان صاحب اور ان کے انتہائی جانباز ماہر اثاثہ ریکوری یونٹ کے سربراہ ہر دو ماہ بعد ٹی وی پہ آ کر قوم کو یہ نوید سناتے رہے کہ جناب آج پانچ ارب ڈالر کا پتا لگا لیا، آج دس ارب ڈالر کی تصدیق ہو گئی مگر وہ اربوں ڈالر نجانے کس راستے سے واپس آ رہے ہیں کہ ابھی تک ان کی واپسی کی کوئی خبر نہیں۔ ہم نے جس قرض مانگنے سے خودکشی کو ترجیح دی تھی وہی قرض لے لے کر قوم کے ہر فرد کو ایک لاکھ تیس ہزار سے ڈھائی لاکھ کا مقروض بنا دیا۔

آج کپتان سے سوال تو بنتا ہے کہ ستر اسی ہزار ہم وطنوں کے قاتلوں سے مذاکرات کس سے پوچھ کے کر رہے ہیں، کیا ہمارے معصوم بے گناہ عوام و سپاہ نے اسی لیے قربانیوں کی تاریخ رقم کی کہ آپ ان کے درندہ صفت قاتلوں کو مذاکرات کی میز پہ بٹھا کر انہیں معصومیت کا سرٹیفیکیٹ دے کر معاف کر دیں، سوال تو بنتا ہے کہ کیا آپ کے ساتھ بیٹھے اربوں کھربوں روپے کے ڈاکے مارنے والے سب آپ کی طرح صادق و امین ہیں کیونکہ آپ کے ساتھ ہیں، سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کپتان یہ اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خواب دکھلا کر آپ نے پاکستان کو کیا بنا دیا۔

زمیں بیچ ڈالی، زمن بیچ ڈالا
لہو بیچ ڈالا، بدن بیچ ڈالا
شجر بیچ ڈالے، چمن بیچ ڈالا
کیے تھے وعدے زمین و مکاں کے
میری جائے مدفن، کفن بیچ ڈالا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments