جمہوریت میں ہائیبرڈ پیوند کاری قومی مفاد کے خلاف ہے


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں کور کمانڈرز کے 244 ویں اجلاس نے پاکستانی سالمیت کے خلاف بھارتی فوج کے پروپیگنڈا پر غور کیا اور یہ عہد کیا کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔ کور کمانڈرز نے افغانستان میں انسانی اور سیکورٹی کی صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ وہاں پر امن و سلامتی کے لئے بین الاقوامی کمیونٹی کا پائیدار اور بامقصد تعاون بے حد اہم ہوگا۔

کمانڈرز کانفرنس کے بارے میں آئی ایس پی آر کے مختصر اعلامیہ میں یہ واضح نہیں کیا گیاکہ پاک فوج اور حکومت اس حوالے سے کیا کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ البتہ بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’ بھارتی فوج کے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا سے پاکستان کی علاقائی سالمیت کولاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن اقدام کئے جائیں گے۔ یہ بے بنیاد پروپیگنڈا (بھارت) کی مایوسی ظاہر کرتا ہے اور اس طرح وہ خاص طور سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے پیدا ہونے والے اندرونی تضاد کو چھپانا چاہتے ہیں‘۔

اس مختصر اعلان سے پاک فوج کا یہ عزم تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کے لئے ہر دم مستعد ہے اور ہمہ قسم خطرات سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔ تاہم کسی کور کمانڈر زکانفرنس کی طرف سے صرف یہ اعلان ملک کو درپیش صورت حال کا پوری طرح احاطہ کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ ملک کی حفاظت کا عزم پاک فوج کا طرہ امتیاز نہیں ہے، ہر فوج اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تن من کی بازی لگاتی ہے اور قومی دفاع کا فرض ادا کرنےمیں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے۔ اس لئے کور کمانڈرز کانفرنس کا یہ بیان تو روٹین کا حصہ سمجھا جائے گا کہ فوج ملک کی حفاظت کے لئے تیار ہے۔ البتہ اس پہلو پر غور ضروری ہوگا کہ آخر پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو کیوں اس موقع پر یہ اعلان کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے اور ملک کی علاقائی سلامتی کو کس طرف سے کون سے خطرات لاحق ہیں۔ اگر پاک فوج ملکی سلامتی کے لئے کوئی مخصوص خطرات محسوس کررہی ہے تو ان کی مناسب نشاندہی کرنا ضروری تھا تاکہ پاکستانی عوام اور ان کی منتخب حکومت اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے دفاعی حکمت عملی میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوسکیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اعلامیہ سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ملکی سلامتی کو بھارت کی طرف سے خطرہ ہے۔ اس حوالے سے جس پہلو کی نشاندہی کی گئی ہے ، وہ بھارتی فوج کا ناجائز اور بےبنیاد پاکستان دشمن پروپیگنڈا ہے۔ اس پہلو کی وضاحت کرنے اور خاص طور سے ان نکات کی نشاندہی ضروری تھی جن کی بنیاد پر پاک فوج کے کور کمانڈر یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت بھارتی فوج کی طرف سے سامنے لائی جانے والی گمراہ کن معلومات سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو رہاہے۔

یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت پاک فوج سے محبت کرتی ہے ، اس کی قومی خدمت پر بھروسہ بھی رکھتی ہے اور کسی بھی بحران میں اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ بھارتی فوج یا سرکاری ادارے اگر پاک فوج کے خلا ف کسی قسم کی جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں تو پاکستانی عوام ان ذرائع پر نہ تو اعتبار کرتے ہیں اور نہ ہی وہ دشمن فورسز کے پھیلائے ہوئے جھوٹ پر یقین کرکے اپنی فوج کے بارے میں کسی بدگمانی کا شکار ہوں گے۔ پھر خاص طور سے پاک فوج کے کمانڈروں کو اس پہلو پر غور کرکے دو ٹوک اعلامیہ جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ اور کسی ناموافق اور ناجائز پروپیگنڈا کا جواب دینے کے لئے پاک فوج آخر کون سے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات سے ہی صورت حال واضح ہوسکتی ہے اور ملک میں موجودہ گھٹن اور بے یقینی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے پاک فوج کے علاوہ حکومت بھی ہایئبرڈ وار فئیر یا ففتھ جنریشن وار کی اصطلاحات استعمال کرکے یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ ملک کو دشمن کے ناجائز پروپیگنڈا سے شدید خطرہ ہے اور اس کے خلاف اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس حوالے سے جو اقدامات عام طور سے دیکھنے میں آتے ہیں ، ان میں میڈیا پر پابندیاں یا صحافیوں کے خلاف اقدامات سر فہرست ہیں۔ گاہے بگاہے کسی نہ کسی صحافی کو نامعلوم افراد کی طرف سے ہراساں کرنے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں اور قانون کی عملداری کے دعوؤں کے باوجود کبھی ان عناصر کا سراغ نہیں ملتا اور نہ ہی متاثرہ صحافیوں کو زندگی اور کام کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں یقین اور اعتماد کی بجائے بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ پاک فوج کے کمانڈر اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دشمن کی فوج اس وقت پروپیگنڈا کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور پاک فوج کے عزم کو متاثر کرنے کی کوشش کررہی ہے تو انہیں عوام کے ساتھ مواصلت کو مستحکم کرنے اور ملک میں آزادانہ مکالمہ کی روایت کو مضبوط کرنے کی بات کرنی چاہئے۔

کہا جاسکتا ہے کہ آزادی رائے و صحافت کا فوج سے لینا دینا نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جسے ملک کی منتخب حکومت ہی طے کرنے کی مجاز ہے، فوج اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ ایسا کوئی بھی عذر اس صورت میں تو قابل قبول ہوسکتا ہے اگر پاکستان کی فوج سیاسی طور سے غیر جانبدار ہونے کی شہرت رکھتی ہو اور اس نے موجودہ حکومت کی ’غیر قانونی‘ پشت پناہی سے گریز کیا ہو۔ یہاں غیر قانونی کی اصطلاح ان معنوں میں استعمال کی گئی ہے کہ فوج کا کوئی ایسا کردار جس کی ملک کا آئین اجازت نہیں دیتا لیکن اسے پھر بھی وسیع تر قومی مفاد کا نام دے کر مروج کیا گیا ہو ۔ جیسے خارجہ و سلامتی امور پر پاک فوج کے سربراہ و آئی ایس پی آر کے اعلانات یا یہ الزامات کہ ’فوج نے تحریک انصاف کو جو حمایت فراہم کی ہے، اگر ا س کی نصف حمایت بھی اپوزیشن پارٹیوں کو دی جاتی تو ملک کے حالات مختلف ہوتے‘۔ یہ بیان، شکوہ یا الزام اسٹبلشمنٹ یا فوج کے خلاف سرگرم عناصر یا سیاست دانوں کی طرف سے سامنے نہیں آیا بلکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ا ور فوج کے ساتھ مصالحت کے داعی شہباز شریف سے منسوب ہے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال، مسائل اور تنازعات کے حوالے سے ہونے والی ہر بحث کی تان اس ایک نکتہ پر ہی ٹوٹتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت فوج کے ساتھ بگاڑ پیدا کرکے یا اس کے نقطہ نظر سے متصادم مؤقف اختیار کرکے اقتدار تک پہنچنے کی توقع نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن پارٹیوں کو وقتاً فوقتاً اس تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ سیاسی کامیابی کے لئے درپردہ اسٹبلشمنٹ سے ساز باز کررہی ہیں۔ ملک میں یہ تاثر قوی ہے اور خود سرکار دربار کے ترجمان کہلانے والے میڈیا اینکر، کالم نگار یا مبصر یہ واضح کرتے رہتے ہیں کہ فوج پر تنقید کرکے اور اس کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی سیاسی پارٹی اقتدار حاصل نہیں کرسکتی۔ عمران خان اپنی حکومت کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود صرف اس لئے اقتدار پر قابض رہنے میں کامیاب ہیں کیوں کہ فوج ان کی پشت پر ہے۔ یہ ’پشت پناہی‘ منتخب حکومت کی آئینی وفاداری تک محدود نہیں ہے۔ اس کے باوجود فوج کے سربراہ یا اس کے ترجمان ادارے نے کبھی ایسے تبصروں اور تاثر کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ یہ قیاس کرنا غلط نہیں ہوگا کہ اس تاثر کو قوی کرکے دراصل پاکستانی سیاست میں فوج کے مستحکم اور ناقابل شکست کردار کی شبیہ واضح کی جاتی ہے اور یہ پیغام عام کیا جاتا ہے کہ اقتدار کا راستہ بیلٹ بکس کی بجائے جی ایچ کیو سے ہوکر گزرتا ہے۔

پاکستان کا ہمسایہ دشمن ملک اگر پروپگنڈا کے ذریعے پاک فوج کو کمزور کررہا ہے تو اس کا مقابلہ کسی فوجی طاقت سے ممکن نہیں ہے۔ پاک فوج کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ یہ ادارہ کسی عسکری چیلنج کا مقابلہ تو کرسکتا ہے لیکن جھوٹ کا جواب دینے اور عوام کے دلوں سے شبہات دور کرنے کے لئے میڈیا کو طاقت ور کرنا اہم ہے تاکہ وہ دشمن قوتوں کا جواب دے سکے۔ عملی صورت حال البتہ یہ ہے کہ فوج کی ’حفاظت‘ میں کام کرنے والی حکومت اس پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے میڈیا کو طاقت ور وخود مختار کرنے کی بجائے کمزور اور دست نگر بنانا چاہتی ہے۔ تازہ ترین کوشش میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات میں میڈیا مالکان کے نام آنے کو عذر بنا کر میڈیا کو فیک نیوز کا گڑھ ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ سوچا جائے کہ اگر ملکی میڈیا کو جعلی، بدعنوان اور دشمن کا ایجنٹ کہا جائے گا تو پاکستان مخالف پروپیگنڈا کا مقابلہ کیسے ہو گا؟

دشمن کے پروپیگنڈا ہتھکنڈوں پر کور کمانڈرز کانفرنس کی تشویش کے بعد اس صورت حال پر غور کرنا قومی سالمیت کا بنیادی اور اہم ترین نکتہ ہونا چاہئے۔ پاکستان کے آزاد اور خود مختار میڈیا کو کمزور اور مشکوک قرار دینے کی کوشش کرنے والی سب قوتوں کی نیک نیتی اور اصابت رائے پر سوال اٹھانا اہم ہے۔ پاک فوج اگر واقعی اس وقت پروپیگنڈا کو ہی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی سالمیت پر سب سے بڑا خطرناک حملہ سمجھ رہی ہے تو اس کا جواب میڈیا ایجنٹوں، سرکاری جوابی پروپیگنڈا یا آزادی رائے پر نت نئی پابندیوں سے نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے لئے ملک میں مکالمہ کی روایت کو فروغ دینا اہم ہوگا اور اختلاف رائے سننے کا احترام پیدا کرنا ہوگا۔

ملک کی عسکری قیادت کو سوچنا ہوگا کہ یہ کام سیاسی و جمہوری آزادی کو یقینی بناکر ہوگا یا جمہوریت میں ہائیبرڈ کا پیوند لگاکر یہ مقصد حاصل کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments