پاکستان کی معیشت: تحریک انصاف کے دور میں بڑھتا تجارتی خسارہ، پاکستان نے دوسرے ممالک سے کیا کیا درآمد کیا؟


کار
پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیرونی تجارت کے شعبے میں موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سو فیصد تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کی درآمدات میں کمی لانے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس کے ذریعے تجارتی خسارے اور ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔

اگرچہ گذشتہ مالی سال میں تحریک انصاف کی حکومت اس خسارے میں تھوڑی بہت کمی لانے میں کامیاب ہوئی تاہم موجودہ مالی سال کے آغاز سے درآمدات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق تجارتی خسارے میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے ایک خطرناک علامت ہے کیونکہ یہ خسارے جاری کھاتوں کے خسارے کو بڑھا کر شرح مبادلہ پر منفی اثر ڈالتا ہے جس کا براہ راست منفی اثر روپے کی ڈالر کے مقابلے میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔

ملکی کرنسی اس وقت ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے، جس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک سب سے بنیادی وجہ درآمدی بل میں اضافے کی وجہ سے ڈالر کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہے جبکہ دوسری جانب ملکی برآمدات میں بہت ہی کم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک کی درآمدات میں بے تحاشا اضافے اور اس کی وجہ سے بڑھنے والے تجارتی خسارے کو ماہرین ایک خطرناک رجحان قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے اسے ملکی معیشت کے لیے ’ریڈ زون‘ کہا ہے۔

بیرونی تجارت کے شعبے کی کارکردگی

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جو تجارتی خسارہ گذشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 5.8 ارب ڈالر تھا وہ موجودہ سال میں 11.6 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔

رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران جولائی سے ستمبر میں 18.63 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں جو گذشتہ برس اس عرصے میں 11.2 ارب ڈالر رہیں، اور یہ اضافہ 65 فیصد سے زائد رہا۔

دوسری جانب ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا تاہم ان میں ہونے والا اضافہ 27 فیصد رہا۔ گذشتہ برس پہلی سہ ماہی میں برآمدات 5.47 ارب ڈالر تھیں جو اس سال کی سہ ماہی میں 6.9 ارب ڈالر رہیں۔

آٹا

واضح رہے کہ گذشتہ حکومت کے آخری مالی سال میں ملک کا تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جب یہ 37 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔

تحریک انصاف حکومت نے بتدریج اس میں کمی لانا شروع کی تھی۔ اس حکومت کے پہلے مالی سال میں یہ خسارہ 31 ارب ڈالر، دوسرے مالی سال میں 23 ارب ڈالر رہا تھا۔

تاہم خسارے میں کمی کا یہ رجحان برقرار نہیں رہ سکا اور 30 جون 2021 کو ختم ہونے والے موجودہ حکومت کے تیسرے مالی سال میں یہ خسارہ ایک بار پھر 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور اس میں اضافے کا رجحان تسلسل سے جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا سے موازنہ صرف تیل کی قیمت کا ہی کیوں، قوتِ خرید اور مہنگائی کا کیوں نہیں؟

پاکستان میں غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

درآمدات یا افغانستان سمگلنگ: پاکستان میں ڈالر کی قدر میں تاریخی اضافے کی وجوہات کیا ہیں

درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے بینک قرض پر پابندی کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان کیا درآمد کر رہا ہے؟

پاکستان کے درآمدی شعبے میں ملک میں آنے والی مصنوعات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کھانے پینے کی چیزوں، تیل کی مصنوعات، گاڑیاں اور مشینری کی درآمدات میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

موجودہ مالی سال میں مصنوعات کے لحاظ سے درآمدات کا جائزہ لیا جائے تو صرف اگست کے مہینے میں ملک میں 66 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کی گئی جب کہ گذشتہ اگست میں یہ صرف 917 میٹرک ٹن تھی۔

اسی طرح ستر فیصد سے زائد اضافہ گندم کی درآمد میں دیکھا گیا تو دوسری جانب پام آئل کی درآمد میں 120 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ملک میں دالوں کی درآمد میں 84 فیصد اضافہ ہوا اور ملک میں چائے کی درآمد میں 24 فیصد اضافہ ہوا۔

دوسری جانب ملک میں تیل کی مصنوعات میں تقریباً 128 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گاڑیوں کی درآمد میں دو سو فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح مشینری کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کورونا ویکیسن کی درآمد نے بھی درآمدات میں اضافہ کیا۔

ٹماٹر

درآمدات میں اتنے اضافے کی کیا وجہ ہے؟

ماہر معیشت خرم شہزاد نے درآمدات میں اضافے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ درآمدات میں اضافہ خوردنی اور انرجی تیل کی مصنوعات کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں، مشینری اور گاڑیوں کی زیادہ کھپت کے باعث ہوا۔

وہ کہتے ہیں ’مقامی سطح پر وسائل اور پیداوار اتنی نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی طلب کو پورا کر سکیں اس لیے پاکستان کو درآمدات کرنا پڑتی ہے۔‘

خرم شہزاد نے کہا کہ اس کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی برآمدات اس لحاظ سے نہیں بڑھیں کہ وہ زیادہ درآمدات کی وجہ سے پیدا ہونے والے تجارتی خسارے میں کمی لا سکیں۔

خرم شہزاد کے مطابق زیادہ کھپت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب آمدنی کے ذرائع میں اضافہ ہوتا ہے تو کھپت بھی بڑھتی ہے۔ انھوں نے کھپت کو ایک صحت مندانہ رجحان قرار دیا تاہم اگر اسے درآمدی مال سے پورا کیا جائے تو اس کا نقصان ملک کو تجارتی خسارے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے اس سلسلے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ درآمدی بل میں اضافے کی وجہ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ مشینری، گاڑیوں اور تیل کی مصنوعات میں ہونے والا اضافہ ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی آمدنی نہیں بڑھی کہ وہ زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں کی 2018 سے لے کر اب تک فی کس آمدنی میں کمی ہوئی ہے جو اس وقت 1482 ڈالر تھی، اس وقت 1190 ڈالر تک گِر گئی ہے۔

ڈاکٹر فرخ نے تجارتی خسارے میں اضافے کی اصل وجہ برآمدات کے نہ بڑھنے کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے گذشتہ مالی سال میں 31 ارب ڈالر کی برآمدات کا جشن منایا تاہم یہی بر آمدات 14-2013 کے مالی سال میں اتنی ہی تھیں اور اس کے بعد گرنا شروع ہو گئیں۔

’اگر اس وقت ڈالر کا ریٹ اور آج کے ریٹ کو دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے برآمدات میں کوئی ترقی نہیں کی۔‘

انھوں نے کہا ہم پام آئل، گندم اور چینی تک درآمد کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تجارتی خسارہ بڑھنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مراعات دے کر میشنری زیادہ درآمد کی جا رہی ہے جو ہر کچھ سال کے بعد کیا جاتا ہے جس سے وقتی طور پر تو کچھ فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ عمل پائیدار نہیں ہوتا۔

انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان میں درآمد ہونے والی کھانے پینے کی چیزوں میں سے ایک بڑا حصہ افغانستان سمگل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اضافی درآمد کرنا پڑتی ہے اور کہا کہ افغانستان میں اب لوگوں کے پاس قوت خرید ہی کتنی رہ گئی ہے کہ سمگل شدہ مہنگی چیزوں کو خرید سکیں۔

ڈاکٹر فرخ نے کہا اس وقت ترسیلات زر کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے وگرنہ جس رفتار سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے وہ پاکستان کے جاری کھاتوں کے خسارے کو بے پناہ بگاڑ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بہت ساری درآمدی مصنوعات پر 100 فیصد کیش مارجن لگا دیا ہے تاہم اس کے باوجود درآمد رک نہیں سکتیں کیونکہ قیمت زیادہ ہی کیوں نہ ہو ضروری چیزوں کی کھپت برقرار رہے گی۔

مہنگائی

پاکستان میں وزیر اعظم کے مشیر تجارت رزاق داؤد سے جب درآمدات میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارہ کے بارے میں موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو مشیر تجارت نے کہا کہ درآمدات کیوں بڑھیں، یہ ایک پیچیدہ ایشو ہے اور وہ اس وقت اجلاس میں مصروف ہیں اور بعد میں خود رابطہ کریں گے تاہم انہوں نے دوبارہ اس سلسلے میں رابطہ نہیں کیا۔

بڑھتا تجارتی خسارہ کتنا بڑا خطرہ ہے ؟

ملک کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو ڈاکٹر فرخ سلیم نے ’ریڈ زون‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے ملک ’شیطانی چکر‘ میں پھنس جاتا ہے کیونکہ تجارتی خسارہ بڑھنے سے جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھتا ہے جس کے باعث شرح مبادلہ اور کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور ملک میں آمدنی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے غربت بڑھتی ہے۔

انھوں نے کہا ’تجارتی خسارے کو کم کرنے کے حوالے سے تحریک انصاف حکومت کے سارے دعوے فقط سوشل میڈیا پر ہیں اور یہ ان کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ان کے پاس کوئی مربوط اور جامع حکمت عملی نہیں۔‘

’نتائج دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ حکومت اس محاذ پر کتنی کامیاب ہے اور یہ نتائج یہی کہہ رہے ہیں کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں۔‘

انھوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر صرف تین مہینے میں تجارتی خسارہ تقریباً 12 ارب ڈالر کا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سال کا اختتام کتنے بڑے تجارتی خسارے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

خرم شہزاد نے کہا کہ اگر تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں تین فیصد رہے تو یہ پریشانی کی بات نہیں کیونکہ معیشت میں گروتھ اور کھپت کے لیے درآمد بھی کرنا پڑتا ہے تاہم اگر چار فیصد اور اس سے زائد ہونا شروع ہو جائے تو یہ ملکی معیشت کے لیے خطرے کی علامت ہے۔

خرم شہزاد نے کہا کہ ملک میں سخت اصلاحات تو متعارف کرائی نہیں جا سکیں کہ وہ معیشت کو بہتر بنا سکیں اور مقامی پیداوار کو بڑھا سکیں، اس لیے تجارتی خسارہ درآمدات کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments