ایک دوست کی چھٹیوں کی سرگزشت


میرا ایک ادبی سا دوست نسیم لاہور کام کرتا ہے وہ کچھ دن چھٹی پہ گھر آیا، گھر میں اس کا وقت کیسا گزرا اس کا احوال اسی کی زبانی سنیے۔

لاہور ہونے کی وجہ سے اپنی یہ عادت بن گئی تھی کہ دیر سے سونا، دیر سے اٹھنا یعنی اپنی مرضی سے سونا اپنی مرضی سے اٹھنا۔ گھر آیا بھی تو رات کو دیر سے سویا لیکن صبح صبح ابو نے مجھے سوئے ہوئے دیکھا تو ان کے اندر علامہ اقبال کی روح جاگ اٹھی اور انہوں نے چھوٹی بہن کو فرمان جاری کیا

”اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو“

یوں اس غریب کو نیند سے اس طرح اٹھایا گیا جیسے میونسپلٹی کی زمین سے خانہ بدوشوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ جب میں اٹھا تو کیا خوبصورت سماں تھا، بھینی بھینی ہوا چل رہی تھی، آسمان پر بادلوں کے چند آوارہ ٹکڑے بھٹک رہے تھے، سورج کی کرنیں درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر آ رہی تھیں غرض اتنا پیارا موسم تھا کہ طبیعت پھر سے خمار آلود ہونے لگی اور جیسے خانہ بدوش ایک جگہ سے اٹھنے کے بعد کسی اور جگہ جا کر ڈیرے ڈال دیتے ہیں میں بھی اندر جا کر سو گیا۔ اب کی بار ابو خود آئے اور میرے سرہانے کھڑے ہو کر مولانا ظفر علی خان کی طرح گویا ہوئے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
”جس نے دیر سے اٹھنے کی عادت نہیں بدلی“

اب کی بار ایسے اٹھایا گیا جیسے پھانسی لگنے والے قیدی کو اٹھایا جاتا ہے۔ اب سونے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ نہا دھو کر ناشتہ کیا اور گھر والوں کو دوپہر کے کھانے کے لیے گوشت لا کر دیا تا کہ مطمئن ہو کر گوشت کھایا جا سکے۔ آپ کو پتا تو ہے کہ لاہور میں گوشت کھاتے ہوئے ایسے ڈر لگتا ہے جیسے بھارت میں گوشت کھاتے ہوئے مسلمانوں کو لگتا ہے۔

”گزران ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
بھارتیوں کا ڈر اور ہے لاہوریوں کا ڈر اور ”

گوشت گھر دے کر باہر نکلا، راستے میں کچھ ہم جولی ملے ان کو دیکھ کر کرکٹ کھیلنے کی ترنگ آئی ان سے دریافت کیا کہ کرکٹ کھیلتے ہو، جواب ملا کہ بلا ہی ٹوٹ گیا ہے یوں میں بھی ٹوٹے دل کے ساتھ گھر آ گیا۔ گھر لوٹتے ہوئے سوچا کہ جو کتابیں ان پڑھی پڑی ہیں ان میں سے کوئی پڑھ لیتا ہوں تا کہ وقت گزارا جا سکے۔ گھر آ کر کتابیں دیکھیں تو کچھ چوری ہو چکی تھی اور جو باقی بچ گئی تھیں ان کے ساتھ چوہوں نے وہ سلوک کیا جو ہم نے اسلاف کے علم کے ساتھ کیا۔

اسلاف کی کتابوں کو یورپ میں دیکھ کر علامہ اقبال کا دل سیپارہ ہو گیا تھا اور یہاں کتابیں ہی پارہ پارہ ہوئی پڑی تھیں۔ خیر بے زبان چوہوں کو کیا مورد الزام ٹھہرانا غلطی میری ہی تھی جو کتابوں کو یوں کھلا چھوڑ گیا تھا۔ اب کی بار ایک صندوق خالی کروایا اور کتابوں کو اس میں یوں بند کر دیا جیسے مسلمانوں نے تحقیق و تدبر بند کر دیا ہے۔ گھر کے ادھورے کام نپٹانے پڑے۔ جس طرح غریب بندہ اپنے گھر میں اجنبی ہوتا ہے اسی طرح غریب بندہ اپنے گھر میں مزدور بھی ہوتا ہے۔ مجھے گھر کی خراب شدہ اشیا کو مرمت کے لیے لے جانا پڑا اور مرمت شدہ اشیا کو گھر لانا پڑا۔ کئی گھروں میں بیمار پرسی اور تعزیت کے لیے جانا پڑا۔

میں اپنے گاؤں لوٹا تو وہی منظر پرانا تھا
کئی لوگوں سے ملنا تھا، کئی قبروں پہ جانا تھا (ظفر نیازی)​

گاؤں کی میزبانی کا تو تمہیں پتا ہی ہے مہمانوں کو کھانے ایسے کھلاتے ہیں جیسے بھوک ہڑتال کے قیدیوں کو کھلایا جاتا ہے۔ خیر میں جتنے بھی گھروں میں گیا صرف ایک گھر سے اٹھتے ہوئے دل بوجھل ہوا کیوں کہ وہاں ایک حسین و جمیل پیکر انسانی بلکہ نسوانی کی صورت دل میں گڑ گئی تھی۔ میں نے وہاں سے اٹھتے ہوئے اس صنم کو دیکھتے ہوئے کہا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
گھر آ کر بھی دل افسردہ رہا اور فیض احمد فیض نے میرے جذبات کی ترجمانی کی
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
اپنے دوست کی اتنی روداد سننے کے بعد میں نے کہا
”اچھا چلتا ہوں دعاؤں میں یاد رکھنا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments