عمر شریف۔ جاتے جاتے رلا گیا!



عمر شریف بھی وہاں چلا گیا، جہاں ایک نہ ایک دن ہم سب کو جانا ہے۔

ایک بار پھر ثابت ہوا کہ موت کا ایک دن، ایک مقام اور ایک لمحہ مقرر ہے۔ انسان ہزار جتن کر لے، موت نے بہرحال ایک خاص لمحے، ایک خاص دن اور ایک خاص مقام پر اپنے شکار کو جا لینا ہے۔ عمر شریف، اپنی بیٹی کی موت سے پریشان، عرصے سے لاحق شوگر کی بیماری سے لڑ رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ گھریلو جھگڑوں نے ان کو بے سکون رکھا اور وہ شوگر کے ساتھ ساتھ عارضہ قلب میں بھی مبتلا ہو گئے۔ یہ دونوں بیماریاں، دوا دارو یا علاج معالجے سے کہیں زیادہ ذہنی سکون چاہتی ہیں جو انہیں میسر نہ ہوا۔

سو بیماریاں بڑھتی گئیں۔ ڈیڑھ دو ماہ قبل انہیں کراچی کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ میڈیا میں وقت کے بہت بڑے کامیڈین کی بگڑی ہوئی صحت کا ذکر آیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ عمر شریف کے موثر علاج کے لئے انہیں امریکہ منتقل کرنا پڑے گا۔ اہل خانہ اور میڈیا کی طرف سے آواز اٹھائے جانے کے بعد وفاقی حکومت متوجہ ہوئی۔ سندھ حکومت نے بھی تعاون کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ فضائی ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔ ابھی عمر شریف جرمنی ہی پہنچے تھے کہ طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔

وہیں حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ اپنے علاج کے لئے امریکہ پہنچ ہی نہ پائے۔ ہفتہ وار تعطیلات کی وجہ سے ان کی میت واپس وطن آنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ غالباً ایک آدھ دن میں ضابطے کی کارروائیاں مکمل ہو جائیں گی اور ان کا جسد خاکی پاکستان پہنچ کر اپنی مٹی میں ہمیشہ کے لئے سو جائے گا۔ زندگی بھر خوشیاں بانٹنے والا، جاتے جاتے اپنے کروڑوں پرستاروں کو رلا گیا۔

عمر شریف نے 66 برس کی زندگی پائی۔ تنگ دستی نے بچپن میں ہی ایک خاص راہ پر ڈال دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی حیثیت میں تقریباً پچاس سال سٹیج، فلم، ڈراموں اور ٹی۔ وی شوز سے وابستہ رہے۔ گزشتہ دو اڑھائی عشروں سے وہ کامیڈی کے بے تاج بادشاہ کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ خود سنجیدہ رہتے ہوئے لوگوں کو ہنسانا، ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لانا اور انہیں خوش کرنا، عمر شریف کی زندگی کا خاصہ بن گیا۔ پاکستان میں ہی نہیں، دنیا کے مختلف ممالک میں انہوں نے بیسیوں شوز کئے اور جہاں بھی گئے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ یہاں تک کہ عمر شریف اپنے فن میں یکتا اور بے مثال دکھائی دینے لگے۔

ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر غربت، پسماندگی اور پریشانیوں میں مبتلا معاشرہ ہے۔ ملک کی چالیس فی صد آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔ میں ان مسائل کا ذکر نہیں کرنا چاہتی جو آج کے پاکستانیوں کو درپیش ہیں، صرف ان کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو ہمیشہ سے درپیش ہیں۔ ان دائمی مسائل نے لوگوں کا ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ انہیں نفسیاتی مریض بنا کے رکھ دیا ہے۔ بعض افراد ان مسائل سے تنگ آ کر خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ اس صورتحال نے مجموعی طور پر قوم کو ہنسی، خوشی، تفریح اور سکون کے ذرائع سے محروم کر دیا ہے۔

ہم ایک جھگڑالو، چڑچڑی، بے صبری، کم حوصلہ اور فسادی قوم ہو گئے ہیں۔ پاکستان نے بعض ایسی حکومتیں بھی دیکھیں جنہوں نے فنون لطیفہ کی زبردست حوصلہ شکنی کی۔ فلم، ڈرامہ، سٹیج، موسیقی اور انسانوں کو ذہنی تفریح فراہم کرنے والے دیگر فنون ”گناہ“ سمجھے جانے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ، مزید گھٹن کا شکار ہو گیا۔ ہمارے رویوں میں عدم برداشت اور ایسے ہی دوسرے منفی احساسات نے جگہ پالی۔ غم بھلانے کے ذرائع ختم ہو گئے۔

عمر شریف ایک ایسے مشن سے وابستہ رہے جسے میں ایک مقدس مشن خیال کرتی ہوں۔ پریشان حال لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں لا کر کم از کم کچھ وقت کے لئے ہی سہی، انہیں اپنی پریشانیوں سے دور لے جانا یقیناً ایک مشن ہے۔ ہمارے دین میں بھی اسے ایک کار خیر قرار دیا گیا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے ”کسی بھی بھلائی کو حقیر نہ سمجھو چاہے وہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو“ ۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے ”تم لوگوں کے دل اپنی دولت سے ہرگز نہیں جیت سکتے، لوگوں کے دل جیتنے کے لئے تمہیں حسن اخلاق اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا“ ۔ ایک اور معروف حدیث ہے۔ فرمایا نبی کریم ﷺ نے کہ ”اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا بھی ایک صدقہ ہے“ ۔ ایک چینی کہاوت ہے۔ جو شخص مسکرانا نہیں جانتا اسے دکان نہیں کھولنی چاہیے۔

عمر شریف کی ساری زندگی یہ صدقہ دیتے گزری۔ وہ لوگوں کو ہنساتا رہا لیکن کسی کو خبر نہ تھی کہ اس کے اپنے دل پر کتنے زخم ہیں۔ ڈرامہ، موسیقی، سٹیج یا دیگر فنون لطیفہ انسان کی تسکین کا سبب ضرور بنتے ہیں لیکن کسی کو فن کار کے دل کی خبر نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے فن کار جس کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گئے وہ صرف حکومتوں یا متمول لوگوں کے لئے ہی باعث شرم نہیں، مجموعی طور پر پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

کہنے کو فن کاروں کی مالی امداد کے لئے فنڈز قائم ہیں۔ لیکن یہ انتہائی ناکافی ہیں۔ ان فنڈز کی تقسیم کا نظام بھی شفاف نہیں۔ اثر رسوخ رکھنے والے لوگ یہ وظائف لے جاتے ہیں لیکن اصل حقدار محروم رہتے ہیں۔ وظائف یا مالی امداد کی رقوم بھی نہایت ناکافی ہوتی ہیں۔ بڑے عرصے سے روایت یہ بن گئی ہے کہ جب کسی فن کار کی بیماری یا کسمپرسی کا واویلا میڈیا پر اٹھتا ہے، تو حکومت بھی حرکت میں آ جاتی ہے اور پھر اس کے لئے ائر ایمبولینس اور امریکہ میں علاج معالجے کا بندوبست بھی ہو جاتا ہے لیکن عمومی طور پر حکومت ان لوگوں کی حالت زار سے بے خبر رہتی ہے جو اپنی ساری زندگی کسی فن کی نذر کر دیتے اور بڑا نام پاتے ہیں۔ جب یہ لوگ بڑھاپے، بیماری یا کسی اور وجہ سے منظر سے غائب ہو جاتے ہیں تو ”آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل“ والی بات ہو جاتی ہے۔

فن کار ہمارا اثاثہ ہیں۔ ہمارا تہذیبی سرمایہ ہیں۔ ان کی دیکھ بھال حکومت پر فرض اور معاشرے پر بھی لازم ہے۔ کسی گور کنارے پہنچے فن کار کے لئے کروڑوں روپے وقف کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ ملک بھر کے فنکاروں کا ایک جامع ریکارڈ مرتب کریں۔ ان کے حالات پر نظر رکھنے کے لئے ایک خصوصی شعبہ قائم کریں اور انہیں وہ مقام دیں جو مہذب قومیں اپنے فن کاروں کو دیتی ہیں۔

عمر شریف زندگی بھر لوگوں کو خوش رکھنے پر کار بند رہے۔ اللہ ان کی روح کو بھی خوش و خرم رکھے۔ آمین۔
۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments