فیض حمید کا دور ختم، آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کون ہیں؟


پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ملک کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔

وہ اس عہدے پر تعیناتی سے قبل کراچی کے کور کمانڈر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ لیں گے جو تقریبا ڈھائی سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور اب انھیں پشاور میں 11ویں کور کا کمانڈر مقرر کیا گیا ہے۔

آئی ایس آئی کے نئے ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ بھی فوج میں اعلیٰ سطح کی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات کیا گیا ہے۔ اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کو کور کمانڈر گوجرانوالہ مقرر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید کو آئی ایس آئی کے نئے چیف کی جگہ کور کمانڈر کراچی جبکہ میجر جنرل عاصم ملک کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر ایڈجوٹینٹ جنرل مقرر کیا گیا ہے۔

آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کون ہیں؟

28 پنجاب رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹینٹ جنرل ندیم انجم فوج میں ایک سخت گیر اور خاموش طبع افسر کے طور پر مشہور رہے ہیں۔

ان کا تعلق 77ویں لانگ کورس سے ہے۔ انھوں نے بطور بریگیڈیئر فوجی آپریشنز کے دوران لنڈی کوتل میں بریگیڈ کمانڈ کی جبکہ وہ کراچی کور میں چیف آف سٹاف بھی تعینات رہ چکے ہیں۔

وہ رائل کالج آف ڈیفینس سٹڈیز سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ خیال رہے کہ جنرل پرویز مشرف اور جنرل راحیل شریف بھی اسی کالج کے فارغ التحصیل تھے۔

اس کورس کے بعد وہ بطور میجر جنرل انسپکٹر جنرل ایف سی بلوچستان نارتھ مقرر ہوئے اور وہیں لیفٹننٹ جنرل کے طور پر کچھ عرصہ کمانڈنٹ سٹاف کالج بھی رہے۔

کراچی میں فوج کے ہاتھوں آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے واقعے کے بعد انھیں لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز کی جگہ کراچی کا کور کمانڈر مقرر کیا گیا تھا۔

ڈی جی آئی ایس آئی کتنا طاقتور شخص ہے؟

مبصرین کے مطابق آئی ایس آئی سیاسی اور عسکری دونوں سطح پر کام کرتی ہے اور اپنا اِن پُٹ دیتی ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کے مطابق آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل اپنے ادارے کی حد تک بہت طاقتور ہوتا ہے۔

‘ڈی جی آئی ایس آئی اپنے ادارے کے اندر لوگوں کو رکھ سکتا ہے، نکال سکتا ہے، واپس فوج میں بھیج سکتا ہے، پوسٹ آؤٹ کر سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک ادارے سے باہر کا تعلق ہے تو آئی ایس آئی کے سربراہ کی طاقت کا انحصار ان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ساتھ تعلق پر ہے۔’

ان کے مطابق ‘وزیر اعظم انھیں عہدے سے ہٹا سکتے ہیں اور فوج کے اندر طاقتور تو فوج کا سربراہ ہی ہے’۔

فیض حمید

ISPR
لیفٹیننٹ جزل فیض حمید ماضی میں آئی ایس آئی میں ہی سی سیکشن کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں

آئی ایس آئی کے سابق چیف اور تنازعات

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے پیشرو اور بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا بطور آئی ایس آئی چیف دور مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے۔

حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد لیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے گزشتہ ماہ پانچ ستمبر کو کابل کا اچانک دورہ کیا تھا جس کی تصاویر اور ایک ویڈیو میڈیا پر وائرل ہوئیں۔

ان تصاویر اور ویڈیوز میں انھیں ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ تھامے کھڑے دیکھا جا سکتا ہے اور انھوں نے اس موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے ‘پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا’ کے الفاظ ادا کیے تھے۔

اس کے بعد بین الاقوامی خصوصاً انڈین میڈیا میں ان کے دورے کے متعلق قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ رواں برس اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف اپیل کے دوران عدالت میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں کہا تھا کہ جنرل فیض حمید ان کے گھر آئے اور ان سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نیب عدالت سے ملنے والی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کے بارے میں بھی دریافت کیا تو شوکت صدیقی نے انھیں جواب دیا کہ ‘جب آپ قانونی معاملے سے پوری طرح آگاہ ہیں تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟’

شوکت صدیقی کے جواب کے مطابق اس پر جنرل فیض نے کہا کہ ’اگر یہ اپیلیں آپ کے پاس زیر سماعت ہوتیں تو آپ کیا فیصلہ کرتے؟’ جس پر شوکت صدیقی نے جواب دیا کہ ‘بطور جج جو حلف لیا ہے اس کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا۔’

عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویز کے مطابق ’اس پر جنرل فیض حمید نے یکدم کہا اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔’

بدھ کو مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فیض حمید پر ایسے ہی الزامات عائد کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جنرل فیض حمید نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی ایسا بینچ نہ بنے جو 2018 کے الیکشن سے پہلے نواز شریف صاحب اور مریم نواز کو ضمانت دے۔ کیونکہ اگر ضمانت دے دی اور انتخابات سے پہلے مریم نواز اور نواز شریف باہر آ گئے تو میری تو دو سال کی محنت خراب ہو جائے گی۔‘

مریم نواز نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ جب وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتی تھیں تو نیب کے نمائندے صرف ڈمی بن کر بیٹھے رہتے تھے اور اس کی کارروائی ’ایک بریگیڈیئر چلاتا تھا جس کے پیچھے جنرل فیض حمید تھے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید یا فوج کی جانب سے ان الزامات پر براہِ راست کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

فیض آباد دھرنا

فیض حمید کا نام نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی تنظیم تحریکِ لبیک کے دھرنے کے دوران بھی سامنے آیا تھا۔ اس وقت وہ آئی ایس آئی میں ہی کاونٹر انٹیلجنس ونگ میں تعینات تھے

اس کے علاوہ 2019 میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد تین ووٹوں سے ناکام ہوئی تھی۔ اس ناکامی کا الزام اس وقت متحدہ اپوزیشن کے امیدوار میر حاصل بزنجو نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر لگایا تھا۔

انھیں اس بیان پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور عدالت سے نوٹس بھی بھیجا گیا۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے اس موقع پر بیان دیا تھا کہ ’حاصل بزنجو کی جانب سے ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ پر الزامات بےبنیاد ہیں اور معمولی سیاسی فوائد کی خاطر پورے جمہوری عمل کو بدنام کرنا جمہوریت کی خدمت نہیں‘۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اس سے قبل فیض حمید کا نام نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی تنظیم تحریکِ لبیک کے دھرنے کے دوران بھی سامنے آیا تھا۔ اس وقت وہ آئی ایس آئی میں ہی کاونٹر انٹیلجنس ونگ میں تعینات تھے۔

اس تنظیم اور حکومت کے درمیان چھ نکات پر مشتمل معاہدے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ معاہدہ کرنے میں اس وقت میجر جنرل کے عہدے پر کام کرنے والے فوجی افسر فیض حمید کی مدد شامل رہی۔

اسی دھرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں وزارت دفاع کے توسط سے آرمی چیف سمیت افواج پاکستان کے سربراہان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے ‘اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی ہے۔’

بعد میں وزارت دفاع نے اس فیصلے میں لکھے الفاظ واپس لینے اور فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments