پینڈورا پیپرز: بحیرہِ کیریبین میں برطانیہ کا خطہ برٹش ورجِن آئی لینڈز، ٹیکس بچانے کی دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہ


Paisaje playero de las Islas Vírgenes Británicas.
دی برٹش ورجِن آئی لینڈز ٹیکس بچانے کی ایک قدرتی محفوظ بناہ گاہ ہے
برٹش ورجن آئی لینڈز (بی وی آئی) کی آبادی فقط 36 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، لیکن اس میں چار لاکھ کاروباری کمپنیاں موجود ہیں۔ یعنی اوسطاً 18 کمپنیاں فی شخص۔

یہاں موجود لاکھوں کمپنیوں سے عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ یہ چھوٹا سا برطانوی خطہ، جو بمشکل 153 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، فلک بوس عمارتوں اور دھواں چھوڑتی ہوئی فیکٹریوں سے بھرا ہوا ہو گا اور اس میں معاشی سرگرمیوں کا ایک بڑا جال بچھا ہو گا۔

مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

اس کے بجائے یہاں خوبصورت ساحل اور محض کاغذات پر درج کاروباری کمپنیاں چل رہی ہیں۔ اور یہ ہیں وہ بی وی آئی جزائر جنھیں ٹیکس چھپانے یا بچانے کا کرہ ارض کا سب سے بڑا ٹھکانہ سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے صحافی ول فٹزگبن کہتے ہیں کہ یہ جزائر دنیا بھر سے ’قانونی کمپنیوں، مشہور شخصیات، ارب پتی افراد اور مجرموں کو یکساں طور پر اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔‘

یہی وجہ ہے کہ جب بھی ٹیکس بچانے کا کوئی بھی بین الاقوامی سکینڈل سامنے آتا ہے تو ٹیکس کی محفوظ ترین پناہ گاہ ’برٹش ورجن آئی لینڈ‘ کا نام سرخیوں میں آتا ہے۔

آئی سی آئی جے کی جانب سے شائع ہونے والی مالیاتی معلومات کے حالیہ لیک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے، جسے ’پینڈورا پیپرز‘ کہا جا رہا ہے۔

یہ تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ دستاویزات کا لیک ہونا ہے جو دنیا کے چند امیر ترین اور طاقتور لوگوں کی خفیہ دولت، ٹیکس چوری اور بعض صورتوں میں منی لانڈرنگ کو افشا کرتی ہے۔

یہ ڈیٹا آئی سی آئی جے نے حاصل کیا ہے جو بی بی سی کی پینوراما پروگرام کی ٹیم سمیت 140 سے زائد میڈیا تنظیموں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ مہینوں سے، 117 ممالک میں 600 سے زائد صحافی اس ہفتے شائع ہونے والی رپورٹوں کے لیے 14 مختلف ذرائع کے آرکائیوز کا گہرا مطالعہ کر تے رہے ہیں۔

اس موقع پر برٹش ورجن آئی لینڈز سے متعلق کہانیوں میں سے ایک وہاں رجسٹرڈ ایسی کمپنی کا بھی ذکر آتا ہے جو آج کے روس میں سوویت دور کے پرانے سینما گھروں پر مشتمل کئی کروڑ ڈالر کی جائیدادوں کو مسمار کر کے ان کی جگہ جدید شاپنگ مالز تعمیر کرنے کے آپریشن سے بہت زیادہ مالی فائدہ اٹھا رہی ہے۔

‘آئی سٹوریز’ نے جو ایک روسی تحقیقاتی صحافت کا حصہ جس نے پینڈورا پیپرز کی تحقیقات میں حصہ لیا، دریافت کیا کہ اس کمپنی کے پیچھے روس کے سب سے بڑے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کے صدر کونسٹنٹین ارنسٹ ہیں۔

Konstantin Ernst.

روس کے سب سے بڑے ٹیلیویژن چینل کے سربراہ، کونسٹنٹین ارنسٹ کا ذکر بھی پینڈورا پیپرز میں آیا ہے

ارنسٹ نے اس کمپنی کو سنہ 2014 میں رجسٹر کروایا، اسی سال وہ سوچی شہر میں منعقد ہونے والی سرمائی اولمپکس کی افتتاحی اور اختتامی تقریبات کے انعقاد کے انچارج تھے۔

آئی سی آئی جے کو اپنے جواب میں ارنسٹ نے کہا کہ اس نے کسی غیر قانونی چیز کا ارتکاب نہیں کیا (اور نہ ہی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے) کیونکہ ‘اس کے والدین نے اس کی پرورش ہی ایسی کی ہے (کہ وہ غیر قانونی حرکت کر ہی نہیں سکتا ہے)۔’

بحری قزاقی سے ٹیکس کی محفوظ پناہ گاہ تک

مشرقی کیریبین میں واقع برٹش ورجن جزائر چار بڑے جزیروں اور 32 چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل علاقے کا نام ہے، جن میں سے تقریباً بیس جزائر غیر آباد ہیں۔

انھیں کرسٹوفر کولمبس نے سنہ 1493 میں دریافت کیا تھا۔ یہ جزیرے 16 ویں صدی میں ہسپانوی سلطنت کے قبضے میں تھے جن کے کنٹرول میں وہ تھوڑے وقت کے لیے رہے تھے۔ سنہ 1648 تک، ٹورٹولا نامی جزیرہ ان جزیروں میں سب سے بڑا تھا، جو ہالینڈ کے بحری قزاقوں کے قبضے میں ہوتا تھا۔

چند دہائیوں کے بعد یہ جزائر برطانوی سلطنت کے کنٹرول میں آگئے، جس نے سنہ 1773 میں وہاں ایک مقامی سول حکومت تشکیل دی، جزوی طور پر منتخب قانون ساز کونسل کی تشکیل اور آئینی عدالتوں کے قیام کی اجازت دی۔

سنہ 1960 میں یہ جزائر ایک کراؤن کالونی (ملکہ کا محکوم خطہ) اور سنہ 2002 میں ایک برٹش اوورسیز ٹیرٹری (بیرونِ ملک برطانوی خطہ) بن گئے۔ اس طرح ان کے باشندے برطانوی شہری بن گئے۔

Sir Francis Drake

ملّاح اور مہم جو، سر فرانسِس ڈریک کا بی وی آئی سے ایک تاریخی تعلق بنتا ہے

نجی مہم جو اور ملّاح سر فرانسس ڈریک برٹش ورجن آئی لینڈز سے منسلک تاریخی شخصیات میں سے ایک ہیں۔

برٹش ورجن آئیلینڈز نے سنہ 1970 کی دہائی میں قانون سازی شروع کی جس نے اس خطے کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکس کی محفوظ پناہ گاہ بنا دیا۔

عالمی سرمایہ کاروں کے اس خطے کی جانب راغب ہونے میں ایک اہم بات اس کے ٹیکس کے نظام میں پوشیدہ ہے۔

برطانوی این جی او ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ ‘بی وی آئی جزائر پر تقریباً کوئی ٹیکس نہیں ہے: ان کا کوئی موثر انکم ٹیکس نہیں ہے، کوئی کیپٹل گین ٹیکس نہیں، وراثت ٹیکس نہیں، کوئی گفٹ ٹیکس نہیں، کوئی سیلز یا ویلیو ایڈڈ ٹیکس نہیں ہے۔’

اسی این جی او کا مزید کہنا ہے کہ ‘یہ بنیادی طور پر اجرت، زمین کی ملکیت کے ساتھ ساتھ کاروبار پر مختلف کمیشنوں پر ٹیکس کے ذریعے آمدنی جمع کرتا ہے۔ یہ ٹیکس بچانے کی ایک کلاسیک محفوظ پناہ گاہ کی مثال ہے جہاں بڑے بڑے کاروباروں پر معمولی سے ٹیکس سے آمدن حاصل ہوتی ہے اور باقی ضروری اخراجات کے لیے آمدن مقامی لوگوں سے وصول کی جاتی ہے۔’

سرمایہ کاروں کے لیے ان کی دوسری بڑی کشش ان سہولیات میں ہے جو وہ سستی اور سادہ کاغذی کمپنیاں بنانے کے لیے پیش کرتے ہیں جو ان کے مالکان کو اپنے نام اپنے عوام کی نظروں سے خفیہ رکھنے کا اچھا موقع فراہم کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے

پینڈورا پیپرز: دنیا بھر میں طاقتور لیڈروں سے متعلق انکشافات کی رپورٹنگ کیسے کی گئی؟

پینڈورا پیپرز میں شامل پاکستانیوں سے جواب طلبی کے لیے خصوصی سیل قائم

پینڈورا پیپرز: سچن ٹنڈولکر اور انیل امبانی کے نام بھی شامل

بہت سی درست وجوہات بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کی جائیدادوں، دولت یا ان کی سرمایہ کاریوں کے بارے دوسروں کو علم نہ ہو۔ یا دیگر الفاظ میں بعض اوقات کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کو علم ہو کہ وہ کسی سرمایہ کاری کا مالک ہے، یہی وجہ ہے کہ دولت کو خفیہ رکھنے کی صوابدید کی یہ سہولت جائز اور ناجائز دونوں قسم کے سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ہے۔

جرمنی سے بھی زیادہ ‘غیر ملکی سرمایہ کاری’

سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی یہ سکیم کافی منافع بخش رہی ہے۔ اس قسم کی مالیاتی اور کارپوریٹ خدمات سے حاصل ہونے والی آمدن ملک کے کل بجٹ کا نصف حصہ ہے۔ اس کے علاوہ برٹش ورجن آئی لینڈز میں آمدن کا دوسرا بڑا ذریعہ سیاحت ہے۔

اقوام متحدہ کی تجارتی اور ترقیاتی کانفرنس (UNCTAD) کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ 2019 میں برٹش ورجن آئی لینڈز نے تقریباً ستاون ارب نو سو ننانوے کروڑ اور ستر لاکھ امریکی ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی۔

El príncipe Carlos de Gales durante una visita a las Islas Vírgenes Británicas en 2017.

برٹش ورجن آئی لینڈ کے عوام برطانوی ملکہ کی رعایا ہیں

برٹش ورجن آئی لینڈ کے شہری برطانوی ملکہ کی رعایا ہیں۔

رسمی طور پر آمدن کی یہ رقم انھیں کینیڈا، جرمنی اور فرانس جیسی ترقی یافتہ معیشتوں سے بہتر بنا دیتی ہے۔ تاہم، چونکہ ان جزائر میں یہ سرمایہ کاری محظ کاغذات میں ہوتی ہے اس لیے اس ملک پر اس سرمایہ کاری کے حقیقی اثرات بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔

پنڈورا پیپرز میں بی وی آئی جزائر کی ظاہری حالت واقعی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ سنہ 2016 میں موساک فونسیکا قانون فرم کی جانب سے قائم کی گئی اور پانامہ پیپرز میں ظاہر ہونے والی تقریباً ڈھائی لاکھ آف شور کمپنیوں میں سے نصف اس خطے میں رجسٹرڈ تھیں۔

سنہ 2018 میں، بی بی سی کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ برٹش ورجن آئی لینڈز میں رجسٹر ہونے والی کمپنیاں انگلینڈ اور ویلز میں غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت کی ایک چوتھائی جائیداد کی مالک ہیں۔

بی بی سی نے کہا تھا کہ ‘کیریبین جزائر اُن کمپنیوں کا ہیڈکوارٹر ہے جو تئیس ہزار قیمتی جائیدادوں کی مالک ہیں، جو کسی بھی ملک سے زیادہ تعداد کی جائیدادیں ہیں۔’

ماضی میں مختلف مالی سکینڈلز میں برٹِش ورجن آئی لینڈز کا نام آنے سے مشہور برطانوی سیاستدان لارڈ اوکیشوٹ کو سنہ 2013 میں یہ کہنا پڑا تھا کہ ان خطوں نے ‘برطانیہ کا چہرہ داغ دار کر دیا ہے۔’

ان سکینڈلز کی وجہ سے حالیہ برسوں میں شفافیت کے طریقہ کار میں بہتری آئی ہے اور ٹیکس چوری کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ان علاقوں کے حکام نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون بڑھا دیا ہے۔

تاہم ان آف شور کمپنیوں کے مالکان کے بارے میں معلومات کو عوامی رسائی سے دور رکھنے کی سہولت بہت ساری بے قاعدگیوں کا سبب بنتی ہے۔

برطانوی این جی او ٹیکس جسٹس نیٹ ورک برٹِش ورجن آئی لینڈ کی اس پالیسی پر تنقید کرتی ہے جب وہ کاروباری رجسٹریشن کی سہولت دیتے وقت غیر ملکی کمپنیوں سے نہ کوئی سوال کرتے ہیں اور نہ ان میں کوئی برائی دیکھتے ہیں۔ برٹِش ورجن آئی لینڈز کی یہ پالیسی ان کمپنیوں کے مالکان کو مزید رازداری کے لیے ایک قسم کی کسی پراکسی کے پیچھے چھپنے کی اجازت دیتی ہے اور پھر اس ملک میں ایسی کمپنیاں بنانا انتہائی آسان اور کم قیمت بن جاتا ہے۔

ٹیکس جسٹس نیٹ ورک این جی او کا کہنا ہے کہ ‘آف شور کمپنیوں کے رجسٹر کیے جانے کے عمل میں یہ ظاہری زبردست تیزی برٹش ورجن آئی لینڈز کو دنیا بھر میں ہر قسم کی بدعنوانیوں اور جرائم کو چھپانے اور سہل کرنے میں مدد دیتی ہے۔’

ان تمام چیزوں کے باوجود، برٹش ورجن آئی لینڈز کے حکام کے دوسرے ممالک کے حکام کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے کیریبین کے جزائر پر مشتمل اس چھوٹے سے خطے کو ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ‘او ای سی ڈی’ کی اُس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے جو ‘عدم تعاون’ کی وجہ سے ٹیکس بچانے کی محفوظ پناہ گاہوں کے ممالک پر مشتمل ہوتی ہے۔

یقینا اس کا یہ مطلب نہیں کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ٹیکس کی محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کی پالیسیوں کا ٹیکس چوری پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کے اندازوں کے مطابق، برٹش ورجن آئی لینڈز عالمی سطح پر ہر سال تقریباً ساڑھے سینتیس ارب ڈالر کے برابر ٹیکس کے نقصان کے ذمہ دار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments