پینڈورا سے فیک نیوز تک


پاناما پیپرز کے بعد ایک دفعہ پھر پوری دنیا میں ہلچل سی مچ گئی ہے کیونکہ اس دفعہ بین الاقوامی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے نے ”پینڈورا پیپرز“ کے نام پر نئے انکشافات کیے ہیں جس میں تقریباً سات سو پاکستانی ایسے ہیں جنہوں نے ملک سے باہر آف شور کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں۔ ماضی میں حکمران جماعت نے جب پاناما پیپرز پر ہنگامہ برپا کیا تو اس وقت ان کا ایک ہی مطالبہ ہوا کرتا تھا کہ وزیراعظم مستعفی ہو؛ جب تک وزیراعظم استعفٰی نہیں دیتا تو اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔

اس کے علاوہ جب بھی ملک میں کوئی حادثہ رونما ہوتا تو ان کی تواتر کے ساتھ ایک ہی گردان میڈیا پر چل رہی ہوتی تھی کہ جب تک متعلقہ محکمے کا وزیر استعفٰی نہیں دیتا تو اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔ یہ وہ بیانات اور مطالبات تھے جو وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھ کر حکمران جماعت سے کیا کرتے تھے لیکن جب عمران خان صاحب اقتدار ہو گئے تو ہم نے دیکھا کہ وہ کس طریقے سے ایک ایک کر کے اپنے کیے گئے وعدوں سے پیچھے ہٹتے چلے گئے۔

عمران خان کو اپنی ماضی کی محرکات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بار بھی پینڈورا پیپرز کا معاملہ عدالت میں لے کر جانا چاہیے تھا کیونکہ اس بار ان کی ساری کابینہ پینڈورا پیپرز میں نامزد ہو چکی ہے بجائے اس کے کہ عمران خان کچھ ایسا قدم اٹھاتے انہوں نے نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن پر مشتمل ارکان کا ایک کمیشن بنا کر ہی بہتر سمجھا اور معاملات کو نارمل کرنے کی کوشش کی تاکہ گھر کی بات گھر تک ہی رہے لیکن اس کے برعکس اگر عمران خان یہ کیس ٹیسٹ میچ کے طور پر عدالت میں لے کر جاتے تو بظاہر ان کے اتحادی ان سے ناراض ہو جاتے، حکومت ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے اور آئے روز نت نئے مطالبات پیش کرتے، جس طرح گزشتہ چند مہینوں میں جہانگیر ترین کے ہم خیال پارٹی رہنماؤں نے مطالبات پیش کیے تھے۔

پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے جماعت اسلامی کی طرف سے پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نون جو پنجاب میں سب سے زیادہ مقبول ترین جماعت ہے اس نے بھی میڈیا کی حد تک بیانات جاری کیے ہیں بظاہر وہ اس پینڈورا پیپرز کے انکشافات پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح سپریم کورٹ نے پانامہ کی بجائے اقامہ پر نواز شریف کو نا اہل کیا تھا تو ہم مزید اس ملک میں ایسا تماشا نہیں لگانا چاہتے جس سے پاکستانی قوم کا دھیان مہنگائی اور بیروزگاری سے ہٹ کر دوسری طرف ہو کیونکہ موجودہ حکومت کو پورے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کا جس طرح سے سامنا ہے تو اس سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ شاید وہ آئندہ انتخابات میں ہمیں حکومتی بینچوں پر نظر نہ آئیں۔

عمران خان کی حکومت کو جتنا نقصان وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور ان کے مشیر شہباز گل نے اپنی زبان اور اپنے گھسے پٹے بیانات سے پہنچایا ہے تو شاید ہی تاریخ میں ہمیں ایسے کوئی وزیر، مشیر دیکھنے کو ملے ہوں جو اپنے ہی وزیراعظم کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہوں۔ فواد چوہدری نے سب سے پہلے فیک نیوز کے نام پر صحافی برادری کی زبان بندی کے لیے قانون لانے کی باتیں کیں جس سے پورے ملک کی صحافتی تنظیمیں اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آ گئیں اور وزیراعظم عمران خان کو ان کے صحافیوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی بھی یاد دہانی کروائی جبکہ دوسری طرف وہ اپنے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے بیان میں فیک نیوز کو پرموٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ”پینڈورا پیپرز میں مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر کی پانچ آف شور کمپنیاں منظر عام پر آئی ہیں۔“

جب اس نیوز کے بارے میں آئی سی آئی جے سے کنفرم کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی خبر ہم نے بریک نہیں کی اور نہ ہی ہمیں مریم نواز شریف کے صاحبزادے کے خلاف کوئی ثبوت ملا ہے بلکہ وزیر اطلاعات فیک نیوز پھیلا رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات کے بعد پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی نیوز نے اپنی ہیڈ لائن میں مریم نواز شریف کے بیٹے کے خلاف خبر چلائی بلکہ اس کے بعد رفتہ رفتہ شہباز گل اور نجی ٹی وی چینلوں نے بھی اس خبر کو پھیلانے میں پہل کی۔

ایک نجی ٹی وی چینل کی اینکر نے شہباز گل سے یہاں تک مطالبہ کر دیا تھا کہ یہ خبر ہم آپ کے اوپر اور پی ٹی وی نیوز کے اوپر اعتماد کرتے ہوئے چلا رہے ہیں لہذا آپ ہماری لاج رکھ لیجیے گا لیکن جیسے ہی مریم نواز شریف نے اس جعلی اور من گھڑت خبروں کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا تو سارے ٹی وی چینلز اپنی خبروں سے پیچھے ہٹنے لگے۔ مجھے انتہائی شرمندگی ہوتی ہے کہ کیا یہ وزراء فیک نیوز کے خلاف اسمبلی میں بل لے کر آئیں گے؟ یہ تو خود جعلی خبریں پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ جب پاکستان کا سرکاری ٹیلی ویژن ہی جھوٹی اور جعلی خبروں کا مرکز بن جائے تو صحافتی تنظیموں سے شکوے کس چیز کے ہو رہے تھے۔ آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں وہ نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ یہ حکومت ایک آرڈیننس کی آڑ میں صحافیوں کی زبان بندی کروانا چاہتی تھی، یہ حکومت صحافیوں سے اپنی من مانی کی رپورٹنگ کروانا چاہتی تھی جسے صحافی برادری کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اپنی فورس کے ساتھ اس بل کے خلاف میدان میں جدوجہد کی اور یہ جدوجہد تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔

آج پاکستان پوری دنیا میں تنہائی کا شکار ہے، کوئی بھی غیر ملکی سربراہ پاکستانی حکومت پر اعتماد کا اظہار کرنے کو تیار نہیں اور حکومت اس بات کا غصہ صحافیوں پر پابندیاں لگا کر نکالنا چاہتی ہے لیکن یاد رکھیں! صحافی برادری نے آمرانہ ادوار میں بھی اپنی جدوجہد کو جاری رکھا تھا اور آج بھی اسی توانائی کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھی ہوئی ہے اور ان کے خلاف کی گئی ہر سازش دم گھٹنے کے ساتھ ہی اپنی موت آپ مر جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments