پاکستان کی سکیورٹی صورتحال


افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد جنوبی ایشیاء کی سکیورٹی صورتحال یکسر مختلف ہو گئی ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد چین نے اپنے پنجے افغانستان میں جمانا شروع کر دیے ہیں اور اس کا ثبوت چائنا کی حکومت کے طالبان کی قیادت کے ساتھ بیجنگ میں کیے گئے مذاکرات ہیں۔

اسی مذاکرات کی خبروں کے نتیجے میں امریکہ نے چین کے خلاف ایک بلاک بنانے کا فیصلہ کیا جس کا اہم رکن بھارت ہو گا۔ بھارت چونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف ہے اور پنجشیر میں احمد مسعود کی خفیہ طور پر مدد بھی کرتا رہا ہے اور لداخ کے بارڈر پر چین اور بھارت کی فوجیں کافی بار ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی رہی ہیں تو ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد امریکہ نے بھارت کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے سرحدی علاقوں اور خصوصاً بلوچستان میں امن وامان کو تباہ کرنے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ گوادر میں ایف سی اہلکاروں پر جان لیوا حملے ہوں یا پھر کوئٹہ کا سریاب روڈ ہو، ہر طرف دشمن عناصر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں گوادر میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بنائے گئے مجسمے کو ایک خودکش دھماکے کی صورت میں تباہ کر دیا گیا، جس کے بعد پاکستانی قوم کے دل میں کافی غم و غصہ دیکھنے کو ملا۔

اس حملے سے دشمن نے پاکستانی قوم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ہم کبھی بھی اور کسی وقت بھی بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی حملے کے فوراً بعد اگلے دن دہشتگردوں کی طرف سے ایک دفعہ پھر ایف سی سکیورٹی اہلکاروں کے اوپر حملہ کیا گیا اور اس خودکش حملے کے نتیجے میں متعدد ایف سی جوان اس مٹی کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کر گئے۔ ایف سی سکیورٹی فورسز بلوچستان میں چائنیز حکام کی سکیورٹی پر مامور ہونے کے علاوہ صوبہ بلوچستان کی سرحدوں کی حفاظت پر بھی مامور ہیں۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کو تقویت دینے کے لیے بھارت اور ایران اپنے ناپاک عزائم کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے کے در پر ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان تمام دہشتگردانہ واقعات کے پیچھے اگر ہم ایران کے سازشی نظریات کو پرکھیں تو بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ایران ہی وہ ملک ہے جو انڈیا کو پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اپنی سر زمین مہیا کرتا ہے۔ کلبھوشن یادیو کا کیس ہو یا دہشتگردوں کی نقل و حمل کا مسئلہ ہو، ایران نے ہمیشہ بھارت کو ایک پل کا سہارا دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں جو سکیورٹی فورسز پر حملے کیے گئے ہیں ان میں سے متعدد حملہ آور ایران کے رستے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ چند مہینے پہلے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے کوئٹہ میں متعدد سکولوں کو سیل کیا اور وہاں پر پڑھایا جانے والا لٹریچر اپنے قبضے میں لیا، وہ سکول پاکستان مخالف کارروائیوں کو فروغ دینے کے لیے بنائے گئے تھے اور ان کو تمام فنڈنگ ایران سے مل رہی تھی۔

پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کی سرحد کو بھی محفوظ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دشمن کا وار ہر طرف سے ناکام ہو اور بلوچستان میں ترقی ہوتی ہوئی نظر آئے اور سی پیک کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا جا سکے۔ پاکستان زندہ باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments