ماحولیاتی تبدیلیوں کے کرہ ارض پہ سنگین اثرات


ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دنیا مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔ وقت کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا بحران جنم لیتا ہے جس سے کچھ عرصہ تک دنیا مفلوج ہوجاتی ہے۔ اکثر ممالک میں جمہوریت زوال کا شکار ہے۔ دنیا میں نئے اتحاد بن رہے ہیں جبکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے امریکہ خوفزدہ ہے۔ امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ ایک بڑھتا ہوا چین ان کے تسلط کو خطرہ کے لئے خطرہ بن چکا ہے، بڑے ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی بین الاقوامی کشیدگی ایک تباہ کن جنگ کے خطرے کو بڑھا رہی ہے، لیکن ایک بڑا خطرہ جس کے بارے میں ہم مسلسل سنتے رہتے ہیں اور شاید اس صدی کا سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا وہ ہے ”ماحولیاتی تبدیلیاں“ ۔

ہمارے ملک میں عام آدمی کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے درپیش سنگینی کا اندازہ نہیں ہے اور یہ شاید ہماری حکومتیں اور میڈیا بھی اس حوالے سے آنکھیں بند کیے ہوئے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہی ہیں جتنا بڑا خطرہ ہمیں درپیش ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لئے ہمیں زیادہ توجہ، وسائل اور مضبوط معیشت کی ضرورت پڑے گی۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کا موسم بہت تیزی سے بدل ہو رہا ہے اور اس کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔

اگلے پچاس سے سو سال میں دنیا کے کئی شہر یہاں تک کہ ملک گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندر کے نیچے چلے جائیں گے۔ اگر انسان نے اپنی زندگی گزارنے کے طور طریقے نہیں بدلے تو آنے والے سالوں میں خشک سالی، خوراک کی کمی اور درجہ حرارت بڑھنے کے وجہ سے انسانیت تباہی کا شکار ہونا شروع ہو جائے گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہی سے بچنے کے لئے دنیا کے تمام ممالک کو ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کسی ملک کا انفرادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

فضاء میں اکیاون بلین ٹن کی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کیا جا رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسیں سورج کی شعاعوں کو زمین پہ آنے سے روکتی ہیں۔ اب کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا میں موجود مقدار 410 پارٹیکلز فی ملین سے تجاوز کر گئی ہے جو 8 لاکھ سالوں میں بلند ترین سطح ہے۔ اس وقت زمین کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ متفقہ سائنسی تخمینہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں اضافہ جہاں تک خطرناک موسمیاتی تبدیلی سے بچا جا سکے گا وہ دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہے کرہ ارض اس کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔ انسانوں کے پاس ابھی بھی 20 سال باقی ہیں اس سے پہلے کہ اس حد کو کم کرنا بنیادی ضرورت بن جائے۔ لیکن انسان نے زمینی ماحول کو اس قدر نقصان پہنچا دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو اب صرف روکا جاسکتا ہے لیکن واپس نہیں موڑا جاسکتا۔

ہماری کہکشاں میں موجود سیاروں میں زمین وہ واحد سیارہ ہے جس پر انسانی زندگی موجود ہے اب تک لاکھوں کوششوں کے باوجود ایسا کوئی سیارہ دریافت نہیں کرسکے ہیں جس پہ انسان اپنی زندگی گزار سکیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ عنقریب یہ سیارہ بھی ہم سے چھین لیا جائے گا تو ہر کوئی پریشان ہو گا اور شاید ایسا سوچیں گے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ لاکھوں سالوں سے یہاں زندگی موجود یہ جس کو کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں واضح طور پہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ زمین زیادہ دیر تک انسانوں کے لئے سازگار نہیں رہے گی کیونکہ اس میں ایک ایسی تبدیلی آ رہی ہے جو انسانوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگی اگر یہ خطرہ حقیقت بن گیا تو یہ کورونا وائرس اور ایٹمی جنگ سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہو گا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے شائع کی جانے والی اس رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کو انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جس کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں گرین ہاؤس گیسوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے جو کہ پوری دنیا میں درجہ حرارت میں ہوش ربا اضافے کی وجہ بن رہی ہیں اور اسی درجہ حرارت کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت ہی جہاں خشکی ہے وہاں بارشیں جبکہ جہاں بارشیں تھیں وہاں خشکی آ رہی ہے اسی طرح کچھ علاقوں میں قحط جبکہ کہیں شدید سیلاب آسکتے ہیں۔

لیکن موسمیاتی تبدیلی کا مطلب صرف گرمی اور سردی کا بڑھ جانا نہیں ہے۔ حشرات سے لے کر جنگلات تک، پانی سے لے کر حرارت تک اور چیونٹی سے لے کر دوسری مخلوق تک تک موسمیاتی تغیرات کی زد میں ہیں اور اگر مزید ایسے ہی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 2030 تک جاری رہا تو یہ سب کچھ صفحہ ہستی سے مٹ بھی سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگ جائے گی جس کی وجہ سے کروڑوں پرندے مارے جائیں گے اور پھر ان جنگلات سے اٹھنے والا دھواں شدید گرمی کا باعث بنے گا صرف یہی نہیں بلکہ اس دھوئیں کی وجہ سے سینکڑوں بیماریاں جنم لیں گی جن میں کینسر سر فہرست ہو گا اور اسی کینسر کی وجہ سے لاکھوں لوگوں لقمہ اجل بن جائیں گے۔ کچھ عرصہ میں آسٹریلیا اور ترکی کے جنگلات میں بھڑکنے والی بھیانک آگ جس کے نتیجے میں دنیا کو اس آگ سے اٹھنے والے مضر صحت دھوئیں اور جان لیوا خطرات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، اسی طرح بعض ممالک میں آنے والے شدید سیلاب اسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگر ماحول میں تبدیلی کی اثرات مزید بگڑ گئے تو نہ صرف خوراک کی قلت ہوگی بلکہ پانی، آب و ہوا اور مزید چیزیں جو انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں وہ بھی بتدریج ختم ہوتی جائیں گی اور یہ تمام تر صورتحال ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوگی جس کے اثرات تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں سمندر کی سطح دو میٹر تک بلند ہو سکتی ہے اور اگر حقیقت میں ایسا ہو گیا تو کچھ سالوں تک اٹھارہ کروڑ افراد مکمل طور پر بے گھر ہوجائیں گے جبکہ کروڑوں لوگ اس کی زد میں آ کر شدید نقصان کا شکار ہوں گے اور اگر اس صورتحال کے بعد بھی قابو نہ پایا گیا تو فرانس، جرمنی، سپین اور برطانیہ کے رقبے جتنی زمین سمندر برد ہو جائے گی اور بے شمار ایسے شہر غرق ہوجائیں گے جو سمندر کے کنارے آباد ہیں۔

مستقبل میں ماحول اس قدر تبدیل ہو جائے گا کہ ہر جانب قیامت خیز گرمی ہوگی جبکہ سردی کی لہر میں شدید کمی آ جائے گی اور اس طرح ہزاروں ایسے جاندار جن کا دار و مدار سردی پہ ہے وہ آہستہ آہستہ اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔ ماہرین کے مطابق زمین کے باسیوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایک تحقیق کے مطابق اس صدی کے اختتام تک دنیا بھر کے پچانوے فیصد غذا کاشت کرنے والے علاقے اس حد تک متاثر ہوں گے کہ ان میں بعض کی پیداوار تیزی سے گر جائے گی یا وہ علاقے مکمل طور پر بنجر ہوجائیں گے۔

سائنسدانوں کے مطابق اگر درجہ حرارت اس تیزی سے بڑھتا رہا تو اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے سمندر کے پانی میں موجود آکسیجن کی مقدار کم ہو جائے گی جس کے منفی اثرات آبی حیات پر ہوں گے اور لاکھوں مچھلیاں اور آبی مخلوق مردہ ہوجائیں گی اور یہ ایسی تبدیلی ہوگی جس سے پلٹنے میں صدیاں بلکہ کئی ہزار سال لگ جائیں گے۔ اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں پہ قابو نہ پایا گیا کرہ ارض کو تیسری عالمی جنگ سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا اور شاید یہی اس سیارے کی تباہی کا باعث بھی بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments