افغانستان میں طالبان منظم انداز میں ہزارہ برادری کے افراد کو ’بے گھر‘ کر رہے ہیں


افغان طالبان
اس خوف میں اضافہ ہوا کہ طالبان ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ملک کی شیعہ ہزارہ اقلیت کو نشانہ بنانے جا رہے ہیں
بی بی سی کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان منظم انداز میں ہزارہ اقلیت کے سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کر رہے ہیں۔

تحقیق کے مطابق گذشتہ ماہ کے اوائل سے اب تک وسطیٰ افغانستان کے صوبے دایکندی کے مخلتف علاقوں سے 22 سو سے زیادہ افراد کو اُن کے گھروں سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگ یہاں غیرقانونی طور پر رہ رہے تھے، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے ان خاندانوں کے پاس زمین کی ملکیت کے دستاویزات موجود تھیں۔

کہا جا رہا ہے کہ بے دخلی کی اس مہم کے نتیجے میں اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

مختلف مقامات سے زبردستی انخلا کے بعد اس خوف میں اضافہ ہوا کہ طالبان ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ملک کی شیعہ ہزارہ اقلیت کو نشانہ بنانے جا رہے ہیں۔

گذشتہ روز انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا تھا کہ انھیں بھی اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ اگست میں طالبان نے دیکندی میں ایک نوجوان لڑکی سمیت 11 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

افغان فوج کیوں اتنی جلدی پسپا ہوئی؟

’پاکستان کی افغان فوج کی تنظیمِ نو میں مدد کی مشروط پیشکش‘

افغانستان میں جنگ سے سب سے زیادہ پیسہ کمانے والی امریکی کمپنیاں

افغانستان میں پھانسی اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزائیں دوبارہ دی جائیں گی: طالبان

تنظیم کے مطابق ان میں نو افراد سابقہ حکومت میں فوج کے اہلکار تھے جنھوں نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اُن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ہزارہ اقلیت کا یہ قتل عام جنگی جرائم کے مترادف ہو سکتا ہے۔

طالبان

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ہزارہ اقلیت کا یہ قتل عام جنگی جرائم کے مترادف ہو سکتا ہے

لیکن طالبان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ نے ’یک طرفہ‘ کہانی بیان کی ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر مارے گئے 11 افراد میں ایک 17 سالہ لڑکی بھی شامل تھی جو اطلاعات کے مطابق اس وقت گولی کا نشانہ بنی جب طالبان نے سابقہ فوجیوں کے خاندان والوں پر فائرنگ کی۔ یہ عام شہری اس وقت علاقے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایمنسٹی انٹرینشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کیلامار کا کہنا ہے کہ ’قتل کی یہ سفاکانہ کارروائیاں اس بات کا مزید ثبوت ہیں کہ طالبان اس قسم کے خوفناک مظالم کا ارتکاب کر رہے ہیں جو انھوں نے اپنے سابقہ دور حکومت میں کیے تھے۔ طالبان کہتے ہیں کہ وہ گذشتہ حکومت سے وابستہ ملازمین اور اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنا رہے، لیکن یہ ہلاکتیں ان کے دعوؤں کی نفی کرتی ہیں۔‘

اس سے قبل اگست میں بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان نے جولائی میں غزنی کے صوبے میں ہزارہ برادری کے نو افراد کا ’قتلِ عام‘ کیا تھا۔

اس پر طالبان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے تھا کہ ’یہ رپورٹ یکطرفہ ہے اور تمام بین الاقوامی تنظیموں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ افغانستان آ کر (ان الزامات) کی باقاعدہ تفتیش کریں۔ یہ ایک ناقابل قبول بات ہے اور اس میں (کوئی) شفافیت نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments