بنت حوا پناہ چاہتی ہے


ایسے معاشرے میں جہاں جہالت، منافقت اور ذہنی پسماندگی کی خوب فراوانی اور خیر و برکت ہو، جہاں لوگ بنا سوچے سمجھے اپنے عقل و شعور سے مکمل طور پر دست بردار ہونے کا مزاج رکھتے ہوں۔ جہاں لوگ برداشت سے کام لینا اور رواداری دکھانا اپنی توہین سمجھتے ہوں۔ جہاں عام حالات میں بھی لوگ ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑتے ہوں۔ جہاں زبانیں ہر وقت زہر اگلنے کے بہانے کی تلاش میں رہتی ہوں۔ جہاں ذہنوں میں پکتا عدم برداشت کا لاوا ہر وقت مہنگائی بم کی طرح پھٹنے کو تیار رہتا ہو۔

جہاں معمولی معمولی باتوں پر مشتعل ہو کر ننگی گالیوں کی تجارت شروع ہو جاتی ہو۔ جہاں لوگ جاہلانہ روایات اور احمقانہ رسوم و رواج کی پاسداری کو اپنی بخشش کا وسیلہ سمجھتے ہوں۔ جہاں بات بات پر دوسروں کو واجب القتل قرار دینے کا رواج ہو۔ جہاں غیرت کے نام غیرت کو ہی نشان عبرت بنانے کا اسلوب ہو اور جہاں ہیجان، جنونیت اور درندگی کا راج ہو وہاں مذہب، قانون، اور انسانیت کو خاطر میں لانے کی امیدیں لگانا، انتہا پسندوں اور نامعقولوں سے معقولیت کی امید رکھنا، اور غلطی سے بھی اپنی روایات کی شان میں گستاخی کر کے اپنے خونی رشتوں سے اپنی خیر و عافیت نیک مطلوب چاہنا پر لے درجے کی حماقت کے سوائے کچھ بھی نہیں۔

بے شمار محکوم اور مظلوم روحیں اسی حماقت کے جرم میں ہی اس دارفانی سے کوچ کرنے پر مجبور کردی جاتی ہیں۔ ظلم اور وحشت کا یہ سلسلہ اسی جاہلانہ عقیدت سے جاری ساری رہنے کا امکان ہے تاوقتیکہ ہم بطور معاشرہ اپنی بے تحاشا جہالت، اندھا دھند جنونیت اور خود سر منافقت کا کوئی قابل ذکر اور خاطر خواہ علاج نہیں ڈھونڈ لیتے۔

ہمارے معاشرے میں ایسے جنونیوں اور خبطیوں کی کمی نہیں جو ہر بات پہ آپے سے باہر ہونا اور جوش طیش میں آ کر حوا کی بیٹی پر اپنی حیوانیت کے جوہر دکھا اپنی زندگی کا مقصد حیات سمجھتے ہیں، سونے پہ سوہاگہ یہ کہ ان مایہ ناز ہستیوں میں کچھ جید اور عالم فاضل خبطی ایسے بھی ہوتے ہیں جو جھوٹی انا اور جعلی غیرت کی خاطر صرف گالم گلوچ، مارپیٹ یا تشدد پر ہی قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنے جائز اور ناجائز ہدف کو قبل از وقت عالم برزخ تک پہنچانا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔

لہذا ان کے اس حیوانی ہیجان اور پیدائشی حق کا سب سے سستا اور آسان ہدف یا تو ان کی اپنی بہن بیٹی، بیوی یا ماں ہوتی ہے یا کسی دوسرے کی بہن، بیوی، بیٹی یا ماں۔ یہ ہمارے عقل و شعور کی پسماندگی کا کمال ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود حوا کی بیٹی ہمارے سماج کا وہ کمزور اور کم تر رکن ہے جس کو اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر آج بھی زندہ جلانا یا ٹھکانے لگا اتنا ہی آسان اور قابل قبول ہے جتنا دور جہالت میں تھا۔

یہ وہ بدنصیب ہے جس کو زندہ جلانے سے نہ تو ہماری مسلمانیت خطرے میں پڑتی ہے اور نہ ہی انسانیت۔ کیونکہ جنتی اور پرہیز گار مردوں کے معاشرے میں اس کا چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی ناقابل معافی اور ناقابل تلافی ہے۔ اس گناہ کبیرہ کی مرتکب تو یہ اپنی پیدائش کے دن ہی جاتی ہے جب یہ حوا کی جنس لے کر اس منافق دنیا میں پیدا ہوتی ہے جہاں بیٹا ہونے پرتو مبارکبادیں دی جاتی ہیں اور بیٹی پیدا ہونے پر اکثر بد نصیب مائیں آج بھی سزا کی حق دار ٹھہرائی جاتی ہیں۔

اس کے طویل گناہوں کی فہرست میں ایک گناہ پسند کی شادی ہے یا کسی دوسرے کی پسند سے شادی سے انکار کرنا ہے۔ اگر اپنی پسند سے شادی کرے تو بے حیا کے لقب سے نوازا جاتا ہے جس نے مرد کو اپنے جال میں پھنسا کر شادی رچائی ہے اور اگر دوسروں کی پسند سے شادی کر لے اور خدانخواستہ چل نہ سکے تو ماں کی تربیت پر حرف آتا ہے نیز یہ کہ یہ نازک صنف کسی حال میں بخشی نہیں جاتی۔ ہر کوئی اسے دبانے اور ڈرانے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔

مرد حاکم بن کر یہ سمجھتا ہے کہ ہر رشتے کو آزادی ہے وہ عورت پر ظلم کرے اور اس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی ہوس کو جائز ناجائز ہر طریقے سے پورا کرے۔ ان میں کچھ لوگ طاقت کے نشے میں، کچھ حماقت کے نشے میں، کچھ جنت کے نام پر ، اور کچھ نام نہاد غیرت کے نام پر حوا کی بیٹی کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر کے اس کی جان لینے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ معاشرے کا سب سے کمزور، عضو، اور کردار عورت ہی تو ہے۔ لہذا ہر اس پاگل کو آزادی ہے کہ وہ اپنی درندگی کا جس قدر ہو سکے مظاہرہ کرے کیونکہ اس کے اکثر گناہ بڑے ہی ناقابل معافی ہوتے ہیں۔

پناہ چاہتی ہے حوا کی بیٹی غیرت کی حیوانیت کا مظاہرہ کرنے والوں سے۔ یہ ظلم، جبر وحشت، بربریت، سے پناہ چاہتی ہے۔ یہ پناہ چاہتی ہے ہوس اور نام نہاد محبت کی خاطر اس کے جذبوں کا خون کرنے والوں سے۔ حوا کی بیٹی پناہ چاہتی ہے ظالموں سے۔ اس ظلم کی انتہا سے جسے آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے پیارے نبی پاک حضرت محمد ﷺ نے ختم کیا تھا اور عورتوں کو ان کا حق ایک مقام اور عزت بخشی تھی۔ کیونکہ عورت ہر رشتے میں معتبر ہے اگر وہ ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے، اگر بیوی ہے تو گھر کی رونق اور عزت ہے، اگر بیٹی ہے تو رحمت ہے اور اگر بہن کے روپ میں ہے تو محبت کی بہترین مثال ہے۔ غرض یہ کہ بنت حوا ہر رشتے میں بے مثال ہے۔ نسل انسانی کو پروان چڑھانے والی بھی ایک عورت ہی ہے جو خود پر جبر سہ کر اپنی تکلیفیں بھول کر آپ کی زندگیوں کو خوشیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ لہذا حوا کی اس بیٹی کی عزت کرنا اور اس کا احترام کرنا سیکھیے۔

حرا آصف احمد
Latest posts by حرا آصف احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments