بلوچستان، ہرنائی میں زلزلہ: پاکستان کے کون سے علاقے زلزلے کے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں؟


زلزلہ
'زلزلوں نے تو ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے۔ تقریباً 25 سال قبل بھی زلزلے میں میرا گھر تباہ ہوا تھا جس میں ہم نے اپنے گھر کے دو افراد کو کھو دیا تھا۔ اب بھی ہمارے گھر کو نقصان پہنچا ہے جس میں کوئی ہلاک تو نہیں ہوا مگر گھر کے تقریباً سب افراد ہی زخمی ہوئے ہیں۔'

یہ کہنا تھا صوبہ بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے 60 سالہ رہائشی حسین بخش کا جن کا گھر جمعرات کی صبح آنے والے 5.9 شدت کے زلزلے میں متاثر ہوا ہے۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ایم ڈی اے کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔

اس زلزلے کا مرکز ضلع ہرنائی کے قریب بتایا جا رہا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ نقصاں بھی ضلع ہرنائی میں ہوا ہے جہاں پر سو سے زائد کچے مکانات کے مہندم ہونے کی اطلاعات ہیں اور انتظامیہ کے مطابق کم از کم بیس لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

حسین بخش کا کہنا تھا کہ رات کے ساڑھے تین سے چار بجے کا وقت تھا جب انھوں نے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے۔

‘میں نے شور مچایا کہ سب گھر سے باہر نکلو اور خود بچوں کو اٹھانے کے لیے دوڑا۔ چند ہی سیکنڈ میں گھر کے سب لوگ دروازے کی طرف دوڑ رہے تھے۔ اس دوران ہماری چھت سے لکڑی کے ستون گرنا شروع ہو گئے جن کے لگنے سے مجھے معمولی چوٹ آئی جبکہ میرا ایک بیٹا اور بہو زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔‘

یاد رہے کہ ہرنائی میں اس سے قبل سنہ 1997 میں ریکٹر سکیل پر سات کی شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ جس میں سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

حالیہ زلزلے کا سبب اور مرکز

زلزلہ پیما مرکز اسلام آباد کے ڈائریکٹر زاہد رفیع کے مطابق ہرنائی اور بلوچستان پہلے بھی زلزلوں کی زد میں رہے ہیں۔

زلزلہ

انھوں نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ان علاقوں میں زلزلے کی توقع نہیں تھے۔ یہ علاقے فالٹ لائن پر ہیں۔ ان میں زلزلے کا آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔‘

زاہد رفیع کے مطابق بلوچستان کے حالیہ زلزلے کا سبب بھی ہرنائی فالٹ لائن ہے اور اس زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ تک محسوس ہوئے ہیں۔

زیر زمین فالٹ لائن جب حرکت کرتی ہے تو وہ زلزلے کا سبب بنتی ہے۔

جیولوجیکل سروے آف پاکستان کوئٹہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انور علی زئی کے مطابق یہ فالٹ لائن نالو رینج فالٹ کا حصہ ہے جو کراچی کے جنوب سے شروع ہوتے ہوئے افغانستان اور عراق سے بھی جا ملتی ہے۔

ڈاکٹر انور علی زئی کے مطابق حالیہ زلزلہ ’سٹرائیک سلپ‘ کی وجہ سے آیا ہے۔

زلزلے کی فالٹ لائنز مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں جن میں سے سٹرائیک سلپ ایک قسم ہے، جس میں زمین کے دو حصے اپنی جگہ سے الٹی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔

ایک اور قسم ’نارمل فالٹ‘ میں زیر زمین فالٹ لائن نیچے کی جانب سے گزرتی ہے جبکہ ’ریورس فالٹ‘ میں فالٹ پلیٹیں اوپر کی جانب بڑھتی ہیں۔

زلزلے میں زیادہ نقصانات کی وجہ کیا ہوتی ہیں؟

زاہد رفیع کے مطابق زلزلے سے زیادہ نقصانات کی ممکنہ طور پر تین وجوہات ہو سکتی ہیں جس میں سب سے پہلے وجہ یہ تھی کہ یہ زلزلہ رات کے وقت آیا جس وقت عموماً لوگ اپنے گھروں کی چھتوں تلے سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔

دوسری وجہ ہرنائی میں کچے گھروں کی موجودگی اور زلزلے سے بچاؤ کے مناسب انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے۔

یہ 5.9 کی شدت کا زلزلہ تھا جبکہ اس کی گہرائی صرف 15 کلو میٹر تھی۔ کم گہرائی کی وجہ سے بھی زمین کے اوپر زلزلے کے جھٹکے زیادہ محسوس کیے جاتے ہیں۔

زاہد رفیع کے مطابق اتنی کم گہرائی میں کوئی بھی زلزلہ 5.9 کا ہو تو اس کو کافی شدید سمجھا جاتا ہے۔

زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ بلوچستان اور ہرنائی ہی فالٹ لائن پر ہیں بلکہ پاکستان کا دوتہائی حصہ فالٹ لائنز پر واقع ہے۔

’یہاں پر کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر زلزلہ آ سکتا ہے۔ اس کے نقصانات سے بچاؤ کے لیے لازمی ہے کہ انفراسٹریکچر کی تعمیر زلزلہ پروف ہو۔‘

پاکستان میں اب تک جتنے بھی زلزلے آئے ہیں ان میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد باقاعدہ طور پر بلڈنگ کوڈ تیار کیے گئے۔

ان قواعد کے مطابق یہ باقاعدہ طے ہوا تھا کہ اب آئندہ ایسی عمارتوں کے نقشے پاس نہیں ہوں گے جو کہ زلزلے سے محفوظ نہ ہوں۔

زاہد رفیع بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زلزلوں سے نقصان سے بچنے کے لیے یہ لائحہ عمل پورے ملک میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ بلڈنگ کوڈز پر عمل ہونے سے جانی و مالی نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کا دو تہائی حصہ کیوں زلزلے کے خطرے کا شکار؟

سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ فالٹ لائن پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دو تہائی علاقہ ممکنہ طور پر زلزلے کے خطرے میں رہتا ہے۔

جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا بڑا حصہ انڈین پلیٹ پر واقع ہے جبکہ یہاں سے یوریشین (یورپ اور ایشیا) اور عرب پلیٹیں بھی گزرتی ہیں۔

فالٹ لائن کا مطلب زیرِ زمین پلیٹوں کا ٹوٹ کر مختلف حصوں میں تقسیم ہو جانا ہے جو زمین کے نیچے حرکت کرتے رہتے ہیں اور یہ حصے دباؤ جمع کرتے رہے ہیں۔

پھر ایک ایسا موقع آتا ہے جہاں پر ان کو کسی مقام پر اپنا دباؤ نکالنے کا موقع ملتا ہے تو پھر اس مقام پر زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کبھی زیادہ شدت کے ہوتے ہیں اور کبھی کم۔

زلملاًہ

پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل لاکھوں سال سے جاری رہا ہے۔

ہمالیہ کا وجود بھی لاکھوں سال پہلے زیرِ زمین پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہوا تھا۔ اب بھی ہمالیہ متحرک ہے اور یہ ہر سال ایک سینٹی میٹر بڑھ رہا ہے۔

کون سے علاقے زیادہ خطرے کا شکار ہیں؟

جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے ملک کو زلزلوں کے حوالے سے چار زونز میں تقسیم کر رکھا ہے۔

زون ون میں زلزلے کے امکانات کم سمجھے جاتے ہیں۔ زون ٹو میں زلزلے کے کچھ امکانات سمجھے جاتے ہیں اور ان میں پنجاب کے میدانی علاقے اور وسطی سندھ شامل ہیں۔

زون تھری میں زلزلے کے کافی زیادہ امکانات سمجھتے جاتے ہیں۔ ان میں کراچی، بلوچستان، سکردو، سوات، پشاور، میدانی ہمالیہ کے علاقے آتے ہیں۔

جبکہ زون فور کے اندر انتہائی خطرے کا شکار علاقوں میں پوٹھوہار، کشمیر، ہزارہ، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ اور ہمالیہ کے پہاڑی علاقے آتے ہیں۔

زلزلے کی شدت کیسے ناپی جاتی ہے؟

زلزلے کی شدت کو ناپنے کے لیے کچھ عرصہ قبل تک تو صرف ریکٹر سکیل استعمال کیا جاتا تھا تاہم اس کی مدد سے بڑے زلزلوں کی صحیح شدت ناپنے میں ناکامی کے بعد اب مومنٹ میگنیچیوڈ سکیل زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔

زلزلے کی شدت ایک سے دس کے درمیان متعین کی جاتی ہے۔ اگر زلزلہ ایک سے تین کی شدت کا ہو تو معمولی کہلاتا ہے۔ تین سے سات تک درمیانہ جبکہ سات سے زیادہ کا زلزلہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔

زلزلے کی شدت ناپنے کے لیے جو معیار استعمال کیا جاتا ہے وہ لوگریتھمک ہوتا ہے یعنی ایک درجے کا فرق شدت میں دس گنا اضافہ لاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر زلزلے کی شدت سکیل پر پانچ ہو تو یہ چار شدت کے زلزلے سے دس گنا زیادہ طاقتور ہوگا اور اس میں 31 گنا زیادہ توانائی کا اخراج ہو گا۔

دوسری طرف زلزلے کو زمین میں اس کی گہرائی سے بھی ناپا جاسکتا ہے۔

اگر زلزلہ 50 کلومیٹر تک ہو تو اسے شیلو یا کم گہرائی، 50 سے 300 کلومیٹر تک انٹرمیڈیٹ یا درمیانی گہرائی اور 300 کلومیٹر سے زیادہ ہو تو اسے ڈیپ یا انتہائی گہرائی میں آنے والا زلزلہ شمار کیا جاتا ہے۔

ہرنائی میں آنے والا زلزلہ بھی شیلو ٹائپ کا زلزلہ تھا جس کے باعث اس کی کافی شدت محسوس کی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments