اب بندہ گھر بیٹھے بات بھی نہیں کر سکتا


پچھلے دنوں ایک سماجی تقریب میں ایک صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیوی لیکچرر ہے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ یہ مرد حضرات کا مشترکہ دکھ ہے۔ ہر بیوی لیکچرر ہوتی ہے۔ چند خوش قسمت بیویاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کو سرکار بھی تنخواہ دے رہی ہوتی ہے۔ باقی مظلوم خواتین کو تو صرف شوہر کی آمدن پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکچر تو سب کو دینا پڑتا ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ اثر کسی پربھی نہیں ہوتا۔ خواتین مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتیں کہ وہ بھینس کے آگے بین بجا رہی ہیں، کیوں کہ بھینس تو مونث ہوتی ہے۔

گھر میں بات نہ کر سکنا ایک عمومی مسئلہ ہے۔ مرد عورت، دونوں متاثرین میں شامل ہیں۔ ایک میر عالم صاحب اپنے گھریلو حالات سے تنگ تھے۔ ایک دن انہوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہنے لگے ”ایسی زندگی سے تو موت اچھی۔ اللہ پاک مجھے اٹھا لے“۔ فوراً آسمان سے ایک ذی روح اترا۔ میر عالم صاحب نے کانپتے ہوئے پوچھا آپ کون ہیں؟ جواب ملا ”آپ کی دعا قبول ہو گئی ہے۔ میں موت کا فرشتہ ہوں اور آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں“ ۔ میر عالم نے کانپتے ہوئے مگر مسکراتے ہوئے کہا ”اتنا جبر تو نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ گھر بیٹھے بھی دل کی بات نہ کرسکے“ ۔

میر عالم صاحب تو پھر بھی اپنے گھر بیٹھے دل کی بات کر سکتے تھے مگر کچھ نامور لوگوں کو اتنی آزادی بھی حاصل نہیں رہی۔ ہمارے ایک مشہور شاعر اپنے گھر کے ایک کمرے میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے جوانی کی اولین محبت کو یاد کر کے آنسو بہا رہے تھے کہ اچانک زوجہ محترمہ اندر تشریف لے آئیں۔ محترمہ نے غصیلے لہجے میں پوچھا ”کیا ہو گیا کیوں ٹسوے بہا رہے ہو؟“ ۔ جواب ملا ”کچھ بھی تو نہیں ہوا، بس ذرا والدہ محترمہ کی یاد آ گئی تھی۔“

ہمارے ہاں بچوں کو سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ وہ بڑوں کی موجودگی میں خاموش رہیں۔ اس لیے بچے عموماً بڑوں کی موجودگی میں خاموش رہتے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ ایک آدھ فقرہ بھی بڑوں تک پہنچ جائے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات توان کو چپ لگ جاتی ہے۔ اکثر بزرگ اپنی موجودگی میں کسی کو بولنے نہیں دیتے اور اگر کوئی بول پڑے تو پھر اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے۔ :

لمحوں نے خطا کی
صدیوں نے سزا پائی

ایک انتہائی دھیمے مزاج کے نفیس انسان ایک چھوٹے ضلع میں ایک انتظامی محکمہ کے سربراہ بن گئے۔ وہ اپنے ایک ماتحت کو جو بھی ڈاک بھیجتے، اس کا جواب کئی کئی دن نہ آتا۔ ایک دن انہوں نے موصوف کو طلب کیا اور نہایت سلجھے ہوئے لہجے میں اس رویہ کی وجہ دریافت کی۔ جواب ملا ”ہمارے ہاں بڑوں کو جواب دینا اچھا نہیں سمجھا جاتا“ وہ لاجواب ہو گئے۔ اتنے قابل آدمی کوایک چھوٹے سے ضلع میں مزید خوار ہوتا نہ دیکھ سکے۔ فوراً صوبائی دارالحکومت روانہ کر دیا۔

سوال کرنا بھی ہمارے ہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ روایت مگر تعلیمی اداروں تک محدود ہے۔ شاہ راہوں اور چوراہوں پر لوگ سوال کرتے ہیں اور متواتر کرتے ہیں۔ کوئی تفریحی مقام سوال کرنے والوں سے خالی نہیں ہے۔ بعض اوقات تو بندہ یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ عمر کا دامن تنگ ہے اور سوال کرنے والے بہت۔

تعلیمی اداروں میں سوال کرنے اور سوال سننے کا رواج کچھ عرصہ پہلے تک بالکل نہیں تھا۔ اچھا استاد اسے سمجھا جاتا تھا جس کے تدریسی کمرہ میں مکمل خاموشی ہو۔ کسی بھی طالب علم کو سوال کرنے پر استاد ایسی نظروں سے دیکھتا تھا کہ بے ساختہ پروین شاکر یاد آجاتی تھیں۔ :

میرے پاس اتنے سوال تھے میری عمر سے نہ سمٹ سکے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تری ایک نگاہ میں آ گئے

ایک یونیورسٹی میں ایک انتہائی اہم شعبے کے سربراہ تدریسی سال میں ایک لیکچر خود دیتے تھے۔ اگر کوئی ان سے ایک سوال کرنے کا مرتکب ہوتا تھا تو وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ وہ دوبارہ بھی سوال کرے۔ تمام چیزیں جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہیں تو سوال اکیلا کیوں؟ یہ الگ بات ہے کہ طالب علم کو اگلے سوال کا موقع اگلے سال ملتا تھا مگر جوڑا پورا ہوجاتا تھا۔

ہمارے ہاں اکثر لوگ اپنے علم کے دریا کی روانی کے بہاؤ میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہوتے۔ وہ ایک آدھ سوال تو سہ جاتے ہیں مگر سوال کرنے والے بہہ جاتے ہیں اور کلاس میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ زندگی میں مگر وہی لوگ آگے نکلتے ہیں جو کمرہ جماعت میں سوال کرتے ہیں اور باقی مقامات پر عموماً خاموش رہتے ہیں۔ خاموشی ہی دانائی ہے مگر جہاں سوال علم اور دانش کا ہو، وہاں خاموشی مستقبل کی رسوائی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی مجلس میں ایک نوجوان نے بزرگوں کی موجودگی میں کوئی رائے دی تو آپ نے اسے خاموش رہنے کا کہا۔ نوجوان نے نکتہ اٹھایا کہ اگر بزرگی ہی دانائی کا معیار ہے تو آپ خلافت بھی کسی بزرگ کے حوالے کر دیں۔ آپ نے نوجوان کے جواب پرمسرت کا اظہار کیا۔

بعض سوال کسی کو بے حال کرنے کے لئے کیے جاتے ہیں تو کئی سوال علم کا کمال ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ سوال نہ کرنے و الا ساری زندگی ملال کرتا رہتا ہے۔ ایک مفکر کے مطابق علم سوال کرنے کاہی دوسرا نام ہے۔ قرون اولی کے مسلمان سوال کرنے کو پسند کرتے تھے مگر دنیاوی مقصد کے لیے دست سوال دراز کرنے کا رواج بالکل نہ تھا۔ تعلیمی درس گاہوں کی بہتات تھی۔ اساتذہ کے حلقے جگہ جگہ قائم تھے۔ علماء لوگوں کو تعلیم دینا اپنی زندگی کا و احد مقصد سمجھتے تھے۔ سوال و جواب کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا تھا۔ لوگ جانتے تھے کہ دین ”اقرا“ ہے ”اکراہ“ نہیں۔ حصول علم کے لیے سینکڑوں میلوں کا سفر کیا جاتا تھا تا کہ جاننے والوں سے سوال کیا جائے اور علم کی پیاس بجھائی جائے۔

قرآن کہتا ہے کہ جس بابت انسان علم نہیں رکھتا، اسے چاہیے کہ وہ اہل علم سے اس بارے میں سوال کرے۔ دین تفکر اور تدبر کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے فرمایا ”جس شخص سے کسی علم کے بارے میں سوال کیا جائے اور اس نے باوجود علم کے اسے چھپایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے آگ کی لگام ڈالیں گے“ ۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے ”علم خزانہ ہے، سوال اس کی چابی ہے۔ اللہ پاک تم پر رحم فرمائے۔ سوال کیا کرو کیونکہ سوال کرنے کی صورت میں چار افراد کو ثواب دیا جاتا ہے۔ سوال کرنے والے کو ، جواب دینے والے کو ، سننے والے کو اور ان سے محبت کرنے والے کو “ ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ”علم میں زیادتی تلاش سے اور واقفیت سوال سے ہوتی ہے۔ جس کا تمہیں علم نہیں اس کے بارے میں جانو اور جو کچھ جانتے ہو اس پر عمل کرو“ ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں کائنات میں غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں حقیقی اور نافع علم عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ”علیم“ ہے اور علم حاصل کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔ دعا ہے کہ ہمارا شمار بھی آخری سانس تک تحصیل علم میں مصروف رہنے والوں میں ہو۔ آمین۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments