نیب ترمیمی آرڈیننس 2021: وہ کیا اہم تبدیلیاں ہیں جو اس آرڈیننس کے ذریعے متعارف کروائی گئی ہیں؟


نیب
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس 1999 میں کچھ ترامیم کر کے ایک ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے جس کو نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ سنہ 2021 کا نام دیا گیا ہے۔

اس ترمیمی آرڈیننس کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے نہ صرف مسترد کر دیا ہے بلکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس صدارتی آرڈیننس پر بحث کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں ایک ریکوزیشن بھی جمع کروا دی ہے جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 150 سے زائد ارکان اسمبلی کے دستخط موجود ہیں۔

https://twitter.com/BBhuttoZardari/status/1446024781955059713

پہلے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی کون سی چیزیں ہیں جو پہلے آرڈیننس میں موجود تھیں یا ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے اس میں اضافہ کیا گیا ہے۔

نیب کے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے مشاورت

صدارتی ترمیمی آرڈیننس جاری ہونے سے پہلے نیب آرڈیننس میں لکھا ہوا تھا کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے لیڈر آف دی ہاؤس یعنی وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن کے درمیان ’بامقصد مذاکرات‘ کے بعد ہی چیئرمین نیب تعینات ہوگا۔

اس معاملے میں فریقین کی طرف سے دیے گئے تین تین ناموں پر غور ہوگا جس میں سے کسی ایک پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔

نیب کے ترمیمی آرڈیننس میں یہ تبدیلی کی گئی ہے اور صدر کو اس میں شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اب صدر مملکت وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ نیب کے چیئرمین کے لیے مختلف ناموں پر غور کریں گے اور اگر دونوں کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا جو اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔

اس سے پہلے ماضی میں جتنے بھی چیئرمین نیب مقرر ہوئے ہیں ان میں صدر کا کردار صرف نوٹیفکیشن جاری کرنے کی حد تک محدود تھا جبکہ اس ترمیمی آرڈیننس میں صدر کو نہ صرف مشاورت میں کردار دیا گیا ہے بلکہ پارلیمانی کمیٹی کا کردار بھی پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تھا جس پر اس وقت کے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان یہ معاملہ سپریم کورٹ لے گئے تھے۔

سپریم کورٹ نے قائد حزب اختلاف کی درخواست کو منطور کرتے ہوئے کہا تھا کہ جسٹس دیدار حسین شاہ کی بطور چیئرمین نیب تقرری میں قائد حزب اختلاف سے ’بامقصد مشاورت‘ نہیں کی گئی۔

اس ترمیمی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک نیب کے نئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا اس وقت تک موجودہ چیئرمین اپنے عہدے پر کام جاری رکھیں گے۔

چیئرمین نیب کے اختیارات

نیب آرڈیننس میں چیئرمین نیب کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے تھے جس میں گرفتاری سے لے کر کسی کے خلاف انکوائری شروع کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کے اختیارات بھی تھے لیکن ترمیمی آرڈیننس میں ان اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔

اب یہ اختیار پراسکیوٹر جنرل کو دے دیا گیا ہے جس کے تحت اگر پراسیکیوٹر جنرل یہ سمجھتا ہے کہ کسی کے خلاف شروع کی گئی انکوائری یا دائر کیا گیا ریفرنس غلط ہے تو وہ اسے ختم کر سکتے ہیں جبکہ اس سے پہلے اس اقدام کے لیے چیئرمین نیب کی اجازت لینا ضروری تھی۔

اس کے علاوہ اگر کسی کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا ہو تو اس کو واپس لینے کے لیے متعلقہ عدالت کے جج کی اجازت لینا ضروری تھی۔ اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت متعلقہ عدالت کے جج کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل مظفر عباسی کے مطابق اس ترمیمی آرڈیننس میں پراسیکیوشن کے محکمے کو بااختیار بنایا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر استغاثہ کا گواہ عدالت میں نہیں پیش ہوسکتا تو اس کا بیان آڈیو یا ویڈیو لنک کے ذریعے بھی ریکارڈ کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ اگر وہ اپنا بیان کسی بیان حلفی پر لکھ کر دینا چاہتا ہے تو اس کو بھی درست تصور کیا جائے گا جبکہ اس سے پہلے استغاثہ کے گواہ کا متعلقہ عدالت کے جج کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانا ضروری تھا۔

اس ترمیمی آرڈیننس میں احتساب عدالت کو بھی کسی ملزم کی ضمانت لینے کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے احتساب عدالت کے جج کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا اور کوئی بھی ملزم ضمانت حاصل کرنے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرتا تھا۔

نیب

اختیارات کا ناجائز استعمال

نیب آرڈیننس سنہ 1999 میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی کوئی تشریح نہیں کی گئی تھی یعنی اگر کسی نے قواعد کی بھی خلاف ورزی کی ہے تو اس کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں لاتے ہوئے اور اس کی نیت کو درست تسلیم نہ کرتے ہوئے اس شخص کو نہ صرف گرفتار کیا جاتا بلکہ اس کے خلاف تحقیقات کا بھی آغاز کر دیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیے

نئے چیئرمین نیب کی تقرری: صدرِ پاکستان وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت سے کریں گے

کیا نیب نے وصولیوں کے ’متنازع‘ اعداد و شمار کے ذریعے وزیراعظم کو گمراہ کیا؟

ایک ارب پچانوے کروڑ کا پے آرڈر بنام نیب: ’کامیاب اور ناکام‘ کیسوں کی داستان

ترمیمی آرڈیننس میں یہ کہا گیا ہے کہ جب تک یہ بات ثابت نہ ہو جائے کہ مذکورہ شخص نے یہ کام ذاتی مفاد میں کیا ہے تو اس وقت تک اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔

اس ترمیمی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی نے اچھی نیت سے کام شروع کیا اور اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکل سکے تو اس کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہو گی۔

وفاقی اور صوبائی کابینہ کے فیصلے متثنی

اس ترمیمی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی کابینہ ملک کی ترقی کے لیے کوئی فیصلے کرتی ہے اور بیوروکریسی اچھی نیت سے اس پر عمل درآمد کرواتی ہے تو نیب کو ان معاملات میں مداخلت کرنے یا تحقیقات شروع کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس کے معاملات میں بھی نیب مداخلت نہیں کر سکے گا۔

ماضی میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے متعدد ترقیاتی منصوبے نیب کی مداخلت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے قومی خزانے پر مزید بوجھ بڑھ گیا اور ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا۔

مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ میں

اس ترمیمی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب کی عدالتوں میں جب کسی کے خلاف ریفرنس دائر ہو جائے تو وہ چھ ماہ میں اس کا فیصلہ کریں جبکہ اس سے پہلے نیب عدالتوں کو ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھیں اور عدالتی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ پانچ پانچ برس تک احتساب عدالتوں سے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ اس ترمیمی آرڈیننس میں احتساب عدالتوں میں اضافے کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی صدر مملکت متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔

عارف علوی

اس کے علاوہ اگر احتساب عدالت کا جج ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اس کو نوکری سے برخاست کرنے کا اختیار بھی صدر مملکت کے پاس ہے، لیکن اس میں متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت شامل ہوگی۔

اس سے قبل اگر کسی جج کے خلاف کوئی شکایت ہوتی تھی تو متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیتا تھا جن کی سفارشات کی روشنی میں قصوروار جج کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی بھی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ہی عمل میں لائی گئی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نیب کے سابق ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں صدر مملکت کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ چیئرمین نیب ایک انتظامی عہدہ ہے اور اس کے لیے ملک کے چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیر اعظم کو ہی مشاورت کا آغاز کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جایا جاتا اور وہاں پر ہی اس کا کوئی حل نکل آتا لیکن یہ صدارتی آرڈیننس اس وقت جاری کیا گیا جب سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس نہیں ہو رہے تھے۔نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ قانون میں چیئرمین نیب کے عہدے میں توسیع کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس ایک شخص کے گرد گھوم رہا ہے جس کی ملکی آئین میں کوئی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل نیب کے پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدر کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی اور ذوالفقار بھٹہ کے بقول حکومت کا یہ عمل ’غیر قانونی‘ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر حکومت کمزور وکٹ پر ہے اور اگر کوئی چاہے تو اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان بامقصد مشاورت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments