افغانستان کی خواتین پراسیکیوٹرز سزا یافتہ مجرموں کے خوف سے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور


وکیل فرشتہ
فرشتہ کسی مفرور شخص کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ رہی ہیں۔ آئے روز وہ اپنے رہنے کا ٹھکانہ تبدیل کر رہی ہیں
چند ہفتوں پہلے تک افغانستان سے تعلق رکھنے والی فرشتہ (فرضی نام) ایک بااثر پراسیکیوٹر (وکیل) تھیں جو اپنی طاقت کا استعمال بامقصد انداز میں کر رہی تھیں۔

انھوں نے مجرموں، طالبان عسکریت پسندوں، بدعنوان سرکاری ملازموں اور عورتوں اور بچوں پر تشدد کرنے والے بہت سے افراد کے خلاف کامیاب مقدمات لڑے اور عدالت سے انھیں وہ سزائیں دلوائیں جن کے وہ مستحق تھے۔

مگر آج 27 سالہ فرشتہ روپوشی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ کسی مفرور شخص کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ رہی ہیں۔ آئے روز وہ اپنے رہنے کا ٹھکانہ تبدیل کر رہی ہیں۔

افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا سے تعلق رکھنے والی فرشتہ ان بہت سی افغان خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے سنہ 2001 میں طالبان کی شکست کے بعد آنے والے سالوں میں پیشہ ورانہ کامیابیاں حاصل کیں اور افغانستان جیسے پدرشاہی سماج والے ملک میں مردوں کے تسلط اور قدامت پسند معاشرے کو اپنے بل بوتے پر چیلنج کیا۔

آج سے پانچ سال قبل وہ افغانستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر میں پراسیکیوٹر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ انھوں نے بی بی سی کو افغانستان میں اپنے ایک محفوظ ٹھکانے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بطور پراسیکیوٹر اُن کا کام ’ریپ، قتل اور گھریلو تشدد کے مرتکب ملزمان کے خلاف مقدمہ لڑنا اور اُن کو عدالت سے سزائیں دلوانا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ اُن کے لیے یہ ایک ’چیلنجنگ لیکن اطمینان بخش کام‘ تھا۔

رواں برس اگست میں کابل اور دیگر صوبوں پر قبضے کے دوران طالبان نے جیلیں توڑیں اور عسکریت پسندوں سمیت سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے ہزاروں مجرموں اور ملزموں کو رہا کر دیا۔

ایسے ہی قیدیوں میں محمد گل بھی شامل ہیں جن پر خودکش بم حملوں کی منصوبہ بندی کے الزامات تھے۔ فرشتہ نے بڑی محنت سے گل کے خلاف شواہد اکٹھے کیے اور ان کے خلاف کامیابی سے مقدمہ لڑا اور انھیں 20 سال کی سزا دلوا کر سلاخوں کے پیچھے پہنچوا دیا۔

فرشتہ نے بتایا کہ طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے چند دن بعد ہی محمد گل نے انھیں فون کیا اور کہا ’وہ بدلہ لینے میرے پیچھے آ رہا ہے۔۔۔ اور یہ کہ میں کہیں چھپ نہیں سکتی۔‘

محمد گل کے اسی دھمکی آمیز فون کال کے بعد سے فرشتہ روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو رہا ہے۔

فرشتہ اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ طالبان سابقہ حکومت کے دور میں پراسیکیوٹر اور جج کے طور پر کام کرنے والی خواتین کے مخالف ہیں اور وہ زیادہ تر خواتین کو کام کی جگہ سے دور رکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی کے آخر تک اپنے پہلے اقتدار کے دوران کیا تھا۔

فرشتہ جیسی خواتین کے پاس خوفزدہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔

جنوری میں افغان سپریم کورٹ کی دو خواتین ججوں کو کابل میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور یہ خواتین کی ٹارگٹ کلنگ کی اس لہر کا حصہ ہے جس کا بڑے پیمانے پر طالبان پر الزام لگایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ دو قانونی عہدیدار، جنھوں نے افغان وزارت انصاف میں کام کیا تھا، انھیں حالیہ ہفتوں میں کابل میں ہلاک کر دیا گیا اور ان کی ہلاکت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انتقامی کارروائیاں تھیں۔

طالبان

طالبان نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد پہلا کام طالبان جنگجوؤں کو رہا کرنے کا کیا

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی رائٹس گروپ بشمول ایمنسٹی اور ہیومن رائٹس واچ نے طالبان کی جانب سے سرکاری ملازمین کے لیے عام معافی کے اعلان کے باوجود ماورائے عدالت قتل اور اغوا کی اطلاعات دی ہیں۔

اگست میں جب طالبان نے اقتدار پر کنٹرول حاصل کر لیا تو سینکڑوں خواتین جج روپوش ہو گئی تھیں۔ بعض تو اگست میں امریکی قیادت میں ہونے والے انخلا کے دوران ملک چھوڑنے میں کامیاب ہوئيں جبکہ دوسری بہت سی قسمت کے بھروسے پر افغانستان میں ہی رہ گئيں۔

صوبہ پروان سے تعلق رکھنے والی ایک افغان خاتون جج جو ملک سے نکلنے میں کامیاب رہیں انھوں نے کہا: ’مجھے ذاتی طور پر طالبان اور ان سے وابستہ ارکان کی طرف سے بہت سی فون کالز اور دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔‘

یہ جج اب برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں اُن کی جائیداد، املاک اور دیگر تمام اثاثے طالبان نے ضبط کر لیے ہیں اور ان کے رشتہ داروں کو اسلام پسند گروپ کی طرف سے ظلم و ستم کا خطرہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’خواتین ججوں نے قانون کی حکمرانی اور برانچ کے اندر بدعنوانی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ اور اگر وہ ملک چھوڑ دیتی ہیں تو یہ عدالتی شعبے کے لیے ایک بڑا خلا ہو گا۔‘

افغانستان میں اب بھی تقریبا 230 افغان خاتون ججز پھنسی ہوئی ہیں۔ یہ سب فی الحال روپوش ہیں۔ ججوں اور ان کی جانب سے کام کرنے والے کارکنوں کے انٹرویوز کے مطابق ان کی سابقہ رہائش گاہوں کی تلاشی لی گئی ہے اور ان کے ہاں توڑ پھوڑ کی گئی اور ان کے رشتہ داروں کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔

روپوش

فرشتہ کھبی بااثر وکیل تھی اور اب چھپ کر زندگی گزار رہی ہیں

خواتین ججز کی غیر منافع بخش بین الاقوامی تنظیم ’آئی اے ڈبلیو جے‘ میں برطانیہ کی نمائندہ جج انیسہ دھنجی نے کہا: ’ان کے کیریئر ختم ہو چکے ہیں، ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد ہو چکے ہیں اور ان کا مستقبل افغانستان میں بطور خواتین تاریک ہے۔‘

آئی اے ڈبلیو جے نے ماضی میں کئی افغان خواتین ججوں کو تربیت دی ہے۔ اس نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل ہوائی اڈے پر افراتفری اور تشدد کے درمیان درجنوں ججز کے انخلا کو ممکن بنانے کے لیے کام کیا ہے۔

یہ ایک پیچیدہ آپریشن تھا جس میں کئی ٹیمیں شامل تھیں جو رات بھر نقشوں اور ترجمانوں کے ساتھ کام کرتی تھیں اور کابل ائیرپورٹ پر کیا ہو رہا ہے، اس کے بارے میں انٹیلیجنس رپورٹس کو مرتب اور مربوط کرتی تھیں۔

تمام تر مشکلات کے باوجود تقریباً 40 افغان خواتین ججز اور ان کے اہلخانہ کو نکالنے میں انھیں کامیابی ملی۔ ان میں سے زیادہ تر اب امریکہ اور یورپ اور کچھ ترکی، تاجکستان، ایران اور خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ پیچھے رہ گئے۔

کابل میں روپوش ایک افغان جج نے آئی اے ڈبلیو جے کو بتایا کہ ایک آدمی جس کو انھوں نے دہشت گردی کے الزامات میں سزا سنائی تھی، اسے نہ صرف اسے رہا کیا کر دیا گیا ہے بلکہ اس نے انھیں دھمکیاں دی ہیں اور اب اسے طالبان کی جانب سے جج مقرر کیا گیا ہے۔

ایک اور جج نے کہا کہ وہ آپریشن کے ذریعے بچے کو جنم دینے والی تھیں، لیکن وہ ہسپتال جانے اور وہاں اپنی شناخت ظاہر کرنے سے بہت خوفزدہ تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

خواتین کے خلاف جرائم کو طالبان کے خلاف ’پروپیگنڈا‘ کے طور پر استعمال کیا گیا

’کہا تھا نا شادی کر لو، اب طالبان ہاتھ مانگیں گے تو ہم کیا کریں گے‘

’کہا تھا نہ سکرین پر مت آنا۔۔۔ اب ہم سب تمھاری وجہ سے مارے جائیں گے‘

اور ان چونکا دینے والے معاملات کے علاوہ خواتین کے عدالتی نظام سے اچانک غائب ہونے سے افغانستان میں انصاف حاصل کرنے والی خواتین کو ایک دھچکا سا لگا ہے۔

زینب (نام بدل دیا گیا ہے) ایک آزاد وکیل ہیں اور افغانستان کے کئی شہروں میں قانونی فرمز چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عدالتوں کے بند ہونے کی وجہ سے خواتین کے پاس اپنے شوہروں اور دیگر مردوں کی جانب سے زیادتی یا ریپ کے بارے میں شکایت کرنے کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔‘

فرشتہ

فرشتہ

انھوں نے کہا: ‘کوئی بھی اس پر بات کرنے کے لیے آگے نہیں آ رہا ہے، کیونکہ اب کوئی خاتون وکیل نہیں ہے۔‘

زینب کے تمام دفاتر بند کر دیے گئے ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے عملے کے 15 ارکان بیروزگار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ہرات کے ایک شخص کی جانب سے انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں جسے انھوں نے جنسی زیادتی کے مقدمہ سزا دلوائی تھی لیکن طالبان نے اب اسے رہا کر دیا ہے۔

’اس شخص نے کہا، میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا، چاہے تم ہرات میں کہیں کیوں نہ چھپ جاؤ، اور پھر میں تمہیں طالبان کے حوالے کر دوں گا۔‘

طالبان کے ایک سینیئر ترجمان اور وزیر نے ان دھمکیوں اور خواتین ججوں اور دیگر قانونی حکام کی جائیدادوں کی توڑ پھوڑ کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو بتایا ’ہم ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں، ہمارے جنگجو کبھی ایسا کام نہیں کریں گے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا خاتون ججز اور پراسیکیوٹرز کو کام پر واپس جانے کی اجازت دی جائے گی تو مجاہد نے کہا: ’اس کے متعلق ایک فیصلہ کیا جائے گا اور ایک فریم ورک کی تیاری پر عمل جاری ہے۔ پھر سب کچھ واضح ہو جائے گا۔‘

مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ افغان خواتین وکلا اور ججز کے لیے روپوش ہونے کا وقت ختم ہو رہا ہے۔

جسٹس دھنجی نے کہا ’اس وقت فوری طور پر ان لوگوں کی مدد کرنا ہے جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔‘

’ان کی زندگی اور ان کے اہلخانہ کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ان کا شکار صرف مردوں کے فیصلے کرنے کی جگہ پر بیٹھنے کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔‘

بی بی سی افغان پروڈیوسر محفوظ زبیدہ کی اضافی رپورٹنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments