ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: سرفراز کی موجودگی میں کامیابیوں اور اور کے بعد ملنے والی ناکامیوں کی وجوہات کیا ہیں؟


سرفراز
پانچ برس قبل انڈیا میں منعقدہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد جب پاکستانی ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی سے آسٹریلوی کمنٹیٹر مائیکل سلیٹر اُن کے مستقبل کے بارے میں سوال کر رہے تھے تو اس وقت اکثر افراد آفریدی کی ممکنہ ریٹائرمنٹ سے زیادہ یہ سوچ رہے تھے کہ پاکستانی ٹیم کی انتہائی مایوس کُن کارکردگی کی وجوہات کیا ہیں۔

یہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کی مسلسل تیسری ناکامی تھی۔ اس ورلڈ کپ کا آغاز تو بنگلہ دیش کے خلاف جیت سے ہوا تھا لیکن پھر صرف چھ روز میں پاکستان کو تین بڑی ٹیموں انڈیا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

اس عالمی کپ سے قبل پاکستان ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر تھا اور جب یہ ایونٹ ختم ہوا تو اس وقت بھی پاکستانی ٹیم اسی پوزیشن پر کھڑی تھی۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ تھا کہ اس کارکردگی کو کیسے بہتر بنایا جائے؟

کپتان بدلا تو قسمت بھی بدل گئی

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد شاہد آفریدی کی جگہ وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو کپتانی سونپ دی گئی۔

یہی وہ فیصلہ تھا جس نے ٹیم کی قسمت بھی بدل ڈالی۔ سرفراز احمد کی قیادت میں ٹیم نے انگلینڈ کے دورے میں اولڈ ٹریفرڈ میں کھیلا گیا واحد ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل جیتا اور اسی میچ میں بابراعظم اور حسن علی کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کریئر کی ابتدا ہوئی اور اسی میچ سے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستانی ٹیم کے جیت کے طویل سلسلے کا آغاز بھی ہوا۔

جیت کے اس سفر میں پاکستانی ٹیم نے لگاتار گیارہ ٹی ٹوئنٹی سیریز اپنے نام کیں۔ ان گیارہ سیریز میں اس نے مجموعی طور پر 33 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلے اور ان میں سے 29 جیتے۔

صرف چار میچوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم بھرپور انداز میں چھائی ہوئی تھی۔

سرفراز حسن اور پاکستانی کھلاڑی

ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کی بالادستی

ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ کا آغاز سنہ 2011 میں ہوا تھا۔ انگلینڈ نے اس رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس ٹی ٹوئنٹی عالمی رینکنگ میں پاکستان کی ساتویں پوزیشن تھی لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کارکردگی میں اس قدر بہتری آتی گئی کہ اس کا اثر عالمی رینکنگ میں بھی دکھائی دینے لگا۔

پاکستانی ٹیم اس سے قبل دو مرتبہ مختصر عرصے کے لیے ٹی ٹوئنٹی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن میں آنے کے بعد تیسری مرتبہ 28 جنوری 2018 کو عالمی نمبر ایک پر آ گئی۔ اس مرتبہ یہ دورانیہ 30 اپریل 2020 تک یعنی 884 دنوں تک قائم رہا۔ یہ برتری بالآخر یکم مئی 2020 کو آسٹریلیا نے ختم کی۔

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز میں پاکستانی ٹیم کی شاندار کارکردگی پر مبصرین اور ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ اس دور میں بابراعظم، فخر زمان، شاداب خان، محمد عامر، فہیم اشرف اور عماد وسیم کی کارکردگی اور کامبینیشن کے تسلسل کے باعث پاکستان کو یہ مقام حاصل ہوا۔

سینیئر کھلاڑیوں میں شعیب ملک، محمد حفیظ اور کپتان سرفراز احمد موجود تھے جن کے ہوتے ہوئے ٹیم اچھے نتائج دے رہی تھی۔ اس دور میں بیٹنگ اور بولنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔

رمان رئیس حارث

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز میں پاکستانی ٹیم کی شاندار کارکردگی پر مبصرین اور ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ اس دور میں بابراعظم، فخر زمان، شاداب خان، محمد عامر، فہیم اشرف اور عماد وسیم کی کارگردگیوں اور کامبینیشن کے تسلسل کے باعث اسے یہ مقام حاصل ہوا

پھر وہ دن کہاں غائب ہو گئے؟

پاکستانی ٹیم نے سرفراز احمد کی قیات میں لگاتار گیارہ سیریز جیتنے کے بعد شعیب ملک کی کپتانی میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز ہاری۔ سری لنکا کے خلاف ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز ٹرننگ پوائنٹ تھی جس نے صورتحال یکسر تبدیل کر دی۔

اس سیریز میں سری لنکا کی ایک کمزور ٹیم سے تین صفر کی شکست کے بعد کھلاڑی تو وہی رہے لیکن سرفراز احمد کپتان نہ رہے حالانکہ اس سیریز میں وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بھی تھے۔

بہت سے مصبرین آج بھی اس بات پر متفق ہیں کہ احمد شہزاد اور عمراکمل کو کسی مضبوط دلیل اور جواز کے بغیر ٹیم میں لانے سے اس سیریز میں کامبینیشن خراب ہوا اور نزلہ کپتان سرفراز احمد پر گرا حالانکہ وہ اس سلیکشن کے حق میں نہیں تھے۔

سرفراز احمد پاکستان کی تاریخ کے سب سے کامیاب ٹی ٹوئنٹی کپتان ہیں جنھوں نے 37 میں سے 29 میچز جیتے اور صرف آٹھ میں شکست ہوئی۔

سرفراز احمد کے کپتانی سے ہٹنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے 32 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے ہیں جن میں 16 جیتے ہیں، 10 ہارے ہیں اور 6 نامکمل رہے ہیں۔ اس دوران وہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی بڑی ٹیموں کو ہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس نے زمبابوے اور جنوبی افریقہ کو دو دو مرتبہ جبکہ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کو ایک ایک بار ہرایا ہے۔

سرفراز

سرفراز احمد پاکستان کی تاریخ کے سب سے کامیاب ٹی ٹوئنٹی کپتان ہیں جنھوں نے 37 میں سے 29 میچز جیتے اور صرف آٹھ میں شکست ہوئی

’حکومت تبدیل ہوتی ہے تو پی سی بی میں بھی تبدیلی آتی ہے‘

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کہتے ہیں کہ ’ٹیم کی کارکردگی اوپر سے نیچے آنے کی سب سے بنیادی وجہ بہت زیادہ تبدیلیاں ہیں۔

’حکومت تبدیل ہوتی ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ نیا چیئرمین، نیا کپتان، نیا کوچ اور نیا چیف سلیکٹر لے آتا ہے ان تمام تبدیلیوں کا براہ راست اثر ٹیم کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔‘

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ’پچھلے چند برسوں کے دوران بہت سارے کھلاڑی آزمائے گئے ہیں کوچ بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ مضبوط اور کمزور ڈھانچے والے ممالک کا فرق سب پر واضح ہے۔

’بڑے ممالک ٹی ٹوئنٹی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ آئی پی ایل اور بگ بیش کی مثالیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ ویسٹ انڈیز نے بھی اندازہ لگا لیا ہے کہ اس کے کھلاڑی ٹیسٹ اور ون ڈے کے بجائے ٹی ٹوئنٹی میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں لہٰذا انھوں نے بھی اس فارمیٹ پر توجہ دینی شروع کر دی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سخت گیر کپتان، ٹیم میں اختلافات اور ایک ناقابل یقین فتح

ʹلوگ کہتے ہیں ہروا دیا کوئی یہ نہیں کہتا میچ آخری اوور تک میں ہی لایا تھاʹ

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021 میں پاکستان کے میچ کب، کہاں اور کس کے ساتھ کھیلے جائیں گے؟

مائیکل ہسی کے وہ چھکے جن کے بعد غیر تو غیر گھر والے بھی سعید اجمل کے لیے بدل گئے

راشد لطیف کے خیال میں ʹکپتان کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ سنہ 2019 کے عالمی کپ نے تباہی پھیری۔ کرکٹ کمیٹی بنی جس میں مصباح شامل تھے پھر وہی مکی آرتھر کی جگہ کوچ بن گئے۔ کپتان تبدیل کر دیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہاں تک کہ بولنگ کوچ اظہر محمود جن کے ہاتھ سے سارے ٹی ٹوئنٹی بولر بنے تھے انھیں بھی ہٹا دیا گیا۔ ہائی پرفارمنس سینٹر مضبوط نہیں ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں دنیا بہت آگے جا چکی ہے لیکن ہم پرانے طور طریقوں سے کوچنگ کر رہے ہیں۔

’پاور ہٹنگ کیسے ہونی ہے اس بارے میں بایو مکینک کنسلٹنٹ کوچ بتاتا ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر ٹیمیں نہیں بنتیں۔ اب یہ دور کاؤنٹر اٹیک کا ہے اور اس میں سب سے کمزور ٹیم پاکستان کی ہے۔‘

فخر زمان

راشد لطیف کے خیال میں ’سنہ 2019 کے عالمی کپ نے تباہی پھیری۔ کرکٹ کمیٹی بنی جس میں مصباح شامل تھے پھر وہی مکی آرتھر کی جگہ کوچ بن گئے۔ کپتان تبدیل کر دیا گیا۔’

ٹیم میں متواتر تبدیلیوں کے بارے میں راشد لطیف کی بات کا جائزہ لیں تو سنہ 2018 سے اب تک پاکستان 18 کھلاڑیوں کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں لا چکا ہے۔ سنہ 2018 میں شاہین شاہ آفریدی، حسین طلعت اور آصف علی کو کیپ دی گئی۔

سنہ 2019 میں وقاص مسعود، امام الحق، محمد موسی، خوشدل شاہ، اور محمد حسنین کو موقع دیا گیا۔ سنہ 2020 میں احسان علی، حارث رؤف، حیدر علی، عثمان قادر اور عبداللہ شفیق پر قسمت مہربان ہوئی۔ جبکہ موجودہ سال میں اب تک زاہد محمود، دانش عزیز، ارشد اقبال، اعظم خان اور محمد وسیم جونیئر ٹی ٹوئنٹی کیپ حاصل کر چکے ہیں۔

’بہت زیادہ تبدیلیاں نقصان دہ‘

سابق فاسٹ بولر عمر گل کہتے ہیں کہ ’بہت زیادہ تبدیلیوں کی وجہ سے ٹیم سیٹ نہیں ہو پاتی۔ اس وقت بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ نئے کھلاڑی آ گئے ہیں۔ ٹیم میں اس وقت کوئی سینیئر بولر نہیں ہے جو پریشر کی صورت میں نوجوان بولرز کی رہنمائی کر سکے۔‘

عمر گل کا کہنا ہے ’جب آپ ایک ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں تو ایک کامبینیشن بن جاتا ہے۔ ہمارے دور میں ہر کھلاڑی کو اپنے رول کا پتہ تھا۔ اس وقت میں شاہد آفریدی اور سعید اجمل بولنگ میں نمایاں تھے۔ ہم 140 کر کے بھی پرامید ہوتے تھے کہ ہم یہ میچ جیت جائیں گے۔‘

پاکستانی ٹیم کے سابق آف سپنر سعید اجمل کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ماضی کی کامیابیوں کو دیکھیں تو اس کا بڑا سبب ہماری بولنگ تھی۔ اگر صحیح کامبینیشن بنے تو بولنگ ٹورنامنٹ جتواتی ہے جبکہ بیٹسمین میچ جتواتے ہیں۔

’اس وقت ہمارے پاس حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی ہیں لیکن درمیان میں وکٹیں لینے والا لیگ سپنر کوئی نہیں ہے۔ ہمیں شروع میں وکٹیں مل جاتی ہیں درمیان میں حریف ٹیمیں دس اوورز کھیل جاتی ہیں اور آخر میں پھر مار پڑتی ہے۔ اگر درمیان کے اوورز میں وکٹیں مل جائیں تو آخری اوورز میں بھی بولرز پریشر قائم کر سکتے ہیں۔‘

بابر رضوان

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام لکھیں تو بابراعظم اور محمد رضوان کے بعد آپ سوچتے ہیں کہ ان کے بعد کون ہے؟‘

بابراعظم اور رضوان کے بعد کون؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کہتے ہیں کہ ’اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نہ کھلاڑی کو پتہ ہے کہ وہ کتنا اچھا ہے نہ سلیکٹرز کو معلوم ہے کہ کون سا کھلاڑی کتنا اچھا ہے۔‘

’اگر آپ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام لکھیں تو بابراعظم اور محمد رضوان کے بعد آپ سوچتے ہیں کہ ان کے بعد کون ہے؟ اسی طرح بولنگ میں حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی کے بعد ہاتھ رک جاتے ہیں کہ آگے کیا لکھیں۔‘

عاقب جاوید کی اس بات کو اگر ہم اعداد و شمار کی شکل میں دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی ٹیم جو اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر ہے اس کی بیٹنگ مکمل طور پر بابراعظم اور محمد رضوان پر انحصار کر رہی ہے۔

یہ دونوں اسی سال تین مرتبہ سنچری پارٹنرشپ قائم کر چکے ہیں۔ اس سال محمد رضوان کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بنائے گئے رنز کی تعداد 752 ہے جبکہ بابراعظم 523 رنز بنا چکے ہیں۔

لیکن ان کے بعد تیسرا سب سے بڑا سکور صرف 183 ہے جو فخر زمان کا ہے۔ محمد حفیظ جنھوں نے گذشتہ سال اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس سال محض 106 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ اس سے مڈل آرڈر بیٹنگ کی ناکامی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مڈل آرڈر میں جن بیٹسمینوں کو آزمایا جا چکا ہے ان میں سب سے زیادہ مواقع آصف علی اور حیدر علی کو ملے ہیں لیکن وہ اپنے ٹیلنٹ سے انصاف نہیں کر سکے ہیں۔ اعظم خان، صہیب مقصود اور شرجیل خان کو سب سے بڑا مسئلہ فٹنس کا درپیش رہا ہے۔

بولنگ میں شاداب خان کا غیر مؤثر ہونا پاکستانی ٹیم کے لیے بہت نقصان دہ رہا ہے جو آخری دس اننگز میں بولنگ کرتے ہوئے صرف دو مرتبہ تین تین وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور ان دس میں سے چھ میچز ایسے ہیں جن میں وہ ایک بھی وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

کیا پاکستان آنے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ان غلطیوں سے سبق سیکھ پائے گا اور اس زوال کو دوبارہ عروج میں تبدیل کر سکتا ہے؟ یہ سوالات پاکستان کے ہر کرکٹ مداح کے ذہن میں ہیں اور ان کے جوابات ہمیں اسی ماہ کے آخر میں مل جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments