بائیس لاکھ آبادی کا جرمن قصبہ اور اس کے تین نوبل انعام یافتہ


جیسے ہی ادب پر نوبل پرائز کے ملنے کا وقت آتا ہے، اردو میں تخلیق کیے گئے ادب پر نوبل انعام ملنے کے امکانات کی بحث چھڑ جاتی ہے۔ اردو برصغیر، خاص طور سے پاکستان میں پڑھے جانے والی ایک بڑی زبان ہے۔ بلاشبہ اس زبان کو لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اکثر ایسا ہوا کہ جرمنی کے بڑے شہر ہیمبرگ کی سیاحت کر آتا تھا لیکن اس کے پڑوس میں بسے ہوئے چھوٹے سے شہر کے دیدار سے محروم رہ جاتا تھا۔ آخرکار ایک روز تہیہ کیا کہ معمولی سی آبادی کے اس چھوٹے سے شہر میں کچھ روز گزارے جائیں۔

انصاف کا تقاضا تو نہیں کہ دو لاکھ بیس ہزار کی آبادی کے ایک جرمن شہر ”لوبیک Lübeck“ کا کئی کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی یا لاہور سے موازنہ کیا جائے۔ اس معمولی سی آبادی والے جرمن شہر کے تین شہریوں کو نوبل انعام حاصل کرنے کا اعزاز ملا تھا۔ لوبیک کے شہری تھومس مانThomas Maan کو 1922 میں نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے کئی موضوعات کو اپنا موضوع بنایا تھا لیکن ان کے مشہور ناول Buddenbrooks نے نوبل انعام دینے والی کمیٹی کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ اس ناول کے علاوہ The magic mountain بھی ان کا ایک مشہور ناول تھا۔ ان کے نوبل انعام یافتہ ناول میں ایک رئیس تاجر خاندان کے رفتہ رفتہ تنزل کو موضوع بنایا گیا تھا۔

اسی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک اور ادیب ”گنٹر گراس Günter Grass نے جرمن ادب کو بے پناہ دولت عطا کیتھی۔ آپ نے اپنی نوجوانی میں کان کن اور کسان کے طور پر زندگی گزار کر اسے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ آپ نے آرٹ کی تعلیم حاصل کی تھی، ان کی پہلی کتاب ان کی شاعری تھی۔ آپ بعد میں نثر لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور ساتھ ہی سیاست میں تنقیدی رجحان رکھنے والے گروپ 47 میں شامل ہو گئے۔ آپ سوشل ڈیمو کریٹ میں شامل ہوئے اور جرمنی کی تقسیم کے خلاف توانا آواز اٹھائی۔ آپ کے ناول The Tin drum نے نوبل انعام حاصل کیا۔ اس ناول پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔

ولی برانڈ Willy Brand ایک جرمن سیاستدان تھے جو سوشل ڈیموکریٹ پارٹی SPD سے وابستہ تھے۔ انہوں نے پولینڈ، سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی خدمات کو سراہنے کی خاطر انہیں نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا تھا۔

لوبیک شہر، پاکستان کے شہروں کی آبادی لحاظ سے اسے قصبہ ہی سمجھ لیجیے۔ اس قصبے کی گلیوں سے گزرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جرمنی یا یوں کہہ لیجیے کہ یورپی ادیب تخلیق کی انتہا کو کیوں چھوتا ہے؟ مجھے اپنے اس سوال کا جواب یورپین شہریوں، یورپین دانشوروں سے گفتگو کرتے ہوئے مل جاتا ہے۔ ان کی گفتگو لاجک، بے خوفی اور گہرے مطالعے کی جھلک، آزادیٔ فکر سے بھرپور ہوتی ہے۔ جس طرح سے ایک یورپین ادیب بے باک ہو کر لکھتا ہے اسی طرح یہاں کا قاری بھی لاجواب ہے، قابل قدر کام رات و رات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتا ہے۔

نوبل پرائز حاصل کرنے والے بہت سے ادیب سیاسی جدوجہد کے میدان میں بھی عملی طور پر نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں گنٹر گراس کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ ہمارے ادیبوں میں ایک محدود پیمانے پر فیض صاحب اور ان سے کچھ زیادہ جالب صاحب تو میدان عمل میں نظر آتے ہیں لیکن ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی کی ترویج کرنے والے ادیب آپ کو شاید ہی جہادیوں کی صف میں عملی طور پر نظر آئیں۔ اردو ادب سے متعلق ایک اور اہم بات پہلے مرغی اور یا پہلے انڈے والا مسئلہ بھی ہے۔

کیا ادب اس لئے رو با زوال ہے کہ اچھے اور قاری ناپید ہیں یا اچھا ادب نہ تخلیق ہونے کی وجہ سے قارئین کی تعداد کم ہوتے جا رہی ہے۔ جہاں تک یورپین معاشرے کی بات ہے تو تمام تر ڈیجیٹل انقلاب کے باوجود پڑھنے کے رجحان میں کوئی کمی نہیں البتہ اب بہت سے قاری ای بک کے فارمیٹ میں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ لوبیک جاتے ہوئے ایک بزرگ جرمن ماہر نفسیات میرے ہمسفر تھے جنہیں اپنی والدہ کی عیادت کو ہیمبرگ جانا تھا۔ انہوں نے مجھے ہیمبرگ کے ایک قدیم کافی ہاؤس میں کافی پینے کی دعوت دی جو میں نے فوری طور پر قبول کرلی۔

کافی پینے کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ اردو ادب کے نقاد اکثر ادب پاروں سیگمنٹ فرائیڈ کے خیالات کے تحت تجزیہ کرتے ہیں۔ کچھ دیر کے لئے وہ خاموش ہو گئے پھر انہوں نے اپنے عینک کے موٹے عدسوں کی اوٹ سے مجھے گھورتے ہوئے دیکھ کر دریافت کیا: ”تمہارے نقاد ابھی تک فرسودہ نظریات کے تحت تنقیدی تجزیہ کیوں کرتے ہیں“ میرے پاس ان کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا تو میں نے لاعلمی کا اقرار کرتے ہوئے جدید نفسیات پر ان کی گفتگو سننے پر اکتفا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments