ایئر انڈیا خسارے کی شکار قومی ایئرلائن ٹاٹا گروپ کو فروخت کر دی گئی


ایئر انڈیا
ایئر انڈیا کئی سالوں سے خسارے میں تھی
انڈیا نے اپنی خسارے میں ڈوبی ہوئی قومی ایئرلائن ایئر انڈیا ملک کے سب سے بڑے کاروباری ادارے ٹاٹا گروپ کو فروخت کر دی ہے۔

حکومت نے یہ ایئرلائن اس کمپنی کو 2.4 ارب ڈالر کی بلند ترین بولی پر فروخت کی ہے۔

ٹاٹا گروپ نے ہی سنہ 1932 میں اس ایئرلائن کی بنیاد رکھی تھی اور سنہ 1953 میں انڈین حکومت نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔

یہ ایئرلائن اس وقت ساڑھے نو ارب ڈالر کے خسارے میں ہے اور حکومت اسے کافی عرصے سے فروخت کرنا چاہ رہی تھی۔

مگر حال ہی میں اس نے قرض کی شرائط میں نرمی کر کے اس معاہدے کو خریدار کے لیے آسان بنا دیا تھا۔

یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ ٹاٹا گروپ نئی شرائط کے تحت کتنا قرض اپنے ذمے لے گا۔

ایئرلائن کے حصول کے کچھ ہی منٹوں بعد ٹاٹا سنز کے چیئرمین رتن ٹاٹا نے کمپنی کے سابق چیئرمین جہانگیر رتنجی دادابھائی ٹاٹا کی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ ایئر انڈیا کے ایک طیارے کے ساتھ ہوائی اڈے پر کھڑے ہیں۔

https://twitter.com/RNTata2000/status/1446431109122650118


یہ فروخت وزیرِ اعظم نریندر مودی کی بڑی کامیابی ہے جو ایئرلائن میں انڈین حکومت کا مکمل حصہ فروخت کرنے کی کوشش میں تھے۔

ایئر انڈیا کے کئی اثاثے ہیں جن میں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر خصوصی طور پر متعین وقت، 130 سے زیادہ طیارے اور ہزاروں کی تعداد میں تربیت یافتہ پائلٹس اور عملے کے ارکان شامل ہیں۔

ٹاٹا سنز کے پاس پہلے ہی انڈیا میں دو ایئرلائنز ہیں۔ وسٹارا نامی فل سروس ایئرلائن سنگاپور ایئرلائنز کی شراکت سے اور ایئر ایشیا انڈیا نامی بجٹ ایئرلائن ملائشیا کی ایئر ایشیا بی ایچ ڈی کے تعاون سے چلائی جا رہی ہیں۔

ایئر انڈیا کو کیوں فروخت کیا گیا ہے؟

قومی ایئرلائن سنہ 2007 میں ملکی سطح پر آپریٹ کرنے والی سرکاری انڈین ایئرلائنز کے ساتھ انضمام کے بعد سے خسارے میں ہے اور اپنا کام جاری رکھنے کے لیے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ملنے والی مالی معاونت پر منحصر تھی۔

حکومت نے کہا تھا کہ اس ایئرلائن کو چلائے رکھنے سے روزانہ 20 کروڑ روپے (26 لاکھ ڈالر) کا نقصان ہو رہا ہے۔

سال در سال اس ایئرلائن نے فضائی ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ایئرپورٹ استعمال کرنے کے بڑھتے ہوئے خرچ، کم خرچ ایئرلائنز سے بڑھتی ہوئی مسابقت، روپے کی قدر میں کمی اور اس کی خراب مالی کارکردگی کے باعث سود کے بوجھ کو اس سب کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

ایئر انڈیا کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیتیندر بھارگوو نے کہا تھا کہ ایئر انڈیا ‘اپنی سروس کے ناہموار معیار، طیاروں کے ناکافی استعمال، وقت کی عدم پابندی، کارکردگی کے پرانے طریقوں، منافع کمانے کے ہنر کی عدم موجودگی اور عوام میں خراب تاثر کی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہے۔’

کیا پہلے بھی اسے فروخت کرنے کی کوششیں ہوئیں؟

سنہ 2001 میں بی جے پی کی حکومت نے ایئرلائن میں حکومت کا 40 فیصد حصہ فروخت کرنے کی کوشش کی تھی۔

کئی غیر ملکی ایئرلائنز بشمول لفتھانسا، برٹش ایئرویز اور سنگاپور ایئرلائنز نے اس میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم جب حکومت نے بولی لگانے کی خاطر اُن کی کسی انڈین کمپنی سے شراکت کو لازمی قرار دیا تو وہ ایئرلائنز اس سے دستبردار ہو گئیں۔

اس کے بعد سنہ 2018 میں مودی حکومت نے ایئرلائن میں 76 فیصد حکومتی شیئرز اور اس کے قرض کا کچھ حصہ فروخت کرنے کی کوشش کی تھی مگر ممکنہ خریداروں کو اس کی شرائط پرکشش محسوس نہیں ہوئیں۔

جنوری 2020 میں حکومت نے ایئر انڈیا میں اپنا پورا حصہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔

شہری ہوابازی کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے کہا: ‘ایئرلائن کی نجکاری یا اسے بند کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔’

گذشتہ سال دسمبر کے اختتام تک ایئر انڈیا کے لیے دو بولیاں موصول ہوئی تھیں جن میں سے ایک ٹاٹا سنز کی تھی اور دوسری اس کے ملازمین کے ایک گروپ اور امریکی سرمایہ کار فرم انٹیرپس کی طرف سے تھی۔

یہ بھی پڑھیے

بھینسوں اور گاڑیوں کے بعد سرکاری پراپرٹی ’برائے فروخت‘

یورپی یونین ائیر سیفٹی ایجنسی کے پی آئی اے پر کیا اعتراضات ہیں؟

سپریم کورٹ نے حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے روک دیا

ستمبر میں سپائس جیٹ نامی بجٹ ایئرلائن کے مالک اجے سنگھ نے بھی ذاتی طور اس ایئرلائن کے بولی لگائی تھی۔

اس وقت حکومت نے ایئر انڈیا، اس کے کم قیمت حصے ایئر انڈیا ایکسپریس اور ایئر انڈیا ایئرپورٹ سروسز کو مکمل طور پر فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایئر انڈیا کی 14 ہزار سے زیادہ افراد پر مبنی افرادی قوت کو نئے خطوط پر استوار کرنا نئے مالکان کے لیے ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔

ایئر انڈیا اب بھی پرکشش کیوں ہے؟

اپنے 130 طیاروں کے بیڑے کے علاوہ نئے خریدار کو ملکی ایئرپورٹس پر ایئر انڈیا کے چار ہزار 400 مقامی اور 1800 بین الاقوامی لینڈنگ کے خصوصی اوقات اور پارکنگ کی خصوصی جگہوں، جبکہ غیر ملکی ایئرپورٹس پر 900 خصوصی سلاٹس کا بھی کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔

اس کے علاوہ ایئر انڈیا کے پاس کروڑوں ڈالر کی انتہائی قیمتی جائیدادیں بھی ہیں۔ وزارتِ ہوابازی کے مطابق گذشتہ سال مارچ تک اس کے ٹھوس اثاثے بشمول زمینوں، عمارتوں اور طیاروں کی مجموعی قدر 450 ارب انڈین روپے (6 ارب ڈالر) سے زائد تھی۔

اس کے علاوہ ایئر انڈیا کے پاس 40 ہزار آرٹ کے نمونے اور جمع کرنے لائق اشیا موجود ہیں جن میں ہسپانوی آرٹسٹ سیلواڈور ڈیلی کا ڈیزائن کیا گیا اور تحفے میں دیا گیا ایش ٹرے بھی شامل ہے۔

اس کے بدلے میں ایئرلائن نے ڈیلی کو ہاتھی کا بچہ تحفے میں دیا تھا جسے طیارے میں سپین پہنچایا گیا تھا۔

انڈیا کو توقع ہے کہ مسافروں کی تعداد 20 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھے گی اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا کی مقامی مارکیٹ میں اب بھی ہوابازی کی خدمات کی بہت کمی ہے، چنانچہ ایئر انڈیا ماہرین کے مطابق ٹاٹا گروپ کے لیے کافی پرکشش ہے۔


ایئر انڈیا کی تاریخ کے اہم واقعات

An employee is seen behind the ticket window of India's flagship carrier Air India displaying its logo the

  • 1932: جہانگیر رتنجی دادابھائی ٹاٹا کی سربراہی میں ٹاٹا سنز نے ٹاٹا ایئرلائنز کی بنیاد رکھی۔
  • 1946: اسے ایک پبلک کمپنی بنا کر اس کا نام ایئر انڈیا رکھ دیا گیا۔
  • 1948: انڈین حکومت نے اس ایئرلائن میں 49 فیصد حصہ حاصل کر لیا۔
  • 1953: حکومت نے ایئر انڈیا کو قومی تحویل میں لے لیا
  • 2007: ایئر انڈیا کو صرف ملکی سطح پر خدمات فراہم کرنے والی انڈین ایئرلائنز کے ساتھ ضم کر دیا گیا
  • 2007-08: ایئر انڈیا کو 33 کروڑ 40 لاکھ انڈین روپوں (46 لاکھ ڈالر) کا نقصان ہوا
  • 2018: 76 فیصد حصہ فروخت کرنے کی کوشش کی گئی مگر کسی نے بولی نہیں لگائی
  • 2019: ایئر انڈیا نے بتایا کہ اس کا کُل خسارہ 12.8 ارب روپے ہے جو سنہ 2007 میں اس کے انضمام سے اب تک سب سے زیادہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments