میں اور خدا


اس پر ایمان لانا میری مجبوری ہے۔ وہ میری محنت کا کچھ حصہ اپنے پاس ادھار رکھتا ہے۔ میں جب سرتوڑ کوشش کروں تو نتیجہ امید سے گھٹا کر اور کچھ محنتوں پر میرے استحقاق سے بڑھا کر دیتا ہے۔

اب ایسی ہستی جس کی طرف آپ کا حساب کتاب (خصوصاً ادھار) نکلتا ہو۔ اسے کیسے نہ مانیں؟

کوئی تیسری بار میں نے مولانا صاحب کے سامنے رکھے اس طشت کو دیکھا جس میں مٹھائی رکھی تھی۔ وہ اور ساری محفل جی جان کے ساتھ دعا میں مشغول تھے۔ اور مجھے اس وقت کا انتظار تھا کہ جب دعا ختم ہوتی اور مجمع اس تھال پر ٹوٹ پڑتا۔

مجھے ادھر ادھر دیکھتا پا کر تایا جان نے گھرکا۔
تم دعا کیوں نہیں مانگ رہے؟ ”ان کی غصیلی آنکھیں مجھ پر جمی تھیں“ ۔

تایا جان ہمارے گھر کے سب سے غصیلے، روکھے اور بہت حد تک بدمزاج فرد تھے۔ وجہ شاید ان کی بے اولادی تھی۔ جس کا فائدہ انہیں یہ تھا کہ ان کے رویے پر کوئی بھی سوال نہ اٹھاتا تھا۔

میں نے جواباً ہتھیلیاں اٹھا دیں۔

گو کہ یہ کام میرے لئے رسم سے بڑھ کر کچھ نہ تھا۔ اب اگر سب لوگ خدا سے مانگ رہے تھے اور اس طرح انہیں سب کچھ مل بھی رہا تھا تو کیوں نہ میں بھی اپنے لئے دو پیکٹ مٹھائی اور میتھس میں پاسنگ مارکس مانگ لوں؟

یہ سوچ کر میں نے بقیہ لوگوں کی پیروی میں آنکھیں بند کر کے ہونٹ ہلائے۔
رسم پوری ہوئی۔ مجمع بے چین ہونے لگا۔ مٹھائی بٹنے لگی۔ ایک پیکٹ میرے ہاتھ لگا۔

اونہوں۔ شکر پارے؟ میں نہیں کھاتا ”معیز نے اپنے حصے کا ایک پیکٹ مجھے تھما دیا۔ اور دو پیکٹ والی دعا قبول۔ ہو گئی۔

”دعا میں کیا مانگا؟“

گھر کے دروازے میں داخل ہوتے ہی اماں نے پوچھا جنہوں نے خاص دعا مانگنے کی تاکید کے ساتھ مسجد بھیجا تھا۔

”دو شکر پاروں کے پیک“ میں نے ایک شکر پارہ دائیں جبڑے میں دباتے ہوئے کہا۔
”ہائیں؟ بس یہی؟“ وہ حیران ہوئیں۔
”تو اور کیا مانگتے ہیں؟“ میں نے آنکھیں گھما کر پوچھا۔
”خدا سے ہدایت مانگتے ہیں“ انہوں نے سمجھانا چاہا۔

”تایا ابا روز مانگتے ہیں انہیں تو آج تک ملی نہیں“ مجھے لگا تھا ہدایت شاید ان کی دوسری نہ ہونے والی بیوی کا نام ہو گا۔ جسے وہ اور دادی اماں دل و جان سے مانگتے تھے۔ لیکن تائی کی وجہ سے وہ مل نہیں پا رہی تھی۔

”ارے۔ سنا تم نے یہ بلو کیا کہ رہا؟ کہ رہا تایا ابا کو ہدایت نہیں ملی آج تک۔ اے بہو! یہ تربیت کی ہے تم نے اپنے بلو کی۔ اور دیکھو تو کیسے اکیلا کھائے جا رہا ہے؟ گھر میں چچا تایا کے بچے بھی ہیں مجال ہے جو انہیں بھی پوچھ لے“ دادی کی کرخت آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔

بھئی حد ہے۔ ہدایت کیا اتنی بری شے تھی جو کوئی اپنے لئے مانگ لے تو قیامت آ جاوے۔ میں نے کلس کر سوچا
”خدا تمہیں ہدایت دے“ میں نے لوگوں کو اس بات پر بڑا برا مناتے دیکھا ہے۔ کیا یہ اتنی بری شے تھی؟

”بلال۔ باقی بچوں کو بھی دو اس پیک میں سے“ اماں کے کہنے کی دیر تھی کہ وہ یاجوج ماجوج کھانے کا نام سن کر کونے کھدروں سے نکل کر آ گئے۔

اف! یہ مشترکہ خاندانی نظام۔ اس میں اکلوتا انسان، اپنی پسند کی شے پیٹ بھر کر کھا بھی نہیں سکتا۔ پہلے آس پاس والوں کا منہ بھرو پھر اپنے لئے کچھ سامان کرو۔ نہیں تو قیامت پکی۔

میں اس بن بلائی ضیافت پر رو دینے کو تھا۔ یہ پیک میری دعا کا ثمر تھے اور میں ان سب کو دے دوں؟

”میں نہیں دوں گا۔ یہ خدا نے خاص میرے لئے بھیجے ہیں، اس دعا کے نتیجے میں جو میں نے مسجد میں بیٹھ کر مانگی تھی۔“

”خدا نے ان کا حصہ ساتھ بھیجا ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہوتا ہے۔ وہ تنہا ہمارے لئے نہیں ہوتا“ اماں نے کہا
”ایویں؟ خدا کے پاس اتنے سارے پیک تھے۔ ان سب کے لئے الگ بھیج دیتا“
”کم بخت! اکیلا کھائے گا؟ بہن بھائیوں کے بغیر؟ رک! تیری خبر لیتی ہوں“

اماں نے پیک میرے ہاتھ سے لیا اور چچا تایا کے بچوں میں بانٹ دیا۔ میں نے زمین پر لیٹ کر احتجاج کرنا چاہا تو اماں نے دو کان کے نیچے لگائیں اور دوسرا پیک آدھا خالی کر کے پکڑا دیا۔

”یہ پکڑ تیرا حصہ“ ایک خاکی کور میں آدھے سے بھی کم شکر پارہ تھا۔ میں نے پیک اٹھا کر زمین پر دے مارا۔
ندیدوں نے وہ بھی نہ چھوڑا۔ اٹھایا اور آن کی آن میں چٹ کر گئے۔

”میں نے آئندہ خدا سے کچھ نہیں مانگنا۔ خدا سب کا حصہ ایک ہی پیک میں ڈال کردے دیتا ہے۔“ مجھے رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا۔

اسی شام جب تایا ابا میری مارکس شیٹ ہاتھ میں اٹھائے گھر آئے تو میں ہول اٹھا۔ گھبرا کر کمرے میں آیا اور اماں کی مار سے بچاؤ کے ممکنہ راستے سوچنے لگا۔

کیا پتہ اللہ نے میری دعا قبول کرلی ہو اور میں میتھس میں پاس ہو گیا ہوں؟ لیکن اگر اللہ اتنی ہی دعائیں قبول کرتا ہے تو تایا جی کو ہدایت (نئی تائی) مل جانی چاہیے تھی۔ جو کہ نہیں ملی۔

عدم تحفظی بڑھ گئی۔ اب تو مار یقینی تھی۔ خدا پر جو تھوڑا بہت یقین تھا وہ متزلزل ہونے لگا۔

لیکن میں نے اپنے طور سے پوری کوشش کی تھی۔ مجھے یاد آیا۔ دو چار کوئسچن میرے بالکل ٹھیک تھے۔ میں نے خدا پر نتیجہ چھوڑے بناء اپنے طور پر بتیس نمبر پورے کیے تھے۔ اب ایک نمبر تو خدا مجھے دلوا ہی سکتا تھا۔

ابھی سوچ بچار میں گم تھا کہ رمیز دوڑا ہوا آیا۔
”تم پاس ہو گئے ہو“
”میتھس میں بھی؟“
”ہاں میتھس میں بھی“

اچھا؟ مجھے حیرت ہوئی۔ کامیابی کے لئے بتیس نمبر خود اپنے بل بوتے پر لیے ہوں تو ایک خدا دے ہی دیتا ہے۔ اس دعا کے عوض جو ہم نے کبھی مانگی ہوتی ہے۔

لیکن تایا جی؟ انہیں ہدایت کیوں نہ ملی؟
اس کا جواب تو خدا ہی دے سکتا تھا۔ کیوں کہ لوگ ایسے سوالوں پر خاصا برا مناتے ہیں۔

ہوا یوں کہ محلے کے ایک کڑیل جوان شخص نے جب اپنی ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی تو تعزیت کے لئے اماں کی انگلی تھامے میں بھی چلا آیا

”اماں! بھائی کو کیا ہوا تھا؟ معیز کہ رہا تھا کہ انہوں نے چھت سے چھلانگ لگائی تھی۔ کیا سچ میں؟“ اس گھر کی سوگواریت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا تو پوچھ لیا۔

”شش!“ گھر والوں کا لحاظ کرتے ہوئے، اماں نے آنکھیں دکھائیں۔ جو میں نے صاف نظرانداز کر دیں۔ وہ کم ازکم مجھے میزبانوں کے سامنے نہیں پیٹ سکتی تھیں۔

”بتائیں ناں اماں؟“ میں بضد ہوا تو مرحوم کے لواحقین کے سامنے، اماں نے ذرا سا کھسیا کر کہا۔

”نہیں بیٹا! جیسی خدا کی مرضی۔ انہوں نے خودبخود جان نہیں دی۔ ان کا رضائے الہی سے انتقال ہوا ہے“ خدا جانے یہ سچ تھا یا جھوٹ۔ کچھ سمجھتے اور نہ سمجھتے ہوئے میں خاموش ہو رہا۔

پھر اسی شام جب اماں نے فریج کھول کر مجھے آواز دی اور اس آئسکریم کے متعلق دریافت کیا جو میں کوئی آدھ گھنٹا پہلے چٹ کر گیا تھا۔

”آئس کریم کا ڈبہ کس نے خالی کیا؟ تم جانتے ہو وہ میں نے چھوٹی کے لئے رکھی تھی؟“ وہ غصے میں تھیں۔

”آئس کریم کا ڈبہ کسی نے خالی نہیں کیا، وہ رضائے الہی سے خود ہی خالی ہو گیا“ میں نے چہرے پر بھرپور معصومیت سمو کر کہا۔

وہ ناسمجھی سے کچھ دیر مجھے دیکھتی رہیں۔ پھر کچھ کہے بنا پلٹ گئیں۔

اس دن کے بعد میں نے ایک چیز سمجھ لی تھی۔ ہمارے یہاں اپنے کرتوتوں کو خدا پر ڈالنے کا جو رواج ہے۔ وہ صرف رواج ہی نہیں، بہت سے مسائل کا حل بھی ہے۔

مجھے یہ اسلامی معاشرتی رواج بے حد پسند آیا۔

کسی کے ناک میں دم کردو، وہ اپنی جان لے لے تو کہ دو رضائے الہی اسی میں ہی تھی۔ بغیر سوچے سمجھے اعتبار کر کے سب کچھ کسی کو سونپ دو، پھر جب اجاڑا پڑے تو کہ دو خدا نے یہی لکھ رکھا تھا۔

کسی کا مال کھا جاؤ، اور اسے باور کرا دو کہ جو مال اس کے حصہ میں نہیں آیا وہ خدا نے اس کے لئے لکھا ہی نہیں تھا۔

”ہاں بھئی جیسی خدا کی مرضی“ ہم تو بیچاری سی مخلوق ہیں جو مشیت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔
اب نہ خدا زمین پر آئے نہ اپنا لکھا اور کیا ہمیں بتائے۔
ہے ناں مزے کی بات!

پھر میں نے اپنی ہر الٹی سیدھی حرکت پر خدا کو دوش دینا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا کہ ایک دن۔ ۔ ۔

ساون کی حبس زدہ دوپہر میں، جب میں اور میرے چچا زاد بھائی غلیل میں نمولیاں بھر کر پنچھیوں کو ستا رہے تھے۔ کہ اچانک مجھے ایک بلبل کا سہما ہوا بچہ نظر آیا۔ جو نئی شاخ کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھا تھا۔ قبل اس کے میں دبے پاؤں اس تک پہنچتا کہ ایک چیخ سن کر پلٹا۔

میرا چچیرا بھائی جو بمشکل دو سال کا تھا۔ اپنی دائیں آنکھ پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھا تھا۔
خون کی پھوار اس کے کرتے کو رنگین کر رہی تھی۔ وہ ہمارے گھر کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بچہ تھا۔

”ایان کیا ہوا؟“ میں اچھل کر پیڑ سے اترا۔ اس کی آنکھ سے خون بہ رہا تھا۔ کسی نے پتھر کا ٹکڑا غلیل میں بھر کر اس کی آنکھ میں مارا تھا۔ لیکن کس نے؟ وہاں ہمسایوں کے بچوں سمیت، اتنے سارے بچے تھے۔

چچی، چچا، اماں دادی، تایا سبھی دوڑتے ہوئے آئے۔
وہ تکلیف سے زمین سے اٹھ نہیں پا رہا تھا۔
”اسے کس نے مارا؟ غلیل کس کے ہاتھ میں تھی؟“ بڑے تایا غرائے۔ انہیں یہ کھیل سخت ناپسند تھا۔

”بلال۔ بلال کے ہاتھ میں غلیل تھی۔“ ایک بچہ بولا۔ اب یہ بات تو سبھی جانتے تھے کہ میں ایک ماہر نشانے باز تھا۔

سب مجھ پر جھپٹے۔
”میں نے نہیں مارا ایان کو۔ میرے ہاتھ میں غلیل تھی لیکن میں نے ایان کو نہیں مارا۔“
”لیکن تم ہی ماہر نشانے باز ہو“
”تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ پتھر میں نے مارا؟“ میں نے کمزور سا دفاع کیا۔

”کیا کسی کا با اختیار ہونا، ماہر ہونا، مالک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ظالم بھی ہے؟ اور اسی نے یہ سب کیا ہے؟“

میری ایک نہ سنی گئی۔ اماں بس مجھے پٹتا ہوا دیکھتی رہیں۔
”خدا نے کیا“ ، ”اس نے لکھا“ ، ”خدا کی کرنی“ ۔ کہنے والا آج کچھ نہ کہ سکا۔

کاش خدا زمین پر مجسم ہو کر آئے اور میری بے گناہی کی گواہی دے۔ لیکن کیوں؟ وہ میرے گواہی کیوں دے گا جب کہ میں نے اس پر بہت سے بہتان باندھے تھے۔ وہ پہلے میرا گریبان نہ پکڑے گا؟ کہ بتا میرا نام لے لے کر تو نے کیا کیا نہ کیا؟ میں نے مایوسی سے سوچا۔

ڈاکٹر کے مطابق ایان کی آنکھ کا لینز ٹوٹ گیا تھا۔ اور آنکھ کے اندرونی حصے میں سخت چوٹ آئی تھی۔ چچا نے ملک بھر کے ہسپتال کھنگال ڈالے تھے، لیکن اس کا علاج نہ ہوسکا۔

مجھے شدید سبکی محسوس ہوتی تھی جب کوئی ہمارے گھر ایان کی عیادت کے لئے آتا۔

کیسا لگتا ہے اس غلط کاری کے الزام کا وزن اٹھانا، جو آپ نے کی ہی نہ ہو۔ میں چاہ کر بھی اس بدگمانی کو دھو نہ سکا۔

اب میں جب بھی کسی کے منہ سے ”خدا کی مرضی“ ۔ ”خدا کے کام“ جیسا فقرہ سنتا تو چپل اٹھا کر اس کی طرف دوڑتا۔

”کم بختو! بہتان بازو۔ اپنے کرتوت خدا پر ڈال کر کسے بے وقوف بنا رہے ہو۔ رکو ذرا! میں تمہاری عقل ٹھکانے لگاتا ہوں“ اور کہنے والا دوڑتا نظر آتا۔

اس رات میں نے خود کو دو محتسیین کے درمیان پایا۔ ایک خاصے اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھنے لگا۔
”خدا سے تمہارا تعلق کیسا تھا؟“

میں کچھ دیر سوچتا رہا۔ میری ساری زندگی اور اس میں اپنائے گئے درشت رویے کسی روشن سکرین پر اچانک سے نمودار ہونے والے اندھیروں کی مانند مجھے الجھانے لگے۔ میں کچھ دیر سوچتا رہا۔

”تمہارا خدا کے ساتھ تعلق کیسا تھا؟“
”مطلب کا۔ میرا خدا سے مطلب کا تعلق تھا۔“ ان دونوں نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا۔
سچا آ دمی لگتا ہے ”ایک بولا

”ہمم! سچا ہے۔ مطلب اپنے حصے سے بڑھ کر دنیا میں بھگت کے آیا ہے“ دوسرے نے پر سوچ لہجے میں کہا اور اگلا کوئی بھی سوال اٹھائے بنا خاموشی سے میرا راستہ چھوڑ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments