علی امین گنڈاپور کا 'چینی، روٹی' کم کھانے کا مشورہ: کیا یہ پاکستان میں مہنگائی جیسے مسئلے کا حل ہے؟


پاکستان کے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے حال ہی میں پاکستان کے لوگوں کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیشِ نظر 'چائے میں چینی کم ڈالنے اور روٹی کم کھانے' کا مشورہ دیا ہے۔

وہ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے جب انھوں نے مہنگائی کے حوالے سے کی جانے والی بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں چائے میں سو دانے چینی کے ڈالتا ہوں اور نو دانے کم ڈال دوں گا تو کیا وہ کم میٹھی ہو جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ہم اپنے ملک کے لیے، خودمختاری کے لیے اتنی قربانی بھی نہیں دے سکتے کہ جہاں میں آٹے (روٹی) کے سو نوالے کھاتا تو وہاں نو نوالے کم ہو جائیں۔‘

سوشل میڈیا پر صارفین ان کی تقریر کی یہ ویڈیو شیئر کر کے انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں جب وزرا یا عوامی نمائندگان نے عوام کو ایسے مشورے دیے ہیں۔ حال ہی میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف ہی کے قومی اسمبلی کے ممبر ریاض فتیانہ نے بھی بالکل ویسا ہی مشورہ دیا تھا جس کا ذکر علی امین گنڈاپور نے کیا۔

ماضی پر نظر ڈالیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت کئی جماعتوں کے رہنما اس قسم کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ خود سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پاکستان کے لوگوں کو ’روٹی کم کھانے‘ کا کہہ چکے ہیں۔

سنہ 1998 میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کو امریکہ اور عالمی دنیا کی طرف سے سخت ترین اقتصادیوں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے عوام سے خطاب کرتے ہوئے اس حوالے خبردار کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’اپنی کمر کس لیں اور صرف ایک وقت کا کھانا کھانے کے لیے تیار ہو جائیں اور میں بھی اس مصیبت میں آپ کے ساتھ شریک ہوں گا۔‘

ان کی جماعت کئی مرتبہ حکومت میں آنے کے بعد کفایت شعاری کی مہمات چلا چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی ابتدائی دنوں ہی میں کفایت شعاری کی مہم کا اعلان کیا تھا۔

مہنگائی، ایٹمی دھماکہ

تاہم کیا کسی حکومت کے لیے عوام کو کفایت شعاری یا ’روٹی کم کھانے‘ کا مشورہ دینا موزوں ہے؟

سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) اسلام آباد سے منسلک ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ ایسا مشورہ غریب عوام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

ان کے خیال میں کفایت شعاری کے مشورے یا مہمات نہ کبھی مہنگائی کا حل رہی ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں۔ ’حکومت کا کام ہے کہ وہ عام آدمی کی قوتِ خرید کو بڑھائے یا اس کی حالت کو بہتر کرے۔‘

تاہم سوال یہ ہے کہ عالمی اور قومی سطح پر موجودہ حالات میں مہنگائی پر قابو پانا حکومت کے اختیار میں ہے؟ ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں اس کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ بلند سطح پر ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔

مہنگائی

پاکستان میں مہنگائی زیادہ کیوں ہے؟

ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق پاکستان میں مہنگائی میں حالیہ اضافے کی تین بنیادی وجوہات ہیں یعنی عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور حکومت کی ٹیکس لاگو کرنے کی حالیہ پالیسیاں۔

تیسرے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں حکومت ’ریوینیو یعنی آمدن کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پیداواری اجناس جیسے ایندھن وغیرہ پر ٹیکس بڑھاتی ہے جس سے ان کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

اس طرح جن روزمرہ کے استعمال کی اشیا کی تیاری میں یہ ایندھن وغیرہ استعمال ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ نتیجتاً ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان میں حال ہی میں ایندھن کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔

تو کیا حکومت ان پر قابو نہیں پا سکتی؟

ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ ’حکومت کا ان عوامل پر کنٹرول نہیں ہے۔‘ اُن کے مطابق عالمی منڈی میں قیمتیں توقع کے برعکس بڑھیں اور ان کے بڑھنے یا کم ہونے پر پاکستان حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔

ساتھ ہی پاکستان کا درآمدی بل بہت بڑا رہا ہے۔ ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق پاکستان نیٹ امپورٹر ہے یعنی اس کی کُل درآمدات اس کی کُل برآمدات سے زیادہ ہیں اور یہ کھانے پینے کی اشیا جیسے گندم، چینی وغیرہ بھی درآمد کر رہا ہے۔ اس لیے جب تک اس کا یہ بل چھوٹا نہیں ہوتا اور تجارتی خسارہ کم نہیں ہوتا، روپے کی قدر میں بہتری آنے کی امید بھی کم ہے۔

اور آمدن بڑھانے کے لیے حکومت کو ایندھن، بجلی اور گیس وغیرہ پر ٹیکس بڑھانا پڑتا ہے۔

دوسرا پاکستان نے قرضے کی نئی قسط کے لیے ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ ’اور آئی ایم ایف بھی حکومت کو ان اجناس پر ٹیکس بڑھانے کا کہے گا۔‘

مہنگائی

تو کیا حکومت کچھ بھی نہیں کر سکتی؟

ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ایسا نہیں ہے بلکہ حکومت کئی اقدامات کر سکتی ہے۔ ان کے خیال میں سب سے بنیادی دو کام ہیں جو حکومت کو کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مہنگائی کے عوام پر اثرات کو کم کیا جا سکے۔

’سب سے پہلے مقامی سطح پر انتظامی ڈھانچے کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جو اب تک نہیں کیا جا سکا۔‘ اس سے ان کی مراد پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا مؤثر طریقے سے استعمال ہے۔

ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ اس نوعیت کی کمیٹیاں قیمتوں کے مصنوعی اضافے کو کنٹرول کرنے میں انتہائی مؤثر ہوتی ہیں اگر انھیں صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔

دوسرا ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگائی ایندھن یا غذائی اجناس کے ارد گرد ہے۔ ’پاکستان میں کسان کے کھیت سے لے کر فروخت کے مقام تک پہنچنے میں اجناس کی قیمتوں میں کمیشن کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔‘

’یہ براہِ راست مہنگائی کا سبب بنتا ہے اور یہ ایسا پہلو ہے جس پر قابو پانا حکومت کے اختیار میں ہے۔‘ ایک تیسرا راستہ یوٹیلیٹی سٹورز کے مؤثر استعمال کا بھی ہے جس کے ذریعے حکومت مہنگائی کے اثرات پر کسی حد تک قابو پا سکتی ہے۔

کیا مہنگائی کی سطح کو کم کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ’جب قیمتیں ایک مرتبہ بڑھ جائیں تو وہ نیچے نہیں آتیں یا ان کو نیچے لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

ان کے خیال میں موجود حکومت کے لیے اس بات کا اندازہ کرنے میں کافی تاخیر ہوئی کہ مہنگائی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس کے بعد انھیں یہ پتا لگانے میں دیر لگی کہ مہنگائی کی وجہ کیا تھی۔

تاہم ان کے خیال میں حکومت دو کام ایسے کر سکتی ہے جن سے عام آدمی کو مہنگائی کا زیادہ اثر محسوس نہ ہو۔

’ایک تو حکومت کو چاہیے کہ وہ سوشل پروٹیکشن یعنی سماجی تحفظ کی سکیموں کا دائرہ کار بڑھا دے۔ دوسرا اسے عام آدمی کی آمدن کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘

ان کے خیال میں اس کے علاوہ کفایت شعاری سمیت کوئی بھی دوسرا راستہ مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments