سومرسیٹ مام کے افسانے “The Verger” کا اردو ترجمہ


چوب دار

اس دوپہر سینٹ پیٹرز، نیویل اسکوائر میں بپتسمہ کی تقریب تھی اور البرٹ ایڈورڈ فورمین نے اب تک اپنا چوب داری کا گاؤن پہنا ہوا تھا۔ اس نے اپنا نیا گاون صرف، جنازوں اور شادیوں ( با ذوق لوگ ایسی تقریبات سینٹ پیٹرز، نیو ویل گرجا میں منعقد کرنا پسند کرتے تھے۔ ) کے لیے رکھا ہوا تھا جس کی کریزیں ایسی کڑک تھیں گویا وہ الپاکا (جنوبی امریکہ میں پائی جانے والی بھیڑ) اوون کی بجائے کانسی سے بنا ہو اور اس دوپہر البرٹ ایڈ ورڈ نے اپنا دوسرا بہترین گاون پہنا ہوا تھا۔

وہ یہ گاون بہت چاو سے پہنتا تھا کیونکہ یہ اس کے منصبی وقار کی علامت تھا اور اس کے بغیر (جب وہ اسے اتار کر گھر جاتا تھا) اسے لباس کے نا کافی ہونے کا پریشان کن احساس ستاتا تھا۔ وہ اپنے گاون کا بہت اہتمام کرتا تھا اور اس پر استری بھی خود کرتا تھا۔ سولہ سال سے وہ اس گرجا کا چوب دار تھا اور اس عرصے میں متعدد گاؤن اس کے زیر استعمال رہے تھے، لیکن جب وہ پرانے ہو جاتے تو وہ انہیں پھینک نہیں پاتا تھا۔ اس نے وہ تمام پرانے گاون نفاست سے خاکی کاغذ میں لپیٹ کر اپنی خواب گاہ میں موجود الماری کی نچلی درازوں میں سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔

چوب دار نے خاموشی سے سنگ مرمر کے فونٹ ( مقدس پانی کا برتن ) کا رنگین چوبی ڈھکن واپس اس پر رکھا، ایک کرسی ہٹائی جو ایک بیمار بوڑھی عورت کے لیے لائی گئی تھی اور پادری کا پوشاک گھر سے باہر نکلنے کا انتظار کر نے لگا تاکہ خود بھی وہاں کپڑے تبدیل کر کے گھر واپس جا سکے۔ اسی وقت اس نے پادری کو چانسل (گرجے کا صدر مقام) سے نکل کر عبادت گاہ کے چبوترے کے سامنے رکوع کرنے کے بعد نشستوں کے قریب آتے دیکھا؛ لیکن پادری نے بھی ابھی تک اپنا جبہ پہنا ہوا تھا۔

یہ کس لیے تاخیر کر رہا ہے؟ چوب دار نے خود کلامی کی۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ مجھے چائے پینی ہے؟

سرخ چہرے والے، لگ بھگ چالیس سالہ مستعد پادری کا حال ہی میں تقرر کیا گیا تھا۔ البرٹ ایڈورڈ کو اب بھی پرانے خیالات کا مالک پچھلا پادری یاد آتا تھا، جو اپنی کھنکتی آواز میں اطمینان سے خطبہ دیتا تھا اور گرجا سے وابستہ امراء کے ساتھ اکثر باہر کھانا کھایا کرتا تھا۔ وہ گرجا میں ہر کام اپنی مرضی کے مطابق دیکھنا پسند کرتا تھا، لیکن کبھی درد سر نہیں بنتا تھا ؛ اس نئے پادری کی طرح نہیں جو ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانا چاہتا تھا۔ مگر البرٹ ایڈورڈ تحمل سے کام لیتا تھا۔

سینٹ پیٹرز گرجا ایک اچھے علاقے میں واقع تھا اور اس میں آنے والے لوگ بہت معزز طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ نیا پادری مشرقی لندن سے آیا تھا اور اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ فوراً ہی اپنے سیدھے سادے طور طریقے ترک کر کے اپنے گرجا کے فیشن ایبل مقتدیوں کے ساتھ گھل مل جائے گا۔

”ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔“ البرٹ ایڈورڈ نے خود سے کہا۔ ”اسے وقت دیں تو سیکھ لے گا۔“

پادری نشستوں کے صرف اتنے قریب آیا کہ عبادت گاہ کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے دھیمی آواز میں چوب دار کو مخاطب کر سکے۔

` ”فور مین، کیا تم ذرا دیر کے لیے پوشاک گھر میں آؤ گے؟ مجھے تم سے ایک بات کر نی ہے۔ “
”بہت اچھا جناب۔“
پادری نے اس کے نزدیک آنے کا انتظار کیا اور پھر وہ ایک ساتھ پوشاک گھر کی طرف چل پڑے۔

” میرے خیال میں بہت اچھی تقریب تھی، جناب۔ حیرت ہے، جیسے ہی آپ نے بچے کو گود میں لیا اسی لمحے اس نے رونا بند کر دیا تھا۔“

” میں نے دیکھا ہے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ “ پادری نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ”آخر مجھے ان کے ساتھ اتنا تجربہ جو ہے۔“

پادری اس بات پر دل ہی دل میں فخر کرتا تھا کہ جیسے ہی وہ کسی روتے ہوئے بچے کو گود میں لیتا وہ فوراً چپ ہو جاتا تھا۔ اور وہ جانتا تھا کہ بچے کو اپنے جبہ پوش بازوں میں بہلاتے ہوئے، مائیں اور آیائیں اسے ستائش بھری نگاہوں سے دیکھتی تھیں۔ چوب دار جانتا تھا کہ پادری کو اپنی تعریفیں سننا پسند تھا۔ پادری نے پہلے البرٹ ایڈورڈ کو پوشاک گھر میں داخل ہونے کا موقع دیا۔ وہ پہلے سے وہاں موجود گرجا کے دو وارڈنز کو دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا۔ اس نے ان دونوں کو اندر داخل ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ وارڈنز نے اسے دیکھ کر خندہ پیشانی سے سر ہلایا۔

”سہ پہر بخیر، جناب۔ سہ پہر بخیر جناب، فورمین نے یکے بعد دیگرے دونوں کو سلام کیا۔

وہ دونوں عمر رسیدہ آدمی تھے اور تقریباً اتنے ہی طویل عرصے سے گرجا کے وارڈنز تھے، جتنے عرصے سے البرٹ ایڈورڈ منسلک تھا۔ وہ ایک خوبصورت ڈائننگ میز پر بیٹھے تھے، جو پچھلا پادری کچھ سال پہلے اٹلی سے لایا تھا۔ پادری ان دونوں وارڈنز کے درمیان والی خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ البرٹ ایڈورڈ ان کے سامنے کھڑا تھا، درمیان میں میز حائل تھی۔ وہ تھوڑا بے چین اور حیران تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ اسے اب بھی یاد تھا کہ ایک بار آرگنسٹ کسی مشکل میں پڑ گیا تھا اور ان سب نے مل کر بس اتنی زحمت کی تھی کہ معاملے کو دبا دیا تھا۔ سینٹ پیٹرز، نیویل اسکوائر جیسے گرجا میں یہ لوگ کسی اسکینڈل کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ پادری کے سرخی مائل چہرے پر مستقل اطمینان تھا، لیکن دونوں وارڈنز کچھ متفکر نظر آتے تھے۔

’یہ انہیں پریشان کر رہا ہے۔ ‘ ایڈورڈ فورمین نے سوچا۔ ’یہ ان سے کوئی ایسا کام زبردستی کرانا چاہتا ہے جو یہ لوگ قطعاً نہیں کرنا چاہتے۔ یہی بات ہے، لکھ لو میری بات۔‘

لیکن یہ خیالات ایڈورڈ فورمین کے وجیہہ چہرے پر ظاہر نہیں ہوئے۔ وہ احترام کے ساتھ کھڑا تھا لیکن اس کے انداز میں تابعداری نہیں تھی۔ گرجا میں تقرری سے پہلے وہ گھروں میں نوکری کرتا تھا، لیکن صرف معزز گھرانوں میں اور اس دوران اس کا کردار بے داغ رہا تھا۔ سب سے پہلے اس نے ایک بیوپاری کے گھر میں پیج بوائے کی حیثیت سے کام شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہوئے چوتھے سے پہلا فٹ مین بن گیا، ایک سال کے لیے ایک دولت مند بیوہ کے پاس واحد بٹلر رہا۔

سینٹ پیٹرز گرجا میں اسامی خالی ہونے تک ایک ریٹائرڈ سفیر کے پاس بھی بطور بٹلر ہی نوکری کی جہاں اس کے ماتحت دو بندے کام کرتے تھے۔ وہ دراز قد، دبلا پتلا اور باوقار آدمی تھا۔ اگر کسی ڈیوک کی طرح نہیں تو کم از کم پرانے زمانے کے کسی ایسے اداکار کی طرح دکھائی دیتا تھا جو ڈیوک کے کردار ادا کرنے میں مہارت رکھتا ہو۔ اس کے پاس مستقل مزاجی، حکمت اور خود اعتمادی تھی۔ اس کا کردار بے عیب تھا۔

پادری نے تیزی سے گفتگو کا آغاز کیا۔

”فورمین، ہمیں تم سے ایک نا خوشگوار بات کرنی ہے۔ تم بہت سالوں سے یہاں کام کر رہے ہو اور میرا خیال ہے بشپ اور وارڈنز میری بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تم نے اپنے فرائض منصبی مکمل دیانت داری سے انجام دیے ہیں۔“

دونوں وارڈنز نے سر ہلایا۔

”لیکن چند دن پہلے، ایک غیر معمولی بات میرے علم میں آئی ہے اور میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یہ بات گرجا کے وارڈنز تک پہنچاؤں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی ہے کہ تم پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔“

چوب دار کے چہرے پر شرمندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔

”پچھلا پادری یہ بات جانتا تھا، جناب۔“ البرٹ ایڈورڈ نے جواب دیا۔ ”اس نے کہا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ دنیا میں اتنا زیادہ علم اس کے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔“

” ایسی حیرت انگیز بات میں نے پہلی بار سنی ہے۔“ ایک وارڈن نے کہا۔ ”کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ سولہ سال سے تم اس گرجا کے چوب دار ہو اور کبھی پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا؟“

”جناب، بارہ سال کی عمر سے میں نے نوکری کرنا شروع کردی تھی۔ پہلے باورچی نے مجھے پڑھانے کی کوشش کی لیکن لگتا تھا کہ مجھ میں یہ اہلیت ہی نہیں اور پھر زندگی نے فرصت ہی نہیں دی، ایک کے بعد ایک ذمہ داری۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے نوجوان لوگ اپنا قیمتی وقت پڑھنے لکھنے میں ضائع کرتے ہیں جبکہ انہیں کوئی مفید کام کرنا چاہیے۔“

”لیکن کیا تم خبریں نہیں جاننا چاہتے؟ دوسرے گرجا وارڈن نے پوچھا۔“ کیا تم کبھی خط نہیں لکھنا چاہتے؟ ”

’نہیں، جناب ”میں ان کے بغیر بھی اچھی طرح گزارہ کر لیتا ہوں۔ اور اب تو پچھلے کچھ سالوں سے اخبارات میں تصاویر بھی چھپنے لگی ہیں جن کے ذریعے مجھے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا چل رہا ہے۔ رہا خط لکھنا، میری بیوی پڑھنا لکھنا جانتی ہے، اگر میں خط لکھنا چاہتا ہوں تو وہ میرے لیے لکھ دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں جوا ری ہوں۔ دونوں گرجا وارڈنز نے پادری کو پریشانی سے دیکھا اور پھر نظریں میز پر جھکا لیں۔

”ٹھیک ہے، فورمین، میں نے اس معاملے پر ان دونوں حضرات کے ساتھ بات چیت کی ہے اور یہ اصحاب مجھ سے بالکل متفق ہیں کہ صورتحال مشکل ہے۔ سینٹ پیٹرس، نیویل اسکوائر جیسے گرجا میں، ہم ایسا چوب دار نہیں قبول کر سکتے جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو۔“

البرٹ ایڈورڈ کا دبلا پتلا، زرد چہرہ سرخ پڑ گیا اور اس نے بے چین ہو کر پہلو بدلا، لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔

”مجھے سمجھنے کی کوشش کرو، فورمین، مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ تم اپنا کام تسلی بخش کرتے ہو۔ میں تمہارے کردار اور محنت کی تہہ دل سے قدر کر تا ہوں۔ لیکن ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم تمہاری افسوسناک بے علمی کی وجہ سے کسی قسم کا خطرہ مول لیں۔ یہ ہی اصولی اور دانشمندی کا فیصلہ ہے۔“

”لیکن کیا تم پڑھنا لکھنا سیکھ نہیں سکتے، فورمین؟“ پادری نے پوچھا۔

”نہیں، جناب، مجھے افسوس ہے میں اب پڑھ لکھ نہیں سکتا۔ آپ دیکھ رہے ہیں، میں اب پہلے کی طرح جوان نہیں رہا۔ جب میں بچہ تھا تب حروف میرے پلے نہیں پڑتے تھے تو اب کیا سمجھ آئیں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں اب تعلیم حاصل کر سکتا ہوں۔“

”ہم تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتے، فورمین۔“ پادری نے کہا۔ لیکن میں اور گرجا وارڈنز نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم تم کو تین ماہ کا وقت دیں گے اور اگر اس مدت کے بعد بھی تم پڑھ لکھ نہیں سکے تو مجھے افسوس ہے کہ تم کو گرجا چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ ”

البرٹ ایڈورڈ کو نیا پادری کبھی سے پسند نہیں آیا تھا۔ وہ شروع سے کہہ رہا تھا کہ انہوں نے اسے سینٹ پیٹرز گرجا دے کر غلطی کی ہے۔ وہ اس قسم کا آدمی نہیں تھا جیسا وہ اس بہترین گرجا کے لیے چاہتے تھے۔ اور پھر اس نے خود کو تھوڑا سنبھالا۔ وہ اپنی قدر کرنا جانتا تھا اور اپنے ساتھ زیادتی کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔

` ”میری طرف سے معذرت ہے، جناب، مجھے افسوس ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ میرے جیسا بڈھا طوطا اب نہیں پڑھ سکتا۔ میں نے ساری زندگی پڑھنا لکھنا جانے بغیر گزار دی اور میں اپنی تعریف نہیں کرنا چاہتا، اپنی تعریف کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ خداوند کریم نے جو فرائض مجھے سونپے ہیں میں نے وہ سب اس حال میں بھی بہ احسن و خوبی انجام دیے ہیں اور اگر اب میں سیکھ بھی لوں تو مجھے نہیں معلوم جس طرح میں چاہتا ہوں اس طرح سیکھ پاؤں گا بھی یا نہیں۔ “

”اس صورت میں، فورمین، مجھے افسوس ہے کہ تمہیں جانا ہو گا۔“

”جی جناب، میں بالکل سمجھتا ہوں۔ جیسے ہی آپ کو میرا متبادل ملتا ہے میں آپ کو اپنا استعفیٰ بھیج دوں گا۔“

لیکن جب البرٹ ایڈورڈ نے باہر نکل کر اپنی معمول کی شائستگی کے ساتھ پوشاک گھر کا دروازہ آہستگی سے بند کیا تو وہ اپنا غیر متزلزل وقار برقرار نہیں رکھ سکا، جس کا مظاہرہ اس نے پادری اور وارڈنز سے بری خبر سننے کے بعد کیا تھا، اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا پوشاک گھر کی طرف واپس لوٹ گیا اور اپنا گاؤن اس کی مخصوص کھونٹی پر لٹکا دیا۔ اس نے ان بڑے جنازوں اور شاندار شادیوں کے بارے میں سوچ کر ایک آہ بھری جو اس گاون نے دیکھی تھیں۔

البرٹ ایڈورڈ نے صفائی ستھرائی کی، اپنا کوٹ پہنا، ہاتھ میں ہیٹ لیے نشستوں کا ہال عبور کیا اور گرجا سے نکل کر اس کے دروازے کو قفل لگا دیا۔ خراماں خراماں چوک پار کیا، لیکن گہری اداس سوچوں میں گم، بجائے اس گلی میں داخل ہونے کہ جو اسے اپنے گھر لے جاتی، جہاں اچھی سی کڑک چائے کی پیالی اس کی منتظر تھی، وہ غلط گلی میں مڑ گیا۔

وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ اس کا دل بوجھل تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ کیا کرے۔ اسے دوبارہ گھروں میں کام کرنے کا تصور بھی پسند نہیں تھا۔ اتنے سالوں تک وہ خود اپنا باس رہا تھا کیونکہ پادری اور گرجا وارڈنز صرف یہ کہتے تھے کہ انہیں کیا پسند ہے، لیکن اصل میں وہ ہی سینٹ پیٹرز نیو ویل اسکوائر چلاتا تھا، وہ کیسے دوبارہ گھروں میں نوکری کر کے اپنی تذلیل کر سکتا تھا۔ اس نے خاصی رقم بچت کر رکھی تھی، لیکن وہ اتنی بھی نہیں تھی کہ کوئی کام دھندا کیے بغیر زندگی گزر سکتی اور لگتا تھا کہ سال بہ سال مہنگائی بڑھ رہی تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سینٹ پیٹرز کے چوب دار بھی، روم کے پوپ کی طرح تاحیات کام کرتے تھے۔

وہ اکثر سوچتا تھا کہ کیسے پادری اس کی موت کے بعد پہلے اتوار کو شام کی عبادت کے خطبے میں اپنے مرحوم چوب دار کی طویل اور پر خلوص خدمات اور اعلیٰ کردار کی تعریف کرے گا۔ اس نے ایک گہری آہ بھری۔ ایڈورڈ فورمین نہ تمباکو نوشی کرتا تھا نہ شراب پیتا تھا لیکن کبھی کبھار رات کے کھانے کے ساتھ اسے بیئر کا ایک گلاس اچھا لگتا تھا یا تھکن میں ایک سگریٹ سے لطف اندوز ہو تا تھا۔ اس وقت بھی اسے لگا کہ ایک سگریٹ اسے سکون دے گا اور کیونکہ وہ انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھتا تھا اس نے گولڈ فلیک خریدنے کے لیے آس پاس نگاہ دوڑائی لیکن اسے کوئی دکان نظر نہیں آئی تو اس نے ذرا آگے بڑھ کر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک طویل گلی تھی، اس میں ہر قسم کی دکانیں تھیں مگر کوئی ایسی نہیں تھی جہاں سے سگریٹ خریدی جا سکتی۔

’بڑی عجیب بات ہے۔ ‘ البرٹ ایڈورڈ نے سوچا۔

تصدیق کے لیے اس نے دوبارہ پوری گلی کا چکر لگایا، بے شک وہاں سگریٹ کی کوئی دکان موجود نہیں تھی۔ اس نے ٹھہر کر کچھ سوچتے ہوئے اوپر نیچے دیکھا۔

اس نے سوچا کہ میں واحد آدمی تو نہیں ہو سکتا جو اس گلی سے گزرتے ہوئے ایک سگریٹ پینا چاہتا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو اگر کوئی آدمی یہاں چھوٹی سی تمباکو اور مٹھائی وغیرہ کی دکان کھول لے۔

وہ اچانک چونک پڑا۔
کیا آئیڈیا ہے۔ ”اس نے سوچا۔ جب کوئی امید نہیں ہوتی تب ذہن میں کیسے کیسے خیال آتے ہیں۔
وہ واپس پلٹا اور گھر پہنچ کر چائے پینا لگا۔
”البرٹ، تم آج بہت خاموش ہو۔“ اس کی بیوی نے کہا۔
”میں سوچ رہا ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔

البرٹ ایڈورڈ نے اس معاملے پر ہر زاویہ سے غور و فکر کیا اور اگلے دن اسی گلی میں اسے ڈھونڈنے پر ایک چھوٹی سی دکان مل گئی جو اس کے لیے انتہائی موزوں تھی۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر وہ اسے کرائے پر حاصل کر چکا تھا۔ ایک ماہ بعد اس نے سینٹ پیٹرز، نیوویل اسکوائر کو خیر باد کہا اور اس دکان میں تمباکو اور نیوز ایجنٹ کا کاروبار شروع کر دیا۔ اس کی بیوی نے کہا کہ سینٹ پیٹرز کے چوب دار کے لیے یہ بہت ہی شرم کی بات ہے، لیکن ایڈورڈ نے اسے جواب دیا کہ وقت کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے، چرچ اب وہ نہیں جو وہ ہے، لہذا جس کا تھا اس کے حوالے کر دیا۔

البرٹ کا کاروبار چل نکلا۔ کاروبار اتنا کامیاب رہا کہ ایک سال اور کچھ عرصے میں ہی اس نے سوچا کہ ایک دوسری دکان کھول کر اس میں مینجر لگا دیتا ہوں۔ اس نے ایک اور ایسی گلی تلاش کی جس میں کوئی دوسرا تمباکو فروش نہیں تھا اور جب ایسی گلی میں اسے ایک دکان مل گئی تو اس نے وہ بھی کرائے پر لے کر اس میں سامان بھر لیا۔ نئی دکان بھی خوب چل پڑی۔ پھر اسے خیال آیا کہ اگر وہ دو دکانیں چلا سکتا ہے تو آدھی درجن بھی سنبھال سکتا ہے۔

لہذا اس نے لندن میں گھومنا شروع کر دیا اور جہاں اسے ایسی گلی ملتی جہاں تمباکو فروش کی دکان نہیں ہوتی، وہ وہاں دکان کرائے پر لے لیتا۔ کم و بیش دس سال کے عرصے میں اس کے پاس دس دکانیں تھیں اور وہ خوب پیسا کما رہا تھا۔ وہ ہر پیر تمام دکانوں پر خود جاتا اور پورے ہفتے کی کمائی اکٹھی کر کے بینک لے جاتا تھا۔

ایک صبح جب وہ نوٹوں کی گڈی اور چاندی کے سکوں کا بھاری بیگ بینک میں جمع کروا رہا تھا اسے کیشیئر نے اطلاع دی کہ مینجر اس سے ملنا چاہتا ہے۔ اسے ایک آفس میں پہنچا دیا گیا۔ مینجر نے اس سے مصافحہ کر نے کے بعد کہا۔

”مسٹر فور مین، میں آپ سے ان پیسوں کے متعلق بات کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے بینک میں جمع ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ کل کتنی رقم ہے؟“

” بالکل ٹھیک سے تو نہیں معلوم، جناب ؛ بس اندازہ ہے۔“

”جو پیسے آپ نے آج صبح جمع کروائے ہیں ان کے علاوہ کل تیس ہزار سے تھوڑی زیادہ رقم ہے۔ بینک میں ڈپازٹ رکھنے کے لیے یہ خاصی بڑی رقم ہے اور میرا آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اس پیسے کی سرمایہ کاری کر دیں۔ “

”میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا، جناب۔ مجھے معلوم ہے کہ میرا پیسہ بینک میں زیادہ محفوظ ہے۔ “

”آپ کو فکر کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آپ کو قابل بھروسا سکیوریٹیز کی فہرست بنا کر دیں گے۔ وہ آپ کو ہم سے زیادہ بہتر شرح سود پر منافع ادا کریں گی۔ “

”مسٹر فورمین کے پر وقار چہرے پر پریشانی نظر آنے لگی۔

” میں نے اسٹاک اور شیئرز میں کبھی سرمایہ کاری نہیں کی، اس لیے مجھے سب کچھ آپ پر انحصار کرنا پڑے گا۔“ البرٹ ایڈورڈ نے کہا۔

مینجر مسکرانے لگا۔ ”ہم سب سنبھال لیں گے۔ آپ کو بس اتنا کرنا ہے کہ جب اگلی بار آپ بینک آئیں تو ٹرانسفر کے کاغذات پر دستخط کر دیں۔ “

”دستخط تو میں کر سکتا ہوں۔“ البرٹ نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ”لیکن مجھے یہ کیسے پتا چلے گا کہ میں کس چیز پر دستخط کر رہا ہوں؟“

” آپ پڑھ تو سکتے ہیں نا۔“ مینجر نے فوراً ہی کہا۔

”مسٹر فورمین نے مینجر کو معصومانہ مسکراہٹ سے دیکھا۔“ جناب، یہ ہی بات ہے، میں پڑھ نہیں سکتا۔ میں جانتا ہوں یہ کچھ عجیب بات ہے، لیکن ایسا ہی ہے۔ میں سوائے اپنے نام کے کچھ پڑھ لکھ نہیں سکتا اور یہ بھی میں نے اس وقت سیکھا جب اپنا کاروبار کرنا شروع کیا۔ ”

مینجر اس قدر حیران ہوا کہ اپنی کرسی پر اچھل پڑا۔
”ایسی غیر معمولی بات میں نے پہلی بار سنی ہے۔ “

”ایسا ہی ہے، جناب۔ پہلے موقع نہیں ملا اور جب ملا تو دیر ہو چکی تھی اور بس پھر میں پڑھ لکھ نہیں سکا۔ میں کچھ ڈھیٹ ہو چکا تھا۔“

مینجر نے اسے یوں دیکھا جیسے وہ کوئی قبل از مسیح کا عفریت ہو۔

”آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ یہ اتنا بڑا کاروبار اور تیس ہزار پاونڈ کی دولت، آپ نے لکھنا پڑھنا جانے بغیر بنائی ہے؟ اوہ خدایا! صاحب، اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو آج کیا ہوتے؟“

”جناب، یہ بات میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔“ مسٹر فورمین نے کہا۔ ایک دھیمی سی مسکراہٹ فورمین کے پر وقار چہرے پر پھیل گئی۔

”میں سینٹ پیٹرز، نیو ویل اسکوائر میں چوب دار ہوتا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments