بے نظیر بھٹو سے متعلق یادیں


نارمن کی یونیورسٹی آف اوکلاہوما کی خوبصورت عمارتوں کے پاس سے گزرتے ہوئے میں سوچتی ہوں کہ کیا ہوا اگر ہم یہاں نہیں پڑھ پائے۔ یہاں پڑھانے کا موقع مگر مل رہا ہے۔ کل میری بیٹی عائشہ اور میرے درمیان ایک دلچسپ گفتگو ہوئی جس پر یہ بلاگ مبنی ہے۔

عائشہ: کیا آپ مجھے اپنی وہ تصویر بھیج سکتی ہیں جس میں بے نظیر بھٹو آپ کو کوئی ڈپلوما دے رہی ہیں؟ آج میری کلاس میں بے نظیر کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔

میں نے اپنے کمرے کی دیوار پر اسکاچ ٹیپ سے چپکی ہوئی 1998 میں لی گئی تصویر کی تصویر اپنے فون سے کھینچ کر اس کو ٹیکسٹ میسج میں بھیجی۔

عائشہ: یہ کون سا سال تھا؟ آپ میڈیکل اسکول میں تھیں یا ہائی اسکول میں؟ کیا میں یہ تصویر اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ شیئر کر سکتی ہوں؟

میں : یہ چانڈکا میڈیکل کالج کی تصویر ہے جس میں یہ میڈل مجھے فورتھ ایئر ایم بی بی ایس میں پہلی پوزیشن لانے پر ملا تھا۔ اس تصویر کو کلاس کے ساتھ شیئر کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

عائشہ: میں نے کلاس میں کہا کہ آپ بے نظیر کو رول ماڈل کی طرح دیکھتی تھیں لیکن ہر سیاست دان میں کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں اور یہ کہ آپ نے بے نظیر کے قتل کو خواتین کی تحریک کے خلاف ایک علامت کی طرح دیکھا تھا۔ کیا میرا اندازہ درست ہے؟

میں : چونکہ ہمارے اپنے خاندان کے زیادہ تر افراد مسلم لیگی تھے یا جماعت اسلامی کے تھے، وہ بے نظیر کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کی تنقید یقیناً میرے خیالات پر اثر انداز ہوئی ہوگی۔ بے نظیر کی لیڈرشپ ایک طرف خواتین کی بڑی کامیابی تھی لیکن اس میں کچھ خامیاں بھی تھیں۔ ان کی پارٹی کرپٹ تھی، وہ لوگ جاگیر دار گھرانے کے تھے جن کو انگریز کے زمانے سے زمینیں ملی ہوئی تھیں۔ بے نظیر نے مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور انہوں نے کتابیں بھی لکھی تھیں۔ مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک عام شہری یا خاتون کی نمائندہ نہیں ہیں۔ مولوی ان سے نفرت کرتے تھے جیسا کہ وہ خواتین سے کرتے ہیں۔ آرتھوڈاکس اسلام میں خواتین کی لیڈرشپ کے خلاف مواد موجود ہے۔

عائشہ : کیا آپ ان کی ایک خاتون کے طور پر عزت کرتی تھیں؟ کیا وہ خواتین کے لیے مزید حقوق چاہتی تھیں؟

میں : بے نظیر خواتین کے لیے حقوق کی بات تو کرتی تھیں لیکن ان کی اپنی زندگی، پہننا اوڑھنا، رہنا سہنا الیٹ کلاس کا تھا۔ ٹی وی پر وہ مہنگے چشموں اور ملبوسات میں دکھائی دیتی تھیں۔ ان کا دھیان عام پاکستانیوں کے مسائل سے زیادہ اپنے اوپر دکھائی دیتا تھا۔ وہ کچھ پالیسیوں پر کام کر رہی تھیں لیکن مشینری میں بہت سارے ایسے لوگ تھے جن میں لیاقت کی کمی تھی اور ان کو نوکریوں میں صرف پارٹی کے کارکن ہونے کی وجہ سے بھرتی کر لیا گیا تھا۔

میرے خیال میں بے نظیر بھٹو کو ایک عام پاکستانی خاتون کی زندگی اور ان کے مسائل کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا۔ جہاں تک ہمارے اپنے خیالات کا تعلق ہے تو کم عمری میں ہم بھی جو بھی اپنے بڑوں سے سنتے تھے وہی بغیر سوچے سمجھے دہراتے تھے۔ حالانکہ خود ہر طرح کی لیڈری کی ہے اور کامیابی سے کی ہے لیکن ساتھ میں یہ تضاد بھی خیالات میں موجود تھا۔ جب ہم اپنے بچپن کی سیکھی ہوئی باتیں، سنی سنائی باتیں بغیر سوچے دہراتے ہیں تو اسی طرح حقیقت سے کٹ جاتے ہیں۔ میں خود بھی وہی دہرا دیتی تھی کہ خواتین لیڈر نہیں ہو سکتی ہیں۔

عائشہ: نووووووو! پھر آپ اور میں دوست نہیں ہوسکتے تھے! (ہنسنے والی ایموجی)
میں : میں جانتی ہوں! (ہنسنے والی ایموجی)
عائشہ : آپ نے ان کے قتل کے بارے میں کیا سوچا؟

میں : اس وقت میں پٹسپرگ پینسلوانیا میں انٹرنل میڈیسن ریزیڈنسی کے دوران آئی سی یو میں کام کر رہی تھی۔ جب مجھے یہ خبر پتا چلی تو میرا دل اداسی سے بھر گیا۔ اس وقت تک ہمیں اتنی تو سمجھ آ چکی تھی کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن اس طرح ایک بے گناہ معصوم انسان کو قتل کر دینا کوئی مثبت قدم نہیں ہے۔

عائشہ: اور اب پیچھے مڑ کر دیکھ کر آپ کے کیا خیالات ہیں؟

میں : یہ ایک ٹریجڈی تھی۔ اگر تم اس خاندان کی تاریخ پڑھو تو بدنصیب موت ان کا پیچھا کرتی رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک بھٹو کی دردناک موت ہوئی ہے۔ ان کے ایک بھائی بھی ہمارے کالج میں آئے تھے جن کو کسی نے کراچی میں گولیاں مار کر جان سے مار دیا تھا۔

عائشہ: افسوسناک سچ۔ سیاسی قتل سماجی اور سیاسی غیر استقامت کی نشانی ہوتے ہیں۔

میں : بے نظیر بھٹو نے تین چھوٹے بچے اپنے پیچھے چھوڑے جو اپنی ماں کی محبت کے بغیر بڑے ہوئے۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال تھی۔ ان تمام حالات کے باوجود ان کے خاندان میں سے کئی افراد نے سیاست کے میدان میں قدم رکھے۔ سندھ میں بھٹو خاندان کی عقیدت موجود ہے۔ طاقت اور مقبولیت انسانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ میرا اپنا خیال ہے کہ یہ لوگ کبھی بھی عام پاکستانی کے مسائل نہ سمجھ سکیں گے اور نہ ہی ان کو حل کرسکیں گے۔ اور جو تعلیم یافتہ اور روشن خیال عام افراد تبدیلی لا سکتے ہیں ان کو ہماری قوم ووٹ نہیں ڈالتی ہے۔ ہمارے پرانے ملک میں زیادہ تر افراد کم تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے احساسات اور جذبات مذہب، قوم پرستی اور شخصیت پرستی کے گرد گھومتے ہیں۔

عائشہ: اگر آپ سمجھتی تھیں کہ خواتین کو لیڈر نہیں بننا چاہیے تو جب بے نظیر بھٹو نے آپ کو ایوارڈ دیا تو آپ نے کیسا محسوس کیا؟

میں : میرے لیے یہ اعزاز قبول کرنا خوشی کی بات تھی۔ وہ ایک مشہور شخصیت تھیں۔ جب وہ ہمارے کالج میں آئیں تو وہاں ایک بڑا ہجوم تھا۔ اسٹیج تک پہنچنا ہی ایک مشکل کام تھا۔ جب میں وہاں پہنچی تو بے نظیر نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ ایک لیڈی آئی ہیں۔ ان کی بات کو میں نے اس وقت اچھی طرح سے نہیں سمجھا تھا۔ اس وقت ہمیں خواتین کے خلاف تعصب اور ان کی بدحالی کے اعداد و شمار کا اتنا اندازہ نہیں تھا۔ وہ انٹرنیٹ کی دنیا سے پہلے کی ایک دنیا تھی۔

ہماری ایک چھوٹے سے دائرے میں زندگی تھی جس میں بچپن سے یہی پڑھتے اور سنتے تھے کہ ہمارا ملک سب سے عظیم ہے، ہمارا مذہب خواتین کو بہت حقوق دیتا ہے۔ مجھے اس وقت اس بات کی پوری طرح سمجھ نہیں تھی کہ میری اپنی زندگی میں جو کامیابیاں میں نے حاصل کیں ان کی دنیا کی بڑی تصویر میں کیا اہمیت تھی؟ اس وقت ہم بھی دیگر نوجوان خواتین کی طرح نظام پر یقین رکھتے تھے کہ اچھا کرنے والوں کے ساتھ اچھا ہی ہوتا ہے۔ وقت نے سمجھا دیا کہ ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔

عائشہ: یہ ایک کول کہانی ہے؟ کیا آپ کے پاس اب بھی وہ میڈل ہے؟
میں : نہیں کالج کے زمانے کے سارے میڈل پیچھے ہی رہ گئے۔
عائشہ: انگوٹھا نیچے کرنے والا ایموجی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments