ترقی پسند تحریک


15 اپریل 1936 کو لکھنو میں ادیبوں اور شاعروں کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کی صدارت نامور افسانہ نگار منشی پریم چند نے تھی۔ اس کانفرنس سے اردو ادب کی ایک بڑی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا جو متنازعہ بھی تھی اور جاندار بھی یہ ترقی پسند تحریک تھی۔ لکھنو کے متذکرہ کانفرنس ایک اعلامیہ کی بنیاد پر منعقد ہوئی تھی جو اس سے پہلے لندن میں مقیم نوجوان ہندوستانی ادیبوں اور طالب علموں ( سجاد ظہیر، ملک راج آنند، ڈاکٹر محمد دین تاثیر، سین گپتا وغیرہ ) کی قائم کردہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا تیار کردہ تھا۔ انجمن کے اس اعلان نامہ پر ہندوستان کے کئی بڑے ادیبوں نے دستخط کیے تھے۔

لکھنو کی پہلی کانفرنس کے بعد سے یہ تحریک بڑی تیزی سے پھیلنے لگی اردو کے بڑے ادیبوں اور شاعروں مثلاً پریم چند۔ جوش ملیح آبادی، حسرت موہانی، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر عابد حسین، نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، علی حسین عباسی اور ساغر نظامی اس کے موئد اور رہنما تھے۔

انجمن کی دوسری کانفرنس کلکتہ 1938 میں ہوئی جس کی افتتاح ”رابندر ناتھ ٹیگور“ کے خطبے سے ہوا۔ ترقی پسند تحریک کی منفرد خصوصیت یہ تھی کہ پہلی بار ہندوستان میں ادب کو ایک منشور کے تابع کیا گیا ( انجمن کا اعلان نامہ اس کا منشور ٹھہرایا گیا ) کسی ادبی تحریک کو یوں مقاصد کے زیر تابع بنانا ایک نیا انداز فکر تھا۔

تحریک کے منشور کے مطابق ان کے مقاصد کچھ اس طرح تھے۔ نئی تبدیلی کا اظہار، سائنسی عقلیت کا فروغ، رجعت پسندوں کے چنگل سے ادب کی گلو خلاصی اور اس کو عوام کے قریب لا کر زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا موثر ذریعہ بنانا، زندگی کے بنیادی مسائل مثلاً بھوک، افلاس، جہالت سماجی پستی، اور غلامی کو موضوعات بنانا وغیرہ۔

پہلی کانفرنس میں اپنے خطبہ صدارت میں منشی پریم چند نے ادب کا اصل مقصد کچھ یوں بیان کیا تھا۔ ”جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے۔ ہم میں قوت و حرکت بیدار نہ کرے ہمارا جذبہ حسن نہ جاگے۔ جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے۔

انجمن کے اہم اعلانات کے مطابق ترقی پسند نظریہ کے اہم اصول درجہ ذیل تھے۔
1۔ ادب کو زندگی کے لیے مفید ہونا چاہیے۔
2۔ ادب کو آزادی اور ترقی کی قوتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اور جبر و استحصال کے خلاف صف آراء ہونا چاہیے
3۔ ادب کو نئے امکانات جذب کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
4۔ اسلوب، ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے جدت کا حامی ہونا چاہیے۔
5 ادب کو انسانیت کا ترجمان اور ہمدرد ہونا چاہیے۔
6۔ ادب میں سچائی حقیقت اور عقلی صداقتوں کی ترجمانی ہونی چاہیے۔

تحریک کے مذکور مقاصد اور اصول اپنی جگہ اہم، معقول اور قابل قبول تھے گو تحریک نظریاتی اعتبار سے اشتراکیت کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھی جو اس کے متنازعہ ہونے کا ایک سبب بھی بنی۔ تاہم عصر کی اصلی روح نے اس کا ساتھ دیا اور اس کے بنیادی عقائد یا تصورات کو دانستہ یا نا دانستہ قبول کیا گیا۔ معاشی مساوات، انسانیت دوستی، ماضی کے بجائے حال پر توجہ کا رجحان، پرانی تہذیبی اقدار کے بجائے نئی اقدار میں دلچسپی عام ہو رہی تھی اور برصغیر میں اس کا اثر پڑ رہا تھا۔ پس منظر میں سر سید تحریک کا ادبی ورثہ بھی موجود تھا۔

تحریک اپنے آغاز سے بڑی تیزی سے پھیلنے لگی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ کہ تھی کہ اس نے زندگی اور عوام سے رشتہ جوڑا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی سامراج دشمنی اور جمہوریت پسندی ایسے عناصر تھے جن پر اکثر ہندوستانیوں کو اتفاق تھا۔ اپنے وقت کے نامور ادباء اور شعراء کی تائید اور حمایت حاصل تھی۔

)

ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ ترقی پسند تحریک سر سید تحریک کے بعد اردو ادب کا سب سے پرجوش اور تخلیقی مظاہرہ تھا۔ جس نے اپنے برگ و بار کے اعتبار سے بڑا گراں بہا سرمایہ پیدا کیا اور شعور کے لحاظ سے زندگی کی بعض ان بصیرتوں کا ادراک کیا اور کرایا جو سماجی حقائق اور عمرانی تقاضوں کے عین مطابق تھیں۔

ترقی پسندوں نے سر سید کی عقلیت اور مقصدیت کو زیادہ واضح اور مستحکم کر کے زندگی کا مکمل ترجمان قرار دیا۔ تاہم اپنی مقبولیت، وسعت اور افادیت کے باوجود تحریک کو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انگریز سرکار کے عناد کے تو اپنے اسباب تھے لیکن بعض ملکی حلقے بھی تحریک کی مخالفت پر اتر آئیں۔ تحریک کے بارے بعض وجوہات کی بنا غلط فہمیاں بھی پھیل گئیں تھیں مثلاً یہ کہ

ا ) تحریک پرانے تہذیبی اور ادبی ورثے کو مٹا رہی۔
ب ) مادیت پرستی کی علمبردار۔
ج) جدیدیت کے لبادے میں غیر ملکی تہذیب کی پرچارک ہے۔
د) روسی اشتراکیت کی مبلغ ہے۔
ر) حقیقت نگاری کے بہانے عریانی اور بداخلاقی پھیلا رہی ہے۔
ز) تخلیقی جدت کے نام پر ادبی روایات کو ملیا میٹ کر رہی ہے۔

مذکورہ الزامات کو وزن دار بنانے میں تحریک کے بعض رجحانات کا بھی حصہ تھا۔ پہلا یہ کہ تحریک کے آغاز میں ترقی پسندی کے جوش میں ماضی سے یکسر رشتہ منقطع کرنے کا رجحان نمایاں تر تھا۔ دوسرا یہ کہ گو تحریک ادبی تھی لیکن ابتداء سے ان میں سیاست کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے خالص تخلیقی ادیب تحریک سے کٹتے گئے۔

اگرچہ تحریک کے بانیوں سجاد ظہیر اور علی سردار جعفری نے وضاحت کی کہ ہر نئے ادب کو ترقی پسند سمجھنا تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش ہے مگر اس سلسلے میں ترقی پسند رہنماؤں کی اپنی غلطیاں بھی تھیں۔ ان کے بعض لکھاریوں کی تحاریر میں غیر معتدل بلکہ تخریبی انداز اختیار کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بعض موقعوں پر فحاشی اور عریانی کے مظاہرے بھی شدت سے ہوتے رہے۔ تحریک کے بڑے رہنماؤں نے ان رجحانات کے خلاف ردعمل کا احساس کیا اور ترقی پسندی کو معقول راستے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے تخریبی اور غیر صحت مندانہ رجحانات کا پرچار کرنے والے ادباء کو تحریک سے غیر متعلق قرار دیا اور کلاسیکی ادب، قومی تہذیب اور روحانی روایات میں دلچسپی لینے لگے۔

تحریک اور ادبی اصناف۔

ترقی پسند تحریک کے تحت اصناف ادب میں افسانہ۔ نظم اور تنقید پر زیادہ توجہ دی گئی اور ان تینوں اصناف کو سوچ اور فکر کی ایسی شاہراہ پر ڈالا جن پر ملک کے آئندہ ادب کو چار و نا چار گامزن ہونا پڑا۔ ان اصناف میں تحریک کی خدمات کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔

افسانہ۔ اس صنف میں پہلا نام منشی پریم چند کا آتا ہے۔ پریم چند ترقی پسند تحریک سے بہت قبل ہی افسانے کے بانیوں میں شامل تھے اور حقیقت نگاری کے مکتب کی بنیاد رکھ چکے تھے جس نے ترقی پسند تحریک کے لیے ایک ذہنی فضا تیار کی۔ 20 ویں صدی کے پہلے عشرے میں اس کے افسانوں کا مجموعہ ( سوز وطن ) انگریز حکومت ضبط کر چکی تھی۔ اپنی 56 سالہ زندگی میں اس نے ڈھائی سو کے لگ بھگ افسانے اور درجن سے زیادہ ناول لکھے۔ وطن دوستی، انسان پرستی، سماجی اصلاح، معاشی مساوات اور مذہبی رواداری سے اس کی زاویہ نگاہ کی تشکیل ہوئی تھی۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر ”پریم چند کے فنی شعور، زاویہ نگاہ اور تخلیقات میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جن سے ترقی پسندی عبارت ہے۔“

ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ”کرشن چندر“ ، ”راجندر سنگھ بیدی“ ، ”حیات اللہ انصاری“ ، ”علی عباس حسینی“ ، ”سعادت حسین منٹو“ ، ”عصمت چغتائی“ ، ”عزیز احمد“ ، ”احمد ندیم قاسمی“ ، ”بلونت سنگھ“ ، ”اختر حسین رائے پوری“ ، ”اوپندر ناتھ اشک“ ، ”مرزا ادیب“ نے اردو افسانے کو موضوعات، تکنیک اور اسلوب ہر لحاظ سے مالا مال کر دیا۔

ترقی پسند تحریک چونکہ ایک احتجاج تھا اس لیے اس سے وابستہ قلم کاروں نے ہر معاشرتی ناہمواری اور معاشرے کے ہر استحصالی پہلو کے خلاف احتجاج کیا۔ اگرچہ اس دور کے کچھ افسانے بعض قلم کاروں کے خام فنی شعور یا اوائل دور کے جوش و جذبات کے باعث ذرا غیر معتدل نوعیت کے ہیں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو افسانے نے ترقی پسند تحریک کے تحت جو ترقی کی وہ صرف اسی تحریک کا حصہ ہے۔ کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، بیدی، علی عباس حسینی، منٹو، غلام عباس، عزیز احمد، حیات انصاری، خدیجہ مستور، اشفاق احمد، ممتاز مفتی اختر حسین، عصمت چغتائی، مرزا ادیب وغیرہ وہ افسانہ نگار ہیں جن کے افسانے موضوعات اور فن دونوں کے لحاظ سے صحیح معنوں میں ترقی پسندانہ معیار کے ہیں۔ مذکورہ افسانہ نگاروں میں اگرچہ بعض باقاعدہ طور اس تحریک سے وابستہ نہ تھے پھر بھی ان کا فن اس جاندار تحریک سے متاثر رہا۔

شاعری۔

اس میدان میں نظم پر خاص توجہ دی گئی۔ غزل کے متعلق رویہ بیگانگی کا رہا۔ تحریک کے زیر اثر آزاد نظم نے غیر معمولی ترقی کی۔ اگرچہ ”میرا جی“ ، ”تصدق حسین خالد“ اور ”ن م راشد“ آزاد نظم کے اولین معماروں میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن ترقی پسند تحریک کے رہنماؤں نے ان کو اپنی تحریک سے غیر متعلق قرار دیا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، مجاز، احمد ندیم قاسمی، عارف متین، ظہیر کاشمیری، مختار صدیقی، جان نثار اختر، جذبی، اختر الایمان، ساحر لدھیانوی، احسان دانش وغیرہ وہ شعراء ہیں جنہوں نے کافی اچھی شاعری تخلیق کی۔ تنوع اور تجربات سے اردو شاعری کو مالا مال کیا۔ ان میں فیض احمد فیض تو وہ شاعر ہے جس پر تحریک بلکہ ساری اردو شاعری بلا مبالغہ فخر کر سکتی ہے۔ نظم کی ترقی کے علاوہ ترقی پسند شعراء نے بعض پرانی علامتوں کو نئی زندگی دی۔ بعض الفاظ کو پھر سے شاعری میں رائج کیا۔

تنقید۔ تنقید ہر ادبی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی پسند تحریک نے تخلیقات کی پرکھ اور ماضی کے اسالیب و روایات کی چھان بین کے لیے جو نئی تنقید جنم دی وہ بقول ڈاکٹر سلیم اختر ”اصول و قوانین کے لحاظ سے مارکسی اشتراکی تنقید ہے“

ایک رائے کے مطابق صرف اسی تنقید کو اردو ادب کا باقاعدہ دبستان قرار دیا جا سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز میں انتہا پسندانہ رویے کے باعث ماضی سے انقطاع کا رجحان پایا جاتا تھا۔ اسی کے تحت ”میر سے غالب“ تک کے شعراء اور کئی دوسرے ادبی شخصیات اور سرمائے کی اہمیت گھٹا دی گئی تاہم بعد میں مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین اور احمد علی جیسے متوازن اور سلجھے ہوئے نقاد سامنے آئے جنہوں نے اعتدال سے کام لے کر عصری ادب میں نئی جہات ڈھونڈ نکالے۔ ماضی کے شعراء پر نئے انداز سے روشنی ڈال کر ان کی عظمت بڑھا دی۔

ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور کے مقاصد کے لیے بنیادی کام افسانے اور نظم سے لیا۔ تاہم اس کے ساتھ طنز نگاری کے میدان میں بھی بعض اچھی تخلیقات پیش کی گئیں۔ اس حوالے سے کرشن چندر، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، احمد ندیم قاسمی، ابراہیم جلیس اور منٹو نمایاں نام ہیں۔

خاکہ نگاری اور رپورتاژ کے اصناف میں بھی تحریک نے اچھا خاصا اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ اس دور میں چند ایک اچھے ناول بھی لکھے گئے مختصر یہ کہ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو موضوعات، اسالیب اور ہیئت کے لحاظ سے بہت کچھ دیا۔

1947 ع میں تقسیم ہند کے بعد ترقی پسند تحریک بڑے نشیب و فراز سے گزری جس کے کئی اسباب تھے۔ تقیسم کے بعد نئے اور مختلف حالات اور واقعات کے باعث ترقی پسندوں کی انجمن پر انتہا پسندوں کا غلبہ ہو گیا۔ نئے حالات اور تبدیلیوں کے ساتھ ترقی پسندی کے مفہوم میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت تھی مگر انتہا پسندوں کے بے لچک روئیے کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ اکثر اعتدال پسند لکھاری تحریک سے جدا ہوتے گئے یوں انجمن انتشار کا شکار ہو گئی۔

اس کے ساتھ مخالفین نے ان کو غدار، کمیونسٹ اور روسی الہ کار کہنا شروع کیا۔ بالائی طبقے پر مشتمل حکمران ٹولے نے نوکر شاہی کے ذریعے تحریک کو زیر عتاب رکھا۔ نئے حالات میں تحریک کے بعض ارکان اعلی عہدوں کے پیچھے پڑ گئے اور بعض حکومتی دباؤ کا سامنا نہ کر سکے یوں یہ بیک وقت متنازع اور جاندار تحریک منتشر ہوتی گئی اور 1956 میں اگرچہ اس کا باقاعدہ خاتمہ ہو گیا۔ تاہم اس نے اردو ادب کو مختلف حوالوں سے بہت کچھ عطا کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments